پانی کی تقسیم کے معاملے پر سیاست کے بجائے افہام و تفہیم پیدا کرنے کی ضرورت

صوبوں میں بڑھتی ہوئی تلخی کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم خود اقدامات کریں،شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


صوبوں میں بڑھتی ہوئی تلخی کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم خود اقدامات کریں،شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا معاملہ مزیدگھمبیر صورتحال اختیار کرگیا ہے اور سندھ کی جانب سے پنجاب پر یہ الزامات لگائے جارہے ہیں کہ اس کے حصے کا پانی چوری کیا جارہاہے۔

پیپلزپارٹی سندھ پانی کے مسئلہ کو اب سڑکوں پر لے آئی ہے اور مختلف ضلعی ہیڈکوارٹرز میں پانی کے ایشو پر مظاہرے اور دھرنے شروع کیے جارہے ہیں، سندھ اور پنجاب میں پانی کے مسئلہ پر یہ تلخی نئی نہیں ہی ماضی کے کئی ادوار میں پانی کے معاملے پر کھل کر سیاست ہوتی رہی ہے اور پھر1991ء میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک فارمولا طے پایا تھا جس کے بعد کئی برس یہ ایشو گو ختم نہیں ہوا مگر اس کی شدت وہ نہیں تھی جو حالیہ نظر آرہی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ پانی چوری کے الزامات کو مسترد کرکے سندھ حکومت کو یہ پیش کش کرچکے ہیں کہ وہ اپنے وزرا اور ایکسپرٹس کو پنجاب کے بیراجوں کے دورے کے لیے بھیجیں تاکہ وہ اس بات کا تعین کرسکیں کہ پانی چوری کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے مگر سندھ نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا ہے اس وقت پانی کی سیاست اپنے عروج کی طرف گامزن ہے، سندھ کے الزامات میں کتنی حقیقت ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا تاہم صوبے میں اس وقت کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔

دریا خشک نظر آرہا ہے جبکہ ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ آنے سے مینگرو اور آباد زمینوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے کیوں کہ سمندر کا پانی اوپر آرہا ہے، بڑھتی ہوئی تلخی کم کرنے اور معاملات کو فوری کنٹرول کرنے کے لیے اس سنجیدہ معاملے کو سیاست کی نظر نہیں ہونا چاہیے وزیر اعظم جلد ازجلد اس تنازع کو حل کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تو بہت اچھا ہوگا، ایکسپریس نے اپنے قارئین کو اس اہم معاملے کے بارے میں سندھ کے صوبائی وزیر آبپاشی سہیل انور سیال، سابق وزیر زراعت اور اپوزیشن کے رکن عارف مصطفی جتوئی اورسابق سیکریٹری محکمہ آبپاشی سندھ ادریس راجپوت سے اس حوالے سے آگہی حاصل کی جو پیش خدمت ہے ۔

صوبہ سندھ کو 1991 کے پانی کے معاہدے پر تحفظات رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ معاہدے پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جارہا، ہم اس پر اس لیے عمل کرنے کی بات کرتے ہیں کہ وہ معاہدہ آئین کا حصہ ہے، سندھ کا اصولی موقف ہے کہ پانی کی کمی کو بھی یکساں تقسیم کرنا چاہیے۔

ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ پانی کی تقسیم منصفانہ طور پر کی جائے، اس وقت بھی صوبہ سند ھ میں 49 فیصد پانی کی کمی ہے جبکہ پنجاب میں یہ کمی صرف32.7 فیصد ہے، اصل مسئلہ صوبہ سندھ کو اپنے حصے کا پانی نہ ملنا ہے جس کی ذمے داری ارسا پر ہے، تازہ اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں گڈو کے مقام پر پانی کی کمی 65 فیصد ہے جبکہ سکھر بیراج پر 35.5 کمی ہے اور کوٹری بیراج پر 60.2 فیصد پانی کم ہے ، اب آپ خود بتائیں کہ صورتحال کتنی سنگین ہوچکی ہے، پنجاب سے پانی کی چوری کی جارہی ہے۔

اس وقت گڈو کے مقام پر رکارڈ کمی ہے، اس صورتحال میں بھی اگر سندھ میں پانی کی کمی کو سنجیدہ نہ لیا جائے تو پھر سندھ کے لوگ تو احتجاج پر مجبور ہونگے، ارسا کے انسپکٹر خود بیراجوں کا دورہ کرکے گئے ہیں ، انھوں نے سندھ کے بیراجوں کے اعداد وشمار صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے، ارسا کی جانب سے ہمارے اوپر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ہم گڈو بیراج پر پانی ذخیرہ کر رہے ہیں ، گڈو بیراج کوئی ڈیم تھوڑی ہے کہ وہاں پانی ذخیرہ کیا جاسکے، کسی بیراج پر پانی کیسے جمع کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے اوپر یہ بھی الزام لگایا جارہاہے کہ سندھ میں بااثر زمینداروں کو پانی فراہم کیا جارہا ہے اور پانی کی کمی کا شکار صرف چھوٹے آبادگار ہیں ، میں کہتا ہوں وہ لوگ ذرا رائس کینال پر جاکر صورتحال دیکھیں ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زرعی زمینیں رائس کینال پر آباد ہوتی ہیں ، وہاں جاکر دیکھیں وہ بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہے، دادو کینال پر میری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زمینیں آباد ہوتی ہیں لیکن ان کو بھی پانی نہیں مل رہا ہے۔

ڈاؤن اسٹریم کوٹری میں جاکر دیکھیں وہاں مٹی اڑ رہی ہے، 1991کے معاہدے میں کہیں بھی تھری ٹیئر فارمولے کا تذکرہ نہیں ، لیکن ارسا اپنا فارمولا بنا کر پانی تقسیم کر رہی ہے جس کا نقصان سندھ کو ہو رہا ہے ، صوبہ سندھ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، ہم نے اپنا مسئلہ وزیر اعظم کے سامنے بھی رکھا ، انھوں نے بیراجوں پر انسپکٹروں کا تقرر کرنے اور ٹیلی میٹری سسٹم نصب کرنے کا مشورہ دیا جسے ہم نے تسلیم کیا ، میں یہ نہیں کہتا کہ سندھ میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

یہاں بھی مسائل ہیں اور ہم انھیں حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ، صوبے میں پانی چوری ہوتا ہے تو اس پر کارروائی بھی کی جاتی ہے ، پانی چوری میں ملوث لوگوں کے خلاف کیسز داخل ہوتے ہیں ، ہم نے حال ہی میں زرعی پانی کی چوری کی شکایات وصول کرنے کے لیے واٹس ایپ نمبر جاری کیا ہے ، کہیں بھی شکایت موصول ہونے پر 72 گھنٹوں میں کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے ، ہر سال سندھ حکومت پانی چوری روکنے کے لیے رینجرز کو مقرر کرتی ہے، ہم اپنی ذمے داری پوری طرح نبھا رہے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے، سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باوجود چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند کی کو کھلا رکھاگیا ہے، لیکن اس پر ارسا اور ارسا چیئرمین خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند کینال فوری طور پر بند کیے جائیں اور سندھ کو اپنے حصے کا پانی دیا جائے، ہمارا کیس پانی معاہدے پر عملدرآمد کا ہے، ہمارے ارکان اسمبلی پنجاب کے بیراجوں کا دورہ نہیں کرینگے ، وہ چشمہ جہلم لنک ، کینال اور ٹی پی لنک کینال میں پانی چھوڑنے کا جواب دیں ، صوبے میں غیر قانونی لنک کینال کھولے گئے جس سے سندھ کو 3ارب ڈالر نقصان ہوا، رواں سیزن 33اعشاریہ ایم اے ایف پانی ملناچاہیے تھا جو 30اعشاریہ 89ایم اے ایف ملا ۔ ان کا کہنا تھا تونسہ بیراج سے گدو بیراج تک غیر قانونی پمپنگ مشینیں لگاکر سندھ کا پانی چوری کیا جا رہا ہے، اگر جائز حق نہیں ملا تو سندھ حکومت عوام کے ساتھ ملکر ہر محاز پر لڑیں گے۔

پانی کی کمی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں اور نہ ہی یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے، ماضی میں صوبوں کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش رہا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ میں بھی پانی کی کمی کے باعث زراعت کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں، حکومت سندھ صرف پانی کی کمی کا رونا روتی ہے اور پنجاب پر پانی چوری کے الزامات عائد کرتی ہے، کیا یہ ہی کافی ہے۔

نہیں، حکومت سندھ یا پیپلز پارٹی صرف پانی کی کمی کا رونا روکر اور پنجاب پر الزامات لگا کر اپنے فرائض سے منہ نہیں پھیر سکتی ، میں یہ کہتا ہوں کہ پنجاب سے شکوے، شکایتیں کرنے سے پہلے ہم پانی کی صورتحال کی بہتری کے لیے جو چیزیں خود کرسکتے ہیں کم از کم وہ تو کریں ، حکومت سندھ اپنے صوبے میں زرعی پانی کے کم سے کم استعمال کے لیے اقداما تکرسکتی ہے، جس طرح میں نے اپنے دور وزارت میں کیا تھا ، میں نے ڈرپ اری گیشن کو صوبے میں متعارف کرایا تھا جس سے پانی کے استعمال کو 30 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح کسانوں کو ایسی فصلیں کاشت کرنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے جس میں کم سے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، حکومت سندھ صرف پانی کی کمی کا رونا رونے کے بجائے اس طرح کے اقدامات کر سکتی ہے، میں سمجھتا ہوں کو صوبے کی صرف چند بڑی کینالوں کو پکا کرنے سے زرعی پانی کو 20 فیصد تک بچایا جاسکتا ہے، حکومت سند ھ یا پیپلز پارٹی عوام کو یہ بھی بتائے کہ انھوں نے سندھ کے سب سے بڑے کینال روہڑی کینال کو پکا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں، اسی طرح رائس کینال اوردادو کینال کو پکا کرنے سے کافی حد تک پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے لیکن حکومت سندھ نے مذکورہ کینالوں کو پکا کرنے پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی، صرف پانی کی کی کمی کا رونا رونے اور پنجاب پر پانی چوری کے الزامات عائد کرنے سے پانی کی کمی کا مسئلہ تو حل نہیں ہوسکتا ۔

ملک میں جب بھی زرعی پانی کی کمی ہوتی ہے تمام صوبوں کے ساتھ مسئلہ ہوتا ہے، صوبہ سندھ میں یہ مسئلہ اس لیے شدت کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے کہ پانی کی کمی کی صورتحال میں پانی کے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور پانی کی تقیسم معاہدے کے تحت نہیں ہوتی، اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ درست ہے کہ صوبہ سندھ میں زرعی پانی ضائع بھی ہوتا ہے اور پانی کی چوری بھی ہوتی ہے، اس مسئلے کو حل کرنا بھی ضروری ہے، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب بھی ملک میں پانی کی کمی واقع ہوتی ہے اور صوبہ سندھ میں پانی کم پہنچتا ہے تو یہا ں پر بھی بااثر لوگ اور سیاستدان اپنی زمینوں کے لیے پانی حاصل کرلیتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی دستیاب نہیں ہوتا اور کوٹری کے نیچے tale end پر واقع زرعی زمینوں کے لیے پانی بلکل بھی دستیاب نہیں ہوتا، ویسے توزرعی استعمال کے علاوہ انڈس ڈیلٹا کے لیے ایک مقرر مقدار میں پانی کی دستیابی ضروری ہوتی ہے لیکن پانی کی کمی کے دنوں میں ایسا ممکن نہیں رہتا، انڈس ڈیلٹا کے 8.6 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں