پچھلے دنوں صلاح الدین ایوبی کے بارے میں ایک کہانی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی، جسے بعض طبقات، مذہبی عقیدت سے ایک دوسرے کو فارورڈ کرتے رہے۔ کہانی کے مطابق صلاح الدین نے کسی فرد کے نظریات پر ناراض ہوکر تلوار نکالی اور مذکورہ شخص کی انگلی کاٹ دی۔
پاکستان کا دینی معاشرہ جس میں کچھ طبقات کا کھانا، دینی باتیں کیے بغیر ہضم نہیں ہوتا، کو اس امر میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی کہ ایک مسلمان حکمران کسی قانونی کارروائی کے بغیر اپنی تلوار نکال کر اسی جگہ عدالت بن کر سزا کا فیصلہ کرے اور اسی جگہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ بن کر سزا پر عمل بھی کر ڈالے۔
تعجب کی بات یہ بھی تھی کہ اس امر پر سبحان الله کہنے والوں میں دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے بھی شامل تھے اور یونیورسٹیز سے ڈگریاں حاصل کرنے والے بھی۔ حد تو یہ ہے کہ قرآن ترجمے سے پڑھنے والے بھی ان ہی صفوں میں نظر آئے جن کے نزدیک حکمران خود ہی قانون ہوتا ہے۔ وہ جیسے چاہے کرے، اس سے جواب لینے کا عوام کو حق نہیں۔
بغیر کسی حوالے کے ایسے وائرل قصوں کی بنیاد پر صلاح الدین کو تو اس ذہنیت پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن یہ سوچ ضرور آتی ہے کہ اس ملک اور بحیثیت مجموعی پوری امت میں قانون کی حکمرانی کا تصور ناپید ہے۔ واضح رہے اس مضمون کا موضوع سوشل میڈیا پر وائرل جھوٹے قصے اور اقوال نہیں، امت مسلمہ میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا شعور ناپید ہونے پر یا سلیکٹڈ ہونے پر بات کرنا ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ لاکھوں مدرسوں، اتنی ہی تعداد میں درس کے حلقے، یوٹیوب پر مسلم مدرسین کے پروفائل پر لاکھوں صارفین کے ہوتے ہوئے، پاکستان جیسے ملک میں جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، سوشل میڈیا استعمال کرنے والے، پڑھے لکھے عوام میں اتنی سمجھ کیوں نہیں کہ اسلام کے شرعی نظام میں صلاح الدین چھوڑ، دین پر عمل کرنے والا یا دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی غیر معروف حکمران بھی عدالتی کارروائی کے بغیر کسی ملزم کو سزا نہیں دے سکتا؟ اگر حکمران خود قانون ہوتا تو حضرت عمر رضی الله عنہ کو اپنے بچے کی کسٹڈی کےلیے عدالت میں پیش ہونے کی کیا ضرورت تھی اور یہ فیصلہ ان کے خلاف کیسے آسکتا تھا؟
اپنے جیسے انسانوں یا انسانوں پر مشتمل ریاست کو یہ درجہ دے دینا کہ وہ قانون کو نظر انداز کرکے جو بھی فیصلہ کرنا چاہیں کرسکیں، رول آف لا یعنی قانون کی حکمرانی کا شعور نہ ہونے کی دلیل ہے۔ صلاح الدین کے نام سے وائرل پوسٹ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ لیکن ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو یہ ہمارا ایک عمومی رویہ ہے۔ صدیوں کی بادشاہتوں، شخصی آمریتوں اور فوجی حکمرانی نے ہمیں اس بات کا عادی بنادیا ہے کہ ہم اپنے جمہوری حکمرانوں کو بھی بادشاہت کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔
قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ایک دفعہ قائد کے کچھ سادہ لوح مداحوں نے انہیں تاج پہنانے کی کوشش کی جسے قائد نے سختی سے مسترد کردیا۔
بادشاہ یا آمر اور خلیفہ یا جمہوری حکمران میں یہی فرق ہوتا ہے کہ اول الذکر کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا جبکہ مؤخر الذکر آئین اور قانون کا اسی طرح پابند ہوتا ہے جیسے کوئ عام شہری۔ جو چیز ان دونوں طریق حکمرانی کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں، وہ دراصل آئین اور قانون کی حکمرانی ہی ہے۔
میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ پاکستان میں بعض بظاہر معقول پڑھے لکھے لوگ، اپنی پسندیدہ قیادت پر رتی برابر تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ دوسرے سیاسی لیڈران پر جی بھر کر کیچڑ اچھالتے ہیں، نظام کو منہ بھر کر گالیاں دیتے ہیں، لیکن اپنے ممدوح لیڈران کی صریح غیر قانونی حرکتوں کے دفاع میں کچھ ایسے دلائل سامنے لاتے ہیں جیسے وہ نعوذ باللہ حضرت خضر علیہ السلام ہوں کہ ان کے غلط کاموں کے پیچھے بھی ملک یا امت کی بہت بڑی بھلائی چھپی ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ ہمیں کسی لیڈر کی پالیسیز اور اسٹریٹجی کو ملک اور امت کے لیے بہترین جان کر ان کی حمایت کا بھی حق ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر جب ہم اپنے ممدوح لیڈر کی جانب سے ہونے والی صریح انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حمایت کرنے لگیں یا اس کے غیر قانونی کاموں کا دفاع یہ کہہ کر کرنے لگیں کہ اس کےلیے یہ جائز ہے اور اپنے ممدوح پر تنقید پر پابندی لگانا چاہیں، تو ہم کسی کی سیاسی حمایت نہیں کررہے ہوتے، اندھی تقلید کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن بھولپن اور معصومیت پر مبنی یہ رویہ ہمارے قومی بلکہ امت مسلمہ کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔
افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب ایسا رویہ امت کے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے سامنے آئے۔
پچھلے دنوں ایک واٹس ایپ گروپ پر میں نے کسی بات پر اردگان کے کسی فیصلے یا پالیسی سے اختلاف کا اظہار کیا جو واضح طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے دائرے میں آتی تھی۔ اس امر سے قطع نظر کہ موجودہ حالات میں اردگان اس وقت عالم اسلام کی آخری امید نظر آتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بہرحال بندہ بشر ہے جس سے غلطیاں ہوسکتی ہیں۔
میری بات کے جواب میں بیرون ملک مقیم ایک انتہائی مؤقر یونیورسٹی کے پاکستانی نژاد استاد کا کہنا تھا کہ ہمیں اس کےلیے تیار رہنا چاہیے کہ ترکی میں تو ایسے واقعات اور سختی ابھی اور بڑھے گی کیونکہ اندرونی مخالفت کو کچلنے کےلیے یہ ناگزیر ہے۔ میرے یہ عرض کرنے پر کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا جو اصول شام اور مصر کےلیے جائز نہیں، وہ ترکی کےلیے کیسے جائز ہوگیا؟ انتہائی رنج اور غصے کی حالت میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ اردگان کی مخالفت صرف امت مسلمہ کے غدار کرسکتے ہیں۔
ایک اور گروپ پر ملک میں ریاستی اداروں کے قانون توڑنے کی طرف توجہ دلوائی گئی تو یہ جواب ملا کہ ہمارے ریاستی اداروں کی ایسی پریکٹس کا تناسب انڈیا سے بہت کم ہے۔ یہ مقابلہ میری ناقص عقل سے بالاتر ہے کہ چونکہ ہمارے ہاں ہزاروں اٹھائے گئے اور انڈیا میں لاکھوں تو اس لیے انڈیا پر تنقید جائز ہے اور ہمارے ریاستی ادارے پر تنقید غداری۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس قابلیت کے مسلمانوں کے سامنے قانون اور انسانی حقوق کے آفاقی اصولوں کی بحث بیکار ہے۔
اصولوں کی آفاقیت کے حوالے سے ایسے پڑھے لکھے بظاہر دیندار لوگوں کے سامنے قرآن اور حدیث کے شرعی قوانین بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے کہ انصاف کی بات کرنے کا قران میں بار بار حکم آیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دین میں خدا کے بعد والدین کا درجہ ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں تک کہا گیا کہ انصاف کی بات ضروری ہے، چاہے تمہارے والدین اس کی زد میں آتے ہوں۔
سورۂ النساء آیت نمبر 135 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے''۔
یہ واحد آیت نہیں جس میں انصاف کی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہو لیکن اس کے باوجود مجھے کہیں نظر نہیں آتا کہ دینی لٹریچر میں انصاف کی بات کرنے کو قانون کی حکمرانی سے جوڑا گیا ہو۔ شاید ہم اس قدر کو مغرب کی سیکولر جمہوریت کی قدر سمجھتے ہیں۔
پچھلے دنوں خیبرپختونخوا کے ایک علاقے سے تعلق رکھنے والے کیلگری کینیڈا کے ایک پروفیسر نے اپنی دادی کی یاد میں ایک ہلکی پھلکی تحریر رقم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچپن میں ان کی دادی انہیں قیام پاکستان کے قصے سناتی تھیں۔ ایک دفعہ پروفیسر صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ کو پاکستان بننے کے بعد کیا فرق محسوس ہوتا ہے؟ دادی کا جواب تھا کہ پہلے کوئی قتل کرتا تھا تو بچ نہیں سکتا تھا لیکن اب پیسے دے کر بچ جاتے ہیں۔ بس یہی فرق تھا۔
یعنی انگریز کے جانے کے بعد ہم میں جو تبدیلی آئی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے دور میں رشوت دے کر نہ سزا سے بچا جاسکتا تھا اور نہ ہی رشوت دے کر اپنا کام کروایا جاسکتا تھا۔ انگریز نے نو آبادیاتی طاقت کے طور پر ہمیں خوب لوٹا، اس میں تو کوئی دو رائے نہیں لیکن اس دور میں کوئی انگریز افسر اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے کرپشن نہیں کرسکتا تھا۔ نہ ہی قانون کی حدود سے تجاوز اس کےلیے ممکن تھا۔ اور یہی دراصل اس قوم کی کامیابی کا بہت بڑا سبب تھا جسے ہم آج بھی سمجھنے میں ناکام ہیں۔
اسی ذہنیت کے پیش نظر پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کا فیصلہ آیا تو بعض دینی اور جہادی تنظیمیں سڑکوں پر آگئیں۔ سوشل میڈیا پر پرویز مشرف کو کعبے کی حفاظت کرنے والا گردان کر ملک اور قوم کےلیے اس کی خدمات گنوانے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے بہت سے طبقات مشرف کے خلاف بھی تھے، انھوں نے بھی کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کیا لیکن میں نے دیکھا شاید ایک فیصد کے نزدیک بھی آئین کو توڑنا، ملک میں مارشل لا لگانا کوئی جرم نہیں تھا۔ اصل کشمکش مشرف کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان پسند ناپسند کی بنیاد پر تھی۔
آئیے دیکھتے ہیں قانون اور آئین کی حکمرانی دراصل ہے کیا؟ قانون کی حکمرانی کا سادہ ترین تصور یہ ہے کہ قانون ہر فرد کےلیے برابر ہو۔ دنیا کے طاقتور ترین فرد کہلانے والے امریکی صدر پر بھی قانون اتنا ہی نافذ ہو جتنا عوام کےلیے ہے۔ بلکہ جو جتنا طاقتور ہو اتنی ہی اس کی نگرانی ہو، اتنا ہی اس کے معاملات شفاف ہوں۔
فرانسس فوکویاما نے اپنے ایک لیکچر میں تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق بتاتے ہوئے قانون کی حکمرانی کو ترقی یافتہ دنیا کی ایک اہم قدر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ حکمران سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔ لیکن اس سے بہت قبل چودہ سو سال پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ ''تم سے پہلے قومیں اس لیے برباد ہوگئیں کہ ان کا کمزور غلطی کرتا تو سزا پاتا.. اور طاقتور کرلیتا تو امان پاتا''۔
آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کی یہ قدر کہ وہ ہر ایک کےلیے برابر ہو مغرب نے متعارف نہیں کروائی۔ یہ تو اس وقت متعارف ہوئی جب سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا کہ: میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے۔ (بخاری و مسلم)
یہ وہ اصول ہے جسے ہم بحیثیت قوم اپنی ذاتی پسند ناپسند یا سیاسی رحجانات کی بنیاد پر نظر انداز کررہے ہیں۔ یہ امت کا ایک اجتماعی جرم ہے، جس کی سزا پوری مسلم دنیا بھگت رہی ہے۔ ہمارے صرف حکمرانوں میں نہیں سول سوسائٹی اور عوام میں بھی انصاف کا تصور سلیکٹڈ ہے آفاقی نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔