بجٹ سے بچت تک

موجودہ بجٹ کا جائزہ توکوئی ماہرِ معیشت ہی لے سکتا ہے لیکن اگر اناڑی کو بھی تبصرے کی اجازت ہو توکوشش کی جاسکتی ہے۔


[email protected]

سنا ہے بجٹ آیا تھا ، اسمبلی میں پیش ہوا ، پڑھ کر سنایا گیا ، پاس بھی ہوجائے گا ، نافذالعمل بھی ہوگا۔

اب یہ الگ بات ہے کہ غربت کی لکیر سے کہیں نیچے جینے والے عوام کا بجٹ وہ لوگ بناتے ہیں جو امارت کی لکیر سے بہت اُوپر ہیں اور وہی پیش کرتے ہیں البتہ سننے والے یعنی سامعین ((oppositionبجٹ پیش کرنے والوں سے ایک درجہ نیچے ہوتے ہیں کیونکہ وہ حکومت میں نہیں ہوتے لہٰذا ان کا دولت کا انبار چھت سے ایک اینٹ کم ہوتا ہوگا۔

یہ میرا خیال ہے جو ضروری نہیں درست ہو ، ممکن ہے اپوزیشن میں ایک طبقہ حکومت سے بھی زیادہ دولت مند ہو ، لیکن ظاہر ہے کہ ملک کے خزانے حکومت کے کنٹرول میں ہوتے ہیں تو ان کے کیا ٹھکانے؟ اربوں ، کھربوں کی بات ہوتی ہے کئی سو ارب کئی سو کھرب۔ ادھر میرے ایک دوست امیر علی کی بیگم اور وہ خود روزانہ مجھ سے بحث کرتے ہیں کہ اتنی رقم دنیا میں ہوتی ہی نہیں ہے اتنے نوٹ بھلا کون چھاپ سکتا ہے ! میں ان دونوں کو اکثر سمجھاتا ہوں کہ اس سے بھی زیادہ نوٹ چھپتے ہیں اور خرچ بھی ہوتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ میں انھیں بتاتا ہوں کہ ملکی منصوبوں میں ، تعلیم پر ، صحت پر ، زراعت پر اور بہت سی جگہوں پر حکومت یہ پیسے خرچ کرتی ہے۔

امیر علی کی بیگم کہتی ہیں کہ '' بھائی وہ پڑوس والی بھابی کا بچہ تو دوائی کے بغیر مرگیا تھا اور میرے مُنیِ کے اسکول داخلے کی فیس نہیں ہے تو حکومت پیسے کہاں خرچ کرتی ہے؟ میں توکہتی ہوں حکومت غریب ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اتنے سارے پیسے ہوتے ہی نہیں ہیں۔'' امیر علی بھی لقمہ دیتے ہوئے اصرارکرتا ہے کہ '' تمہاری بھابی صحیح کہتی ہیں ،کئی سو ارب روپے ! ہم نے تو نہ دیکھے نہ سنے۔'' اب میں ان کوکیسے سمجھاؤں لہٰذا چپ ہوجاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہمارے عوام آج بھی کتنے معصوم ہیں، انھیں کیا پتا کہ ان کے ملک میں اور کیا کیا ہوتا ہے۔

موجودہ بجٹ کا جائزہ توکوئی ماہرِ معیشت ہی لے سکتا ہے لیکن اگر اناڑی کو بھی تبصرے کی اجازت ہو توکوشش کی جاسکتی ہے ۔ دیکھیے بظاہر یہ بجٹ سننے میں اچھا ہے کئی ایسے معاملات پر بھی ٹیکسز میں چھوٹ دی گئی جو براہِ راست عام آدمی سے تعلق رکھتے ہیں۔

معاشی صورتحال بھی بتدریج بہتری کی جانب گامزن ہے البتہ بیرونی قرضوں کے حجم میں ڈیڑھ گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ، برآمدات میں بھی بہتری ہے لیکن درآمدات میں کمی نہ لائی جاسکی۔ ملکی صنعت میں بھی خاطر خواہ ترقی ممکن نا ہوسکی۔ ایک عام آدمی کی زندگی میں سرے سے ہی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ مہنگائی نے غریب کو غریب ترکردیا ادھر کورونا وائرس نے بجٹ کو خواص کا بجٹ بنانے میں ایک بڑا کردار ادا کیا کیونکہ عام حالات میں جو وسائل حکومت کے پاس ہوتے ہیں وہ کورونا سے بچاؤ مہم پر خرچ ہوگئے اور ایسا دنیا بھر میں ہوا بڑے بڑے ادارے زمین بوس ہوگئے۔

تاجروں کے اربوں ڈالرز ڈوب گئے یعنی اگر مان لیا جائے کہ اس وائرس نے انسانی نفسیات میں بھی کچھ بنیادی تبدیلیاں کیں تو بے جا نہ ہوگا، لیکن میرا موضوع بجٹ ہے میں اُسی پر آتا ہوں ، دیکھیے دنیا بھر میں جہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی ترقی پر ہے وہاں کچھ شعبہ ہائے زندگی ایسے ہوتے ہیں جن کی منصوبہ بندی سال ہا سال تبدیل نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر تعلیم ، صحت ، بلدیاتی سہولیات ، عدالتی نظام ، یہ وہ محکمے ہیں جو براہِ راست انسانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر انسانی زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔

ان محکموں میں policies کا تسلسل رہتا ہے حکومتیں خواہ تبدیل ہوتی رہیں لیکن ہر آنے جانے والی حکومت اپنی پیشروحکومت کی پالیسی کو یکسر رد نہیں کرتی، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے ، جو حکومت آتی ہے وہ سب سے پہلے انھی اداروں کو چھیڑتی ہے اور ہر دفعہ ہر بار نت نئی پالیسی حتیٰ کے نصاب تک بدل دیا جاتا ہے، لہٰذا ان شعبوں میں بہتری کم آتی ہے ۔ انڈسٹریزکے معاملے میں کوئی حکومت آج تک یہ بنیادی نقطہ طے نہیں کرسکی کہ یہ صنعتیں ملکی ہیں یا غیر ملکی؟ کیونکہ جو سلوک ان سے روا رکھا جاتا ہے وہ تو سوتیلے پن کا سا ہوتا ہے۔

آپ جب تک انڈسٹریز کو وہ سہولتیں نہیں دیں گے جو کم ازکم آپ کے پڑوسی ممالک نے دی ہوئی ہیں کیونکر صنعت سازی ترقی کرسکے گی؟ میں حیدرآباد شہرکی پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔اب سے قریبًا دو سال قبل حیدرآباد شہرکی انتظامیہ نے ایک آرڈرکے تحت دو شہروں کے درمیان چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کو شہرکی حدود سے باہر نکال دیا جس میں بظاہر ایک آرڈر کو بنیاد بنایا گیا تھا کہ شہر میں کیونکہ ٹریفک کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں لہٰذا ہم ٹرانسپورٹ کو City Limits سے باہر نکال رہے ہیں ، لیکن کہاں نکال رہے ہیں کچھ پتہ نہیں ،آرڈر تھا کہ بس باہر جاؤکہیں بھی جاؤ۔ ٹرانسپورٹرز بہت روئے پیٹے کہ کہاں جائیں؟ آپ ہمیں کوئی ٹرمنل بنا دیں وہاں چلے جاتے ہیں لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔

لہٰذاجس کا جہاں منہ اٹھا وہ وہاں چلا گیا ، ان بسوں ،ویگنوں میں کون سفرکرتا ہے؟ مسافروں میں اکثر اوقات بوڑھے ، بچے ، عورتیں ہوتے ہیں ان کا اب یہ حال ہوا کہ کسی کو اول تو یہ پتہ نا چل سکا کہ ان کی مطلوبہ سروس چلتی کہاں سے ہے؟ اور جب پتا چلا تو معلوم ہوا کہ وہ تو ان کے علاقے سے کافی دور ہوگئی ہے۔

لہٰذا اب رکشے کا کرایہ بھرو۔آج تک حیدرآباد شہر میں کوئی اسپتال بنا نہ سڑک نہ ہی عمدہ میونسپل سروسزکا انتظام ہوسکا لیکن پورے حیدرآباد کو اُجاڑ کر رکھ دیا۔ یہ کیسی حکومت ہے ، طاقت ہے، بادشاہت ہے جہاں کی رعایا پس رہی ہے ، بھوک سے بلبلا رہی ہے یہ کیسا ملک ہے جہاں انصاف نہیں ،عدل نہیں اور جو وسائل ہیں وہ بس اُ مراء کے لیے مخصوص ہیں۔کیا پاکستان میں غریبوں کے لیے قبرستان رہ گئے ہیں ؟اور امراء کے لیے جنت نظیر وادیاں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ ملک کی جیلوں میں کوئی امیر آدمی دکھا دیں جو اسیر ہو جس پر کیس چلا ہو جسے سزا ہوئی ہو ! سب ڈھونگ ہے ڈرامہ ہے۔

صاف بات یہ ہے کہ ملک اہلِ اقتدارکا ہے طاقتورکا ہے ہرجابروظالم کا ہے ، امیروکبیرکا ہے لیکن نہیں ہے تو غریب کا ، مزدورکا، بائیس کروڑ انسان مذاق ہیں ، تقریریں جھوٹی ، وعدے فریب ، ہر نئے برس کے نئے خواب کبھی بجٹ کی صورت میں کبھی الیکشن کی شکل میں۔ مجال ہے کہ کبھی کوئی حقیقی رعایت کسی غریب کو ملی ہوکوئی قانون اس کا بھی ہو،کوئی آئین اس مفلوک الحال شخص کو بھی Supportکرتا ہو ۔

اعداد وشمارکا یہ فریب دیکھتے ہوئے بھی73برس بیت گئے لیکن پڑوس والی خالہ کا بچہ اسپتال نہ پہنچ سکا ،امیر علی کی بیٹی کی اسکول فیس نہ بھری جا سکی ، زاہد رکشے والا مہینے کا راشن نہ لا سکا ، خمیسو خان کے گھرانے کو زمیندار نے بے دخل کردیا ، رضوی صاحب اسکول ٹیچرکی دختر اب تک شادی کی منتظر ہیں لیکن بجٹ آگیا۔ ایک بار پھر بجٹ آگیا ، سنا ہے اس سال کوئی غریب، غریب نہیں رہے گا۔ پتہ نہیں مجھے تو اخبار سے معلوم ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔