شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
الیکٹرانک میڈیا کے فروغ سے بلا شبہ بہت سی نئی روایات قائم ہوئی ہیں لیکن کچھ معاملات میں اس کا کردار توجہ طلب ہیں
اقبالؔ نے تب و تاب جاودانہ کو جو صلۂ شہید قرار دیا تھا تو یہ سو فی صد درست تھا اور اس کی ایک حالیہ اور زندہ مثال ہمارے وہ شہداء ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں نثار کرتے چلے آ رہے ہیں اور ہمارے کَل کے تحفظ اور ترقی کے لیے اپنا آج اس طرح قربان کر دیتے ہیں کہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ان شہدأ کی تعداد ہزاروں میں ہے جو دہشت گردی کا نشانہ بنے اور اس حوالے سے یہ سب کے سب ہی قابل تعظیم ہیں لیکن اس وقت میں اس کاروان کے صرف تین قافلہ سالاروں کے حوالے سے بات کروں گا کہ مقصد ان تمام قابلِ تکریم اور جنتی لوگوں کے اسمائے گرامی کی گنتی نہیں بلکہ اس جذبے کی تحسین اور وضاحت ہے جو ہمارا اجتماعی سرمایہ اور ورثہ ہے۔
ان میں سے دو زیادہ معروف ناموں کا تعلق زمانۂ حال سے اور تیسرے کا ماضی قریب سے ہے۔ میری مراد چوہدری محمد اسلم شہید، اعتزاز حسن شہید اور سلمان سرور شہید سے ہے، پہلے کچھ باتیں سلمان سرور شہید کے بارے میں۔ سلمان کے والد پنجاب پولیس کے ایک بہادر اور مثالی افسر امتیاز سرور ہیں جو اپنے محاذ پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں جب کہ سلمان شہید کا تعلق پاک فوج سے تھا جس میں وہ کیپٹن کے عہدے پر فائز تھا اور اس کا شمار ان جوانوں میں ہوتا تھا جو ہر خطرناک مشن کے لیے خود آگے بڑھ کر اپنا نام لکھواتے تھے اور اپنی دلیری اور جی داری کی وجہ سے ہر محاذ پر پیش پیش ہوتے تھے۔ چند ماہ قبل جب وہ خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوا تو مجھے امتیاز سرور کے گھر تعزیت کے لیے آنے والے اس کے کچھ افسروں اور ساتھیوں سے ملنے اور اس کی شہادت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا بلا شبہ وہ ایک ایسا مثالی بہادر مجاہد تھا جس پر پاک فوج اور پاکستانی قوم فخر کر سکتی ہے۔ اس کی کمان میں لڑنے والے جوان اس کی بہادری اور جذبۂ شہادت کی داستانیں سناتے نہیں تھکتے اور عینی شاہدین اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہ صرف اس معرکے میں سب سے آگے تھا بلکہ اس کی شہادت بھی زخمی جوانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کے دوران اس وقت ہوئی جب وہ دشمن کا حملہ تقریباً پسپا کر چکے تھے۔ سلمان سرور کی شہادت جس طرح پاک فوج کے لیے باعث افتخار بنی بالکل اسی طرح چوہدری اسلم کی شہادت محکمہ پولیس اور نو عمر بہادر اعتزاز حسن کی شہادت نوجوان نسل اور پاکستان کے دلیر اور غیور شہریوں کے لیے ایک عزت کا مقام ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے فروغ سے بلا شبہ بہت سی نئی اور اچھی روایات بھی قائم ہوئی ہیں لیکن کچھ معاملات میں اس کا کردار توجہ طلب اور بعض صورتوں میں باقاعدہ منفی اور غیر ذمے دارانہ بھی رہا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ قابل اعتراض اور گمراہ کن اظہار Breaking News کے حوالے سے سامنے آیا ہے کہ اپنی بات میں وزن اور سنسنی پیدا کرنے کے لیے اسٹوڈیو میں موجود اینکر اور نیوز ریڈر اور موقع واردات پر موجود رپورٹر حضرات ہر خبر کو اس طرح سے اچھالتے ہیں کہ گدھے اور گھوڑے کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ شہدأ اور دہشت گردی کی وارداتوں سے متعلق خبریں اپنے حوالے سے ایک خاص نوع کی احتیاط اور ذمے داری کی متقاضی ہوتی ہیں کیونکہ ایک غلط یا غیر تصدیق شدہ خبر سے گوناگوں قسم کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ، مجھے ذاتی طور پر اس وقت بے حد تکلیف ہوتی ہے جب کوئی نیوز ریڈر یا اینکر پرسن انسان کو بے جان اشیاء کی طرح اعداد کی زبان میں یوں بیان کرتا ہے کہ فلاں حادثے میں تین درجن لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے، میرے خیال میں اظہار کا یہ طریقہ نہ صرف انسانیت کی توہین کے زمرے میں آتا ہے بلکہ اس سے ایک ایسی بے حسی اور سنگدلی بھی ظاہر ہوتی ہے جس کا عمومی تاثر بہت ناگوار اور تکلیف دہ ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی کسی واردات کے فوراً بعد موقع واردات پر کس قسم کی Panic-Tention اور افراتفری ہوتی ہے۔
ایک طرف زخمیوں کی چیخ و پکار دوسری طرف بے قابو اور بے ترتیب ہجوم (جو عام طور پر امدادی کارروائیوں کے رستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے) اور تیسری طرف پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا مخصوص طریقۂ کار یعنی موقع واردات کو گھیرے میں لینے کے باعث، صحیح اور اصل معلومات تک فوری رسائی ممکن ہی نہیں ہوتی جب کہ ٹی وی چینل اپنے ناظرین کو ایک ایک لمحے کی براہ راست رپورٹنگ کی دھن میں یا تو ایک ہی مخصوص Footage بار بار دکھاتے چلے جاتے ہیں یا پھر موقع پر موجود رپورٹرز سے ایسی تفصیلات کا تقاضا کرتے ہیں جن تک رسائی ممکن ہی نہیں ہوتی، سو غلط فہمیوں اور افواہوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے غبار میں اصل خبر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر شہید ایس پی چوہدری اسلم کی شہادت کے تین چار گھنٹوں کے دوران نشر ہونے والی خبروں اور رپورٹوں کو ذہن میں لا کر دیکھیے کہ ان کی نقل و حرکت، ساتھیوں، طریقۂ واردات، بلٹ یا بم پروف گاڑی اور حملے کی نوعیت کے بارے میں کس قدر متضاد بیانات سامنے آئے، کم و بیش ایسی ہی صورت حال خیبر پختونخوا کے ایک اسکول پر دہشت گرد کے حملے اور اس کو روکنے کی کوشش میں نو عمر بہادر اور محب وطن طالب علم اعتزاز حسن کے عظیم کارنامے کے ضمن میں سامنے آئی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہر چینل کو اس نوجوان کی شاندار اور تاریخ ساز قربانی کا احوال پیش کرنے سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ اس کی ''کہانی'' پیش کش کے اعتبار سے نمبرون ٹھہرے۔
شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ذکر میں اس مسئلے پر گفتگو ممکن ہے بعض احباب کو قدرے بے موقع محسوس ہو لیکن میری ذاتی رائے میں اس پر توجہ دینا بہت ضروی ہے کہ ہمارے شہداء چاہے وہ سرحدوں کی حفاظت میں جان کا نذرانہ پیش کریں یا ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کریں ان کا ذکر احتیاط اور احترام سے کرنا لازم ہے۔ کسی قدرتی یا اتفاقی حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید قرار دینا جائز تو ہو سکتا ہے مگر اس طرح کے شہداء کو ان شہیدوں کی صف میں کھڑا کرنا شاید مناسب نہ ہو جنھوں نے کسی اعلیٰ مقصد کے لیے جانتے بوجھتے ہوئے موت کو گلے لگایا اور اپنے رب کی خوشنودی اور اس کے احکامات کی تعمیل کے عظیم مرتبے پر فائز ہونے کے لیے کوئی بنیادی شرط ہی باقی نہیں رہی اور بعض صورتوں میں تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جنھوں نے راہ حق میں جان نثار کی وہ تو بلاشبہ شہید ٹھہرے مگر جو باطل کے علم بردار تھے وہ بھی مرنے پر شہید کہلانے لگے۔ یگانہ کا کیسا خیال افروز شعر ہے کہ:
لہو لگا کے شہیدوں میں ہو گئے داخل
ہوس تو نکلی مگر حوصلہ، کہاں نکلا
شہادت کا منصب ایک اعلیٰ منصب ہے، ہر کوئی اس کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا فیصلہ کرتے وقت احتیاط اور احترام دونوں سے کام لیا جائے کہ کسی قوم کی حیات کا معیار اس کے شہیدوں کی موت سے بھی ثابت اور مرتب ہوتا ہے۔