معاشی بدحالی

غیر جانبدار اور غیر سرکاری اداروں نے پاکستان کی شرح نمو کو منفی پر جانے کا برملا اظہار کیا تھا۔


Zuber Rehman June 04, 2021
[email protected]

PESHAWAR: معاشی ترقی سے معاشرہ اور عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صداقت ہے جو کسی دلیل کی ضرورت نہیں رکھتی۔ مگر معاشی ترقی کی وجہ سے عوام میں بدحالی، بے چینی، افلاس اور بھوک میں اضافہ ہو تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے، معجزہ ہے یا کوئی اور ہیرا پھیری۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کی جی ڈی پی میں 1.2 اور 1.4 فیصد اضافے کی بات کی تھی۔

غیر جانبدار اور غیر سرکاری اداروں نے پاکستان کی شرح نمو کو منفی پر جانے کا برملا اظہار کیا تھا اور تقریباً سبھی معاشی تجزیہ نگاروں نے معاشی تنزلی کی بات کی تھی بلکہ حکومت نے بھی ان اعداد و شمار کو رد نہ کرتے ہوئے اس کے لگ بھگ بات پر اقرار بھی کیا تھا۔ مگر چند دنوں بعد اچانک حکومت کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.94 فیصد ہوگئی اور آیندہ سال 4.2 تک جائے گی۔ ایک لمحے کے لیے مان لیا کہ معاشی ترقی ہو چکی۔

تو پھر چاول 170 روپے کلو، دودھ 130 روپے کلو، گائے کا گوشت 750 روپے کلو، مرغی کا گوشت 450 روپے کلو، دال مونگ 240 روپے کلو، تیل خوردنی کم ازکم 300 روپے کلو، چینی 110 روپے کلو، دہی 200 روپے کلو، انڈے 150 روپے درجن، شملہ مرچ 300 روپے کلو اور آٹا 72 روپے کلو تک کیوں جا پہنچے؟ ہر روز نہیں تو ہر ہفتہ اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ کوئی بھی شخص مہنگائی اور بے روزگاری سے انکاری نہیں ہو سکتا۔

یہاں تک کہ وزیر اعظم سے لے کر پی ٹی آئی کے کارکنان بھی مہنگائی سے تنگ آچکے ہیں۔ مگر فوراً جواب دیں گے کہ یہ مہنگائی عالمی طور پر ہے۔ عالمی طور پر ہے تو وہاں جی ڈی پی کی شرح نمو زیادہ ہے، افراط زر کم ہے، تنخواہیں معقول ہیں۔ جیساکہ سری لنکا، بھارت اور بنگلادیش کی شرح نمو ہم سے زیادہ ہے افراط زر بھی کم ہے جس کے سبب مہنگائی تو وہاں بھی ہے مگر عوام پر اس کے اثرات اتنے بھیانک نہیں ہیں جتنے پاکستان میں ہیں۔

اس کے علاوہ ذخیرہ اندوزی، مڈل مین لوٹ، درآمدات اور برآمدات کی ہیراپھیری اپنی جگہ پر۔ سبزی اگر سبزی مارکیٹ میں 8 روپے کلو ہے تو شہر میں 50 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملاوٹ اپنی جگہ پر گدھ کی طرح پر پھیلائے آسیب بنی ہوئی ہے۔ فروٹ پر تو ہاتھ لگانا مشکل ہے۔

150 سے 200 روپے کلو آڑو، کیلا، سیب اور آم فروخت ہو رہے ہیں۔ (وہ بھی گھٹیا قسم کے) پاکستان میں روزانہ 20 کروڑ لیٹر دودھ جو دودھ نہیں مصنوعی طور پر بنایا جاتا ہے عوام کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اب بھلا یہ نام نہاد دودھ پی کر بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما کیوں کر ہوگی؟ خوردنی تیل جانوروں کی چربی سے بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں اور دکانوں میں اس کی ترسیل کی جاتی ہے۔

کروڑوں گیلن پانی ہائیڈرنٹ سے چوری کرکے عوام کو بیچا جاتا ہے۔ جو پانی پلانٹ والوں سے ہم خریدتے ہیں اس میں منرل نہیں ہوتے۔ چونکہ سمندر اور نالوں کے پانی کو ری سائیکلنگ کرکے پینے کے پانی میں تبدیل نہیں کیا جاتا اس لیے لوگ بورنگ کا پانی استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطالبات پر بجلی سمیت اشیا خور و نوش پر بالواسطہ ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ جب کہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر کوئی ٹیکس نہیں۔ حکومت کے اعلان شدہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے جو 90 فیصد مزدوروں کو ملتی ہی نہیں۔ ابھی پنجاب کی حکومت نے کم ازکم تنخواہ بیس ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اگر ایک لمحے کے لیے مان بھی لیں تو کیا بیس ہزار روپے میں 3.4 افراد کا خاندان جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے اخراجات برداشت کرسکتا ہے؟ حکومتیں اکثر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ اضافے کا اعلان کردیتی ہیں مگر سرکاری ملازمین بہ مشکل 5 فیصد سے زیادہ مزدور نہ ہوں گے جب کہ سرکاری نوکر شاہی کو لاکھوں روپے کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں پھر باقی لوگ کیا کریں گے؟ ہمارے ملک میں لوگوں کی بڑی تعداد کسانوں اور دکانوں پر کام کرنے والوں کی ہے۔

کسانوں کو روز کی دھیاڑی 4/5 سو روپے ملتی ہے اور کام بھی صبح سے شام تک کرنا ہوتا ہے۔ یہی صورتحال دکانوں پر کام کرنے والوں کی ہے۔ وہ بھی صبح سے رات تک کام کرتے ہیں اور انھیں 8/10 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں دی جاتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسانوں، دھیاڑی دارو مزدوروں اور دکانوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہوں کی کوئی حد ہے اور نہ ادائیگی کا کوئی قانون ہے۔شہروں میں گارمنٹس، ہوزری، پاور لومز اور دیگر ملوں، کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو 12 سے 15 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں دی جاتیں اور کام کے اوقات کار بھی 12 گھنٹے ہوتے ہیں۔

ان اداروں میں 5 فیصد مزدور بھی یونین کے ماتحت نہیں ہیں۔ اگر کوئی یونین بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے ملازمت سے نکال باہر کردیا جاتا ہے۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کے خلاف حکومت کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا اور نہ مالکان پر کوئی قدغن لگائی جاتی ہے۔

حکومت موٹروے، گرین بسیں، اورنج ٹرین، ماڈل اسکول، مرغی، انڈے، کٹے، بے سہارا بے گھروں کے لیے آرام گاہیں بناتی ہے یا قرضے دیتی ہے کہ وہ کوئی کاروبار کریں۔ لیکن یہ ان سب مسائل کا مستقل حل نہیں ہے۔ اگر حکومت زمین، بے زمین کسانوں میں تقسیم کردے، ملوں، کارخانوں کا جال بچھا کر سب کو روزگار دے، ہر علاقے میں مفت سرکاری اور معقول علاج کے لیے اسپتال قائم کرے تو مسائل ایک حد تک حل ہو سکتے ہیں۔ مگر ہمارے اناڑی وزرا اور میڈیا ہاؤسز فضول باتوں کے گورکھ دھندوں میں لگے رہتے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ مسئلہ عام آدمی کا ہے۔ اب یہ عام آدمی کون ہے؟ یہ 95 فیصد عام آدمی ہیں جو شہری ہیں، عوام ہیں اور پیداواری قوتیں ہیں جب کہ 5 فیصد آدمی، آدمی نہیں لٹیرے، جاگیردار، سرمایہ دار اور نوکر شاہی (وردی بے وردی) ہیں۔ جب اصل آدمی اور شہری جو پیداواری قوتیں ہیں وہی بے حال ہیں اور 5 فیصد خاص آدمی جو کوئی کام نہیں کرتے اور سب کچھ کے مالک ہیں اور وہی ہمیں نصیحتیں کرتے ہیں اور سبق پڑھاتے ہیں۔ یہ ہے ''اندھیر نگری چوپٹ راج''۔

ایک محنت کش روز کا سودا اگر 500 روپے کا لاتا ہے تو ایک ماہ میں 15000 روپے بنتے ہیں اور اگر کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور کم ازکم 8000 روپے کرایہ دیتا ہے تو 23000 روپے یہی بن جاتے ہیں۔ اب رہا ٹرانسپورٹ کا کرایہ، دوا، کپڑے، جوتے اور بچوں کے اخراجات ملا کر ہر صورت میں 40000 ہزار روپے کی ضرورت ہے۔

جب کہ حکومت 17,500 یا 20,000 روپے کم ازکم تنخواہ کا اعلان کرتی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ 90 فیصد لوگوں کو یہ بھی میسر نہیں۔ دوسری جانب خاص آدمی 20 لاکھ کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں، زیتون کا تیل استعمال کرتے ہیں، آئی فون اور سیکیورٹی گارڈز رکھتے ہیں، گھر میں 2.4 نوکر چاکر ہوتے ہیں، ہیلی کاپٹر سے سفر کرتے ہیں، غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے کروڑوں روپے میں بیچتے ہیں۔ یہ خرابیاں سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ یہ ساری خرابیاں طبقاتی نظام کی دین ہیں۔ یعنی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد ہی طبقات پیدا ہوئے۔ ریاست سے قبل طبقات تھے اور نہ ریاستی سرحدیں۔ ساری دنیا کے لوگ جہاں چاہیں جا سکتے تھے۔ جہاں چاہے رہ سکتے تھے۔

نجی ملکیت اور جائیداد کا تصور ہی نہیں تھا۔ دنیا کی ساری دولت اور وسائل کے مالک سارے لوگ ہوتے تھے۔ آج دنیا میں ایسے علاقے اور خطے موجود ہیں جہاں کمیون نظام رائج ہے، وہاں کوئی ویزا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں، سو فیصد لوگ لکھے پڑھے نہیں۔ سب مل کر پیداوار کرتے ہیں اور مل کر بانٹ لیتے ہیں۔ اسلحے کا استعمال یا پیداوار نہیں ہے۔ ایسے علاقے فرانس، اٹلی، میکسیکو، بھارت اور بہت سے علاقوں اور خطوں میں موجود ہیں۔ آئیے ایسے سماج کی تشکیل کے لیے ہم سب پیش قدمی کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |