یونیورسٹیز کی عالمی درجہ بندی ایک بڑا فراڈ

کرپشن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی غیر معیاری یونیورسٹی عالمی درجہ بندی میں بہتر ہوجاتی ہے تو یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے


کیا رینکنگ میں آنے والی یونیورسٹیز کا معیار پاکستان کی دیگر یونیورسٹیز سے زیادہ بہتر ہے؟ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: میرے چند دوست بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کےلیے مقیم ہیں۔ اکثر و بیشتر پاکستان میں تحقیق کے معیار، نتائج اور تعلیمی سہولیات پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہی پاکستانی جامعات کی عالمی درجہ بندی میں عدم موجودگی پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں پاکستان کی 9 جامعات کے حوالے سے خوشخبری ملی کہ یہ پانچ سو بڑی بین الاقوامی یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل ہوچکی ہیں۔ میں خوشی سے جھوم اٹھا، لیکن میری یہ خوشی اگلے ہی لمحے دور ہوگئی جب فہرست میں ایسی یونیورسٹیز پہلے نمبروں پر دیکھیں جہاں والدین بچوں کو بھیجنا پسند نہیں کرتے، جبکہ والدین اور بچوں کی ترجیحی یونیورسٹیز اس درجہ بندی میں کافی نیچے تھیں۔

کیا اس درجہ بندی کو پاکستان کےلیے خوشخبری سمجھا جائے؟ کیا واقعی ان 9 پاکستانی یونیورسٹیز کا معیار تعلیم بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ان سوالات کا جواب جاننے کےلیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ یونیورسٹیز کی درجہ بندی کیسے کی جاتی ہے؟

ٹائمز ہائیر ایجوکیشن نامی ادارہ ہر سال یونیورسٹیز کی عالمی درجہ بندی کے نتائج کا اعلان کرتا ہے۔ رواں سال ادارے نے 93 ممالک کی 1500 یونیورسٹیز کا جائزہ لیا، جس میں جامعات میں طریقہ تدریس، تحقیق، نالج شیئر اور بین الاقوامی سطح پر علمی خدمات کا مطالعہ کیا گیا۔ ادارے نے 8 کروڑ سائیٹیشنز، 130 لاکھ تحقیقی مقالوں اور 22 ہزار اسکالرز سے سروے کے بعد نتائج جاری کیے۔ سروے کے دوران یونیورسٹیز میں طلبا اور اساتذہ کا تناسب، مرد اور خواتین طلبا کا تناسب، انٹرنیشنل جرنلز میں چھپنے والی تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد، یونیورسٹی آف پشاور، زرعی یونیورسٹی، فیصل آباد، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، لمز لاہور، نسٹ اور پنجاب یونیورسٹی شامل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا رینکنگ میں آنے والی یونیورسٹیز کا معیار پاکستان کی دیگر یونیورسٹیز سے زیادہ بہتر ہے؟ پاکستان جہاں کرپشن معاشرے کی رگ رگ میں بسی ہے، وہاں تعلیمی نظام کو بھی کرپشن زدہ کردیا ہے۔ رینکنگ کا معیار جانچنے کےلیے جو معروضی نظام ٹائمز ہائیر ایجوکیشن نے استعمال کیا ہے، اسے پاکستان میں پسند کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے تعصب اور ذاتی پسند کے کلچر کا فروغ ملتا ہے۔

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم پر ایک مافیا کا قبضہ ہے، یہ مافیا کارٹیلز کی شکل میں کام کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو ہر معاملے پر سپورٹ کرتا ہے۔ قومی خزانے کو سالانہ کروڑوں روپے کا چونا لگایا جاتا ہے۔ یہی مافیا اپنی مرضی کی ریٹنگ جاری کرواتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اور طلبا کی نظر میں معیاری جامعات کی ریٹنگ کم، جبکہ غیر معیاری جامعات کی درجہ بندی کو بہتر دکھایا گیا ہے۔ یہ مافیا کام کیسے کرتا ہے؟ یونیورسٹیز کی درجہ بندی میں اس مافیا کا کیا کردار ہے؟

اگرچہ گزشتہ چند برس کے دوران اعلیٰ معیار تعلیم کے معیار کا جائزہ لینے کےلیے ایچ ای سی نے چند سخت اصول طے کیے ہیں، مگر بار بار ان اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی، اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اب یونیورسٹی کے اساتذہ کی ترقی کےلیے تحقیق کو بطور ضروری جزو شامل کیا گیا ہے۔ اسی لیے کسی بھی لیکچرار کا یونیورسٹی میں پروفیسر بننا اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ اس کے تحقیقی مقالات بین الاقوامی سطح کے جریدوں میں شائع نہ ہوئے ہوں۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تحقیقی جریدوں کی درجہ بندی ان کی اہمیت کے ساتھ ڈبلیو، ایکس، وائی اور زیڈ کی صورت میں کی ہے۔ چونکہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی کا براہ راست تعلق بھی ایچ ای سی کے مطابق اب تحقیقی اشاعت سے جوڑا جاچکا ہے۔ اس لیے اب اس شعبہ میں بھی جعلسازی یا کرپشن کا بازار گرم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ملک بھر کی جامعات میں کئی پروفیسرز اور لیکچرارز ایسے ہیں جنہوں نے جعل سازی کے ذریعے پیپرز شائع کروا کر ترقیاں کروائیں۔ اب ہم آپ کے سامنے تحقیقی مقالہ جات میں کرپشن کے مختلف طریقے رکھتے ہیں۔

یونیورسٹیز میں تحقیقی مقالے شائع کرنے کےلیے اساتذہ بھی دو مختلف کیمپوں میں تقسیم ہیں۔ اپنی پسند کے اساتذہ کے غیر معیاری تحقیقی مقالے شائع کردیے جاتے ہیں، جبکہ مخالف کیمپ کے اساتذہ کے معیاری مقالوں کو بھی جگہ نہیں دی جاتی۔ یہی نہیں بلکہ یونیورسٹیز کے اساتذہ آپس میں رابطے میں رہتے ہیں، اپنے دوستوں کے ذریعے جرنلز میں اپنے مقالے شائع کرواتے ہیں، تاکہ وہ اپنی پروموشن کی ضروریات پوری کرسکیں۔ اب اگر ایک استاد اپنی دوست کی مدد کرتا ہے تو وہ دوسرے سے بھی ایسی ہی توقع رکھتا ہے۔ کرپشن کا دوسرا انداز کرائے کے ریسرچرز، معاون مصنف کا نظام ہے۔

معاون مصنف نظام، ایک فرد ریسرچ کرتا ہے، وہ آرٹیکل پر کڑی محنت کرتا ہے، لیکن وہ اپنے ساتھ ایک ایسے فرد کا نام بھی لکھ دیتا ہے، جسے مقالے میں کی جانے والی تحقیق کی الف ب بھی معلوم نہیں ہوتی۔ پی ایچ ڈی کے طالب علموں کے بہت سے سپروائزر ان سے توقع کرتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں کہ طالب علموں کے تحقیقی مقالوں میں ان کا نام بھی شریک محقق کے طور پر شامل کیا جائے۔ اگر طالب علم ایسا نہ کریں تو ان کے تحقیقی کاموں میں معاونت سے ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح کرائے کے مصنفین سے بھی مضامین لکھوائے جاتے ہیں۔ ہر کیٹیگری کے تحقیقی مضمون کا مختلف ریٹ ہوتا ہے۔ ان طریقوں سے متعدد معمولی فیکلٹی ممبر اپنے نام سے سیکڑوں اشاعتوں کا دعویٰ کرتا ہے۔ کسی بھی آرٹیکل کے معیار کا جائزہ اس کے شائع ہونے کے بعد لایا جاتا ہے، عالمی سطح پر اس آرٹیکل کو زیادہ وقعت دی جاتی ہے، جسے محققین اپنی تحقیق میں شامل کرتے ہیں اور حوالہ بھی دیتے ہیں۔ یہاں پر بھی جرنلز مافیا اپنی کارکردگی دکھاتا ہے۔ جعل سازی کے ذریعے شائع شدہ تحقیقاتی مضامین کا پلندہ ہونے کے باوجود ان کا حوالہ عالمی سطح پر کہیں بھی نہیں دیا گیا ہوتا۔ لیکن قارئین آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ محققین کا یہ مافیا یہاں پر بھی کام کرتا ہے اور اپنے مضامین میں اپنے گروپ کے لوگوں کی غیر معیاری تحقیقات کا حوالہ بھی شامل کرتا ہے۔ اس طرح ان پروفیسرز کا سائیٹیشن کاؤنٹ بڑھ جاتا ہے۔ جرنلز مافیا کرپٹ افراد کی طرح ریویو پراسیس کو بھی فکس کرتے ہیں۔

اس تعلیمی بددیانتی، تحقیق میں کرپشن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی غیر معیاری یونیورسٹی عالمی درجہ بندی میں بہتر ہوجاتی ہے تو یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ جس یونیورسٹی کے پروفیسرز کے مقالے زیادہ چھپیں گے، جہاں اساتذہ اور طلبا کا تناسب بہتر ہوگا، جہاں کورسز حقیقت کے بجائے فائلوں پر پڑھایا جائے گا۔ اس جامعہ کی درجہ بندی بہتر ہی ہوگی۔ یونیورسٹیز کی رینکنگ کا معیار بہتر ہونے پر شادیانے تو بجائے جارہے ہیں، لیکن اس معیار کے پیچھے جعل سازی کو کون دیکھے گا؟ تحقیقی مضامین میں کرپشن کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ جرنلز مافیا کا راستہ کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟ یقیناً ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ان تمام معاملات کو کنٹرول کرنے کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ تبھی معیار بھی بہتر ہوگا اور خوشی کے شادیانے بھی بجائے جاسکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں