پیپلز پارٹی قیادت کے اہم سیاسی رہنماؤں سے رابطے شمولیت کی دعوت

اہم سیاسی و قبائلی شخصیات کی شمولیت کے فیصلے پر سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ اب اگلی باری پی پی پی کی لگتی ہے؟


رضا الرحمٰن June 16, 2021
اہم سیاسی و قبائلی شخصیات کی شمولیت کے فیصلے پر سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ اب اگلی باری پی پی پی کی لگتی ہے؟ فوٹو : فائل

پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیئے ہیں ۔

صوبے کی اہم سیاسی و قبائلی شخصیات سے اپنے روابط بڑھاتے ہوئے انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے ۔ اب تک کی خبروں کے مطابق سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ نے اپنے ان ساتھیوں کے ہمراہ پی پی پی میں شمولیت اختیار کرنے کا گرین سگنل دے دیا ہے۔

جنہوں نے ان کے ہمراہ ن لیگ کو خیر باد کہا تھا جبکہ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ بعض سابق ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز کے علاوہ بر سراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے بھی بعض عہدیداران و کارکن پی پی پی میں شمولیت اختیار کریں گے ؟

اس حوالے سے بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت کو بھی تشویش لاحق ہوگئی ہے اور وہ اپنی جماعت میں پی پی پی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے حوالے سے معلومات بھی اکٹھی کر رہی ہے ۔ بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان سے تحریک انصاف کے بھی ناراض لوگ پی پی پی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں جس کے لئے مشاورت جاری ہے۔

سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ حال ہی میں اسلام آباد میں پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کر چکے ہیں جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا سابق صدر آصف علی زرداری سے ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا ہے۔

تاہم مشاورت کے لئے 15جون کو کوئٹہ میں نواب ثناء اللہ زہری اور جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ نے ایک اجلاس بھی بلایا ہے جس میں پی پی پی میں شمولیت کے حوالے سے وہ اپنے تمام ساتھیوں کو اعتماد میں لیں گے اور اس کے بعد گرینڈ شمولیتی پروگرام کے انعقاد کے لئے تاریخ کو حتمی شکل دی جائے گی جس میں آصف زرداری یا بلاول بھٹو زرداری شریک ہونگے۔ اُدھر پی پی پی بلوچستان نے اپنی کابینہ میں بھی ردوبدل کیا ہے۔

پارٹی کا نیا صوبائی صدر سابق وفاقی وزیر میر چنگیز جمالی اور جنرل سیکرٹری سابق سینیٹر روزی خان کاکڑکو مقرر کیا گیا ہے جبکہ بعض دیگر عہدوں میں بھی روبدل کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2008 میں بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے کے بعد 5 سال تک بر سر اقتدار رہنے والی پی پی پی عام انتخابات اور پھر بلدیاتی انتخابات میں بلوچستان سے بری طرح ہٹ گئی تھی ۔

کونسلر تک کے لئے پارٹی امیدوار سامنے نہیں آئے اس دوران سابق صوبائی وزیر علی مدد جتک نے بطور صدر اور سید اقبال شاہ نے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے پارٹی کوفعال کرنے کے لئے دن رات محنت کی اور 2018 کے عام نتخابات میں بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے مختلف اضلاع سے امیدوار کھڑے کئے گو کہ پی پی پی کے کسی امیدوارکو کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن بعض حلقوں میں پارٹی کے امیدواروں نے اچھے نتائج دیئے۔

اس دوران بلوچستان سے پی پی پی میں شمولیتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو کہ آج بھی جاری ہے اور موجودہ صورتحال میں پی پی پی میں بلوچستان سے بعض اہم سیاسی و قبائلی شخصیات کی شمولیت کے فیصلے پر سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ اب اگلی باری پی پی پی کی لگتی ہے؟ تاہم یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے۔ سیاسی مبصرین کے بلوچستان کی سیاست ہمیشہ قبائلی اور سیاسی شخصیات کے گرد رہی ہے اور پی پی پی میں قدآور سیاسی و قبائلی شخصیات کی شمولیت سے آئندہ عام انتخابات میں اسکے مثبت اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

پی پی پی میں اس وقت بھی بعض اہم سیاسی و قبائلی شخصیات موجود ہیں تاہم نواب ثناء اللہ زہری جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور دیگر اہم قبائلی و سیاسی شخصیات کی شمولیت سے پی پی پی بلوچستان میں سیاسی لحاظ سے مزید مضبوط اور فعال ہوگی ۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنی مخلوط حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے اتحادیوں سے کئے گئے وعدے وفا کرنا شروع کردیئے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اپنی جماعت کے کوٹے کی ایک وزارت اتحادی جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو دے دی جبکہ ان کے مشیر کا عہدہ جمہوری وطن پارٹی کے رکن اسمبلی میر گہرام بگٹی کو دے دیا ہے جنہیں ایک دو روز میں محکمے کا قلمدان بھی سونپ دیا جائے گا۔ اسی طرح وزیراعلیٰ جام کمال نے اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی تجویز پر ایک ڈویژن اور دو اضلاع تشکیل دینے کا وعدہ بھی پورا کر دیا ہے۔

اس سے قبل انہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں اے این پی کو سپورٹ کرکے انہیں ایک سینیٹر دینے کا جو وعدہ کیا تھا اسے بھی پورا کردیا ہے۔ ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی تجویز پر بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں نمائندگی بھی (ایچ ڈی پی کے نامزد کردہ)دے دی ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق جام کمال کی تیسری اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کو بھی کچھ تحفظات تھے اور وہ بھی اپنے وزارت میں کچھ ردوبدل کروانا چاہتی ہے امید کی جا رہی ہے کہ بی این پی عوامی کے تحفظات کو بھی جلد دور کردیا جائیگا جبکہ جام مخلوط حکومت کی بڑی اتحادی جماعت تحریک انصاف اس وقت ایک پیج نہیں ہے تاہم اس کے تحفظات کے حوالے سے وزیراعلیٰ جام کمال پارٹی مرکزی قیادت سے رابطے میں ہیں ۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس وقت پچ پر بہت ہی شاندار کھیل رہے ہیں اور اپنے دائیں بائیں اور سامنے اچھے شارٹ کھیل کر اپوزیشن کو ہر معاملے میں ناک آؤٹ کر رہے ہیں ۔ متحدہ اپوزیشن نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ جام حکومت نے ماضی کی طرح ہماری تجاویز اور اسکیمات کو آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ میں شامل نہ کیا تو ہم عوام سمیت سڑکوں پر ہونگے اور جام حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کا یہ چوتھا بجٹ ہے لیکن حکومت ماضی کی طرح اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں مصروف ہے ۔

23 ارکان اسمبلی اپوزیشن بینچوں سے تعلق رکھتے ہیں انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور غیر منتخب لوگوں کو خوش کیا جا رہا ہے حالانکہ اپوزیشن کے ارکان بھی عوامی منتخب نمائندے ہیں لوگ اپنے مسائل ان کے پاس لیکر آتے ہیں انہیں حکومت بجٹ میں وہ حیثیت نہیں دے رہی جو کہ اسے ایک عوامی نمائندے کو دینی چاہئے۔

متحدہ اپوزیشن نے صوبائی بجٹ سے قبل بلوچستان اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانے کے لئے درخواست دی تھی جس پر اجلاس طلب کر لیا گیا ۔ متحدہ اپوزیشن نے اس خصوصی اجلاس میں صوبائی بجٹ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بجٹ کے خلاف دھرنے کا اعلان کیا اور اپنی تجاویز شامل نہ کرنے تک دھرنا جاری رکھنے اور بجٹ کے موقع پر اپنا الگ بجٹ پیش کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں