اسرائیل فلسطین تنازع سادگی چھوڑ کر ڈپلومیسی سیکھنے کا وقت ہے

اسرائیل کا قیام دراصل ڈپلومیسی کی جیت ہے۔ کیا ہم مسلمانوں کو بھی ڈپلومیسی کے محاذ کےلیے خود کو تیار نہیں کرنا چاہیے؟


تزئین حسن May 22, 2021
اسرائیل کے قیام کےلیے یہودیوں نے ڈپلومیسی کی طاقت استعمال کرکے دنیا کو رام کیا۔ (فوٹو: فائل)

امریکا کی اوہائیو یونیورسٹی کے ایک محقق جان کویگلی، اسرائیل فلسطین تنازع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی 2016 میں شائع شدہ کتاب ہے:

The International diplomacy of the Founders of Israel: Deception at the United Nations in the Quest for Palestine

(اس عنوان کا ترجمہ یہ کیا جا سکتا ہے: ''اسرائیل کے بانیوں کی عالمی ڈپلومیسی: فلسطین کے قیام کےلیے اقوام متحدہ کو کس طرح دھوکا دیا گیا۔'')

کتاب میں مصنف کویگلی، صہیونی لیڈران کی اس ڈپلومیسی پر بحث کرتے ہیں جس کے ذریعے اسرائیلی ریاست کا خواب دیکھنے والے یورپ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں خود یورپ کا فائدہ ہے۔

آج بھی دوسرے شبعوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی ڈپلومیسی بہت کامیاب ہے اور اسی لیے فلسطینیوں پر تمام مظالم کے باوجود اسرائیل اور اس کے حواری دنیا بھر میں یہ واویلا کرتے ہیں کہ 'اسرائیل کو اپنی بقا کا حق ہے۔' حالیہ تنازع میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یہی بیان دیا۔

ہم اکثر یہ جملے سنتے ہیں کہ 'اسرائیل کو قائم رہنے کا حق ہے' اور 'اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔' یہ دو جملے اتنے تواتر سے بولے جاتے ہیں کہ خود ہمارے دانشور بھی ان جملوں سے موم ہو جاتے ہیں اور ہمیں یقین دلانے لگتے ہیں کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے اور ہمارے اسے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بلاتامل ہمیں اپنے قومی مفاد میں اسے تسلیم کرلینا چاہیے)۔

یہاں یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ پچھلے 72 سال میں اسرائیل کی بقا کا حق مسلسل فلسطینیوں سے ان کی بقا کا حق چھین رہا ہے۔ میں اپنے پچھلے بلاگ میں اس امر پر مختصراً روشنی ڈال چکی ہوں کہ اسرائیل کے قیام کے بعد پچھلے 72 سال میں مسلسل نہتے فلسطینیوں سے ان کی بقا کا حق چھین کر انہیں اوپن ایئر کنسنٹریشن کیمپس میں محصور کردیا گیا ہے۔

اس کے باوجود ہمارے ہاں بعض بظاہر سمجھدار حضرات اسرائیلی پروپیگنڈے کا لاؤڈ اسپیکر بن کر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگ اسرائیل کی حمایت محض اس لیے کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ پرانے بیانیے سے بور ہوگئے ہیں اور اب کوئی نیا بیانیہ سامنے لانا چاہتے ہیں جس کےلیے تاریخی حقائق کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔

اس ضمن میں اتنے بودے دلائل سامنے آتے ہیں کہ سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب عربوں نے اسے تسلیم کرلیا تو ہمیں بھی کرلینا چاہیے۔ راقم کے نزدیک یہ کوئی دلیل نہیں۔ ہر ملک کو اپنی اقدار، عوامی خواہشات، فائدے اور نقصان کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔

ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس سے پاکستان اور اسرائیل کے مابین تجارت کھل جائے گی اور ہمیں برآمدات کےلیے نئی مارکیٹ ملے گی۔ عرض یہ ہے کہ اسرائیل کی کل آبادی دس ملین (ایک کروڑ) سے بھی کم ہے۔ اس میں فلسطینی اتھارٹی میں محصور فلسطینیوں کی آبادی شامل کرلی جائے تو بھی کل ملا کر آبادی مشکل سے 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) سے بھی کم بنتی ہے۔

مان لیتے ہیں کہ اس معمولی سی مارکیٹ سے ہماری معیشت ایک اونچی اڑان بھرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن یہاں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ہزار گنا بڑی چین کی ڈیڑھ بلین کی مارکیٹ جو پچھلے ستر سال سے ہماری منتظر ہے، اس میں ہم نے کتنی کامیابی حاصل کی ہے؟ شاہراہ قراقرم پر پاک چین بارڈر پر ٹرکس پاکستان میں چینی پروڈکٹس سے لدے ہوئے داخل تو ہوتے ہیں لیکن جاتے خالی ہیں۔

آپ کی معیشت محض تعلقات سے نہیں بدلتی بلکہ اس کے پیچھے تجارت بڑھانے کےلیے سیاسی عزم، ٹارگٹ مارکیٹ میں پروڈکٹس لانچ کرنے سے پیشتر کثیر تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ہم ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔

اس کے بعد بھی ٹریڈ ڈپلومیسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چین جب آزاد ہوا تو اس کا حال پاکستان سے بہت زیادہ ابتر تھا۔ ان کے پاس اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بھی ذرائع نہیں تھے لیکن پچھلے ستر سال میں وہ سیاسی عزم، تحقیق، پلاننگ اور انتھک محنت سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟

ہم صرف ان تعلقات کو استعمال کرکے انہیں مارکیٹ ہی دے رہے ہیں۔ کاش کبھی کسی پاکستانی یونیورسٹی میں یہ تحقیق ہو کہ چین کی معاشی ترقی میں پاکستانی مارکیٹ کا کیا کردار ہے؟ اور ایسا ہم نے اپنی کتنی صنعتوں کی قربانی دے کر کیا ہے؟

خیر اس وقت بات اسرائیل کی ہو رہی تھی۔

ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اسرائیل ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت آگے ہے، وہ ہمیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرے گا جس سے ہمیں ترقی کرنے میں مدد ملے گی۔ ان لوگوں کےلیے عرض ہے کہ دنیا میں ٹیکنالوجی، تحقیق اور علم کے حوالے سے سب سے بڑا نام آج بھی امریکا کا ہے جس کے ہم پاکستان کے قیام کے آغاز سے سرکاری طور پر اتحادی رہے ہیں۔ امریکا سے ہم کتنی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ہم سے کہیں زیادہ اس شعبے میں خود چین اور بھارت نے کامیابی حاصل کی، جنہوں نے مغربی تعلیم اور تحقیق کی اہمیت کو سمجھا اور لاکھوں کی تعداد میں طلبا کو امریکا بھیجا تاکہ وہ امریکا سے کچھ سیکھ سکیں۔

ہمارے ہاں آج تک یہ بحث ہی ختم نہیں ہوئی کہ مغربی تعلیم کے بداثرات سے کہیں ہم اپنی اقدار تو نہیں کھو دیں گے اور ہماری نسلیں تو تباہ نہیں ہوجائیں گی؟

ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسرا نمبر اور کچھ لوگوں کے نزدیک پہلا نمبر، تیزی سے ابھرتے ہوئے چین کا ہے، جس سے ہماری دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے۔ اس چین سے ہم نے کتنی ٹیکنالوجی حاصل کرلی جو اسرائیل سے منتقل کریں گے؟

ان دانشوروں کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل تیار بیٹھا ہے کہ اِدھر پاکستان اسے تسلیم کرے اور اُدھر وہ پاکستان کو طاقتور بنانے کےلیے ٹیکنالوجی منتقل کردے۔ پھر اسرائیل نے ان عرب ملکوں میں کتنی ٹیکنالوجی منتقل کی جنہوں نے اسے تسلیم کرلیا ہے؟ ان میں مصر (1978)، اردن (1994) اور حال ہی میں کچھ دوسرے مسلم ملک بھی شامل ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ دنیائے عرب میں مصر کی غربت فقیدالمثال ہے۔

اس کے برعکس ایران ہے جو 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم ملک تھا لیکن 1979 کے انقلاب بعد اس نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرلیے اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا میں اسرائیل اگر کسی ملک کی عسکری طاقت اور ہتھیاروں کی تیاری سے پریشان ہے تو وہ ایران ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایران کے انقلابی لیڈرز مسلسل اسرائیل کے خلاف بیانات دیتے رہے اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہے۔ اس کے باوجود ایران عراق جنگ کے دوران ایران کو ہتھیاروں کی ضرورت پڑی تو وہ اسرائیل سے ہی خریدے گئے۔ یعنی ڈپلومیسی بہتر ہو تو وقت پڑنے پر دشمن سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

ہم یاد دلا دیں کہ یہ وقت وہ تھا جب تہران میں امریکی سفارت خانے کا محاصرہ تھا اور کثیر تعداد میں امریکی سفارت کار اور عملہ محصور تھا۔

اس کے برعکس مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران امریکا اور چین کے اتحادی ہم تھے۔ اب رچرڈ نکسن اور ہںری کسنجر کی رسمی اور غیر رسمی میٹنگز کی ٹیپس ڈی کلاسیفائی ہوچکی ہیں۔ نکسن انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو اور اندرا گاندھی کے مقابلے میں صدر ایوب اور یحییٰ کو بہت پسند کرتا تھا۔ اس کے باوجود انڈیا کی سفارت کاری کی کامیابی کہ امریکا کا اتحادی نہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اس نے مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کے نام پر امریکا سے سو ملین ڈالر امداد حاصل کی بلکہ امریکی کانگریس کے ذریعے پاکستان کو ہتھیاروں کی ترسیل بھی رکوا دی۔

دوسری طرف غیر جانبدار ممالک کے گروپ کا ممبر ہوتے ہوئے بھی اندرا گاندھی اگست 1979 میں روس سے ہتھیاروں کا ایک بڑا معاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگئیں۔ پاکستان، چین اور امریکا کا اتحادی ہوتے ہوئے بھی ان سے کچھ حاصل نہیں کرسکا۔

اس آپریشن کے دوران صورتحال یہ تھی کہ دنیا بھر کے ممالک نیشن اسٹیٹ کے تصور کے تحت ملکی خود مختاری (sovereignty) کے اصول کے قائل تھے۔ اس لیے پاکستان کے خلاف بھارت کی سفارتی کوششوں کے جواب میں بھارت سے ہمدردی رکھنے کے باوجود کسی ملک نے کھل کر بھارت کی پاکستان میں در اندازی کی حمایت نہیں کی۔ لیکن بھارت نے اس سے ہار نہ مانی، بلکہ وہ مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوں کو بہانہ بنا کر اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا رونا رو رو کر حکمرانوں کو نہیں تو نوبل پرائز حاصل کرنے والے سائنس دانوں، آرٹسٹس، انٹلیکچوئل حضرات سے مشرقی پاکستانی آبادی کے حق میں بیانات لینے میں کامیاب ہوگیا۔

بھارت نے فنکاروں تک کو پاکستان کو بدنام کرنے کےلیے استعمال کیا۔ معروف پاپ سنگر جارج ہیریسن کے ''بنگلادیش'' نامی کنسرٹ پر راقم کا تفصیلی فیچر موجود ہے جس سے بھارت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں کثیر فائدے حاصل کیے اور امریکی حکومت کو بھی دباؤ میں لیا گیا۔

بھارت نے اپنی عالمی ڈپلومیسی کے بل پر دنیا بھر میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان مشرقی پاکستان میں جینوسائیڈ کا مرتکب ہورہا ہے۔ جینو سائیڈ (کسی قوم کی ارادتاً نسل کشی) ایک قانونی اور تکنیکی اصطلاح ہے جسے بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کے استعمال میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے عام طور پر کسی قوم پر اس کے الزام سے قبل اس کی وسیع تحقیقات کرواتے ہیں۔ لیکن انڈیا آپریشن کے شروع سے پاکستان پر الزام لگاتا رہا کہ پاکستان بنگالیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ ہمارے ہاں کسی نے اس پروپیگنڈے کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی اہلیت ہی نہ تھی۔

؎ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی ملک سے تعلقات رکھنا، اس کا اتحادی بننا اور بات ہے اور ان تعلقات کو اپنے حق میں استعمال کرنا، اپنی معیشت بہتر بنانے کےلیے استعمال کرنا یا اس سے ٹیکنالوجی یا ہتھیار حاصل کرنا ایک بالکل الگ امر۔ مؤخرالذکر کےلیے آپ کو ڈپلومیسی کے محاذ پر جنگ لڑنی پڑتی ہے۔

فلسطین کی موجودہ صورتحال میں مسلم دنیا کے عوام بہت تکلیف محسوس کر رہے ہیں اور اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ریلیوں کا کیا فائدہ ہے؟ عالمی اداروں نے تو خود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جنم دیا، وہ کیوں فلسطینیوں کے حق میں کچھ کریں گے؟ انسانی حقوق کی بات کرنے سے کیا ہوگا؟ کیا اسرائیل ایسی باتوں سے متاثر ہوکر فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے پر راضی ہوجائے گا یا انہیں دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کردے گا؟ غزہ کا محاصرہ ختم ہوجائے گا؟

مسلم دنیا میں اس حوالے سے بجا طور پر بہت شدید مایوسی اور بے بسی کے احساسات پائے جاتے ہیں۔

اتنا سمجھ لیجیے کہ کسی بھی ایسے مسئلے کے حل کےلیے کثیر جہتی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں جنگ کے میدان میں طاقت سے مقابلہ کرنا بھی شامل ہے اور ڈپلومیسی اور اظہار یکجہتی بھی، علمی اور تحقیقی کام کی بھی، ابلاغ کی طاقت کے استعمال کی بھی، جنگ کے میدان میں طاقت سے مقابلہ کرنے کی اور جہاد کےلیے طاقت پکڑنے کی بھی۔

خود سیرت رسولؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ اپنی پوری زندگی ڈپلومیسی کی بہترین اہلیت استعمال کرتے ہوئے قبائل سے معاہدے بھی کرتے رہے۔ ان معاہدوں کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں، جنگیں بھی لڑی گئیں، رومی سلطنت اور فارس کے چھوٹے اور بڑے بادشاہوں کو اس دور کے ابلاغ کے انسٹرومنٹس استعمال کرتے ہوئے دعوتیں بھی بھیجی گئیں، بہترین اخلاق کا مظاہرہ بھی کیا گیا، ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا کام بھی مسلسل جاری رہا اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے کام بھی چلتے رہے، انہیں بھی موقوف نہیں کیا گیا، مثلاً تجارت، شادیاں اور جنگی قیدیوں تک کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح بڑھانے کی کوشش بھی جاری رہی؛ اور ایک ایسے وقت میں جاری رہی جب مسلمانوں کی اپنی بقا شدید خطرے میں تھی۔

مدینے کی چھوٹی سی ریاست چاروں طرف سے اور اندرونی طور پر بھی دشمنوں سے گھری ہوئی تھی۔ اس طرح آہستہ آہستہ ڈپلومیسی دعوت کے ذریعے معاہدوں کے ذریعے طاقت بھی پکڑی گئی۔ یہود سے معاہدے بھی کیے گئے اور ان کی خلاف ورزیوں پر انہیں سزا بھی دی گی۔

اب آئیے موجودہ انتہائی پیچیدہ صورتحال کی طرف جس میں ہم مسلمان شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ خود ہماری اپنی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل کی زبان بول رہے ہیں اور ایسے لوگ بھی جو اسرائیل پر فوری چڑھائی کےلیے بے چین ہیں۔

فی الحال اتنا سمجھ لیجیے کہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا، ان کے انسانی حقوق کےلیے آواز اٹھانا، علمی اور تحقیقی مواد مرتب کرنا، عالمی تنظیموں میں ڈپلومیسی اور سفارت کاری کے ذریعے ان کے حق میں بین الاقوامی قوانین اور اصطلاحات کا استعمال کرکے بات کرنا، یہ سب مختلف محاذ ہیں، جن میں سے ہر محاذ پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔

کیا یہود اقوام عالم کے لاڈلے تھے؟

یہاں ہمیں تھوڑا سا ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ تجزیہ بھی کرنا ہوگا کہ کیا یہود دنیا کے لاڈلے ہیں یا تھے کہ دنیا نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر فلسطین پیش کردیا؟ یا انہوں نے خود کوشش کرکے اپنے بل بوتے پر طاقت پکڑی اور دنیا میں ایک حیثیت حاصل کی اور اپنی ڈپلومیسی کے بل بوتے پر دنیا کو جھکایا؟ دنیا کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کا ساتھ دے۔ کیا اس منظرنامے میں ہمارے سیکھنے کےلیے کچھ ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جس یورپ کو صہیونیوں نے اسرائیل کے قیام کےلیے استعمال کیا، وہاں ان کے ساتھ بدترین زیادتیاں ہوتی تھیں۔ ان ممالک میں جرمنی اور روس سرفہرست ہیں لیکن برطانیہ اور فرانس میں بھی ان کے خلاف تعصب بلکہ شدید نسل پرستی کے جذبات تھے۔ شاید ویسے ہی جیسے آج مسلمانوں کےلیے ہیں۔

نائن الیون (9/11) کے بعد مسلمان اب دنیا کے نئے ولن بن گئے ہیں، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس سے قبل کمیونسٹ عالمی ولن تھے، اس سے قبل جرمن، اور اس سے قبل شاید خود یہود۔

پچھلے دنوں ٹویٹر پر یہ ہیش ٹیگ بہت مقبول ہوا کہ Muslims Are The New Jews

یعنی آج کی دنیا کے ولن اب یہود نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ مسلمان اپنی ایک ارب 80 کروڑ آبادی اور دنیا کے ہر خطے میں موجودگی کے باوجود جس صورت حال کا شکار ہیں، اس سے نکلنے کی اسٹریٹجی بنانے کےلیے ہمیں ان قوموں سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک دور میں عالمی ولن رہی ہیں۔ یہود کا نمبر ان قوموں میں سب سے آگے آتا ہے۔

گو مسلم دنیا میں کبھی یہود کو نسل پرستی یا مظالم کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن یورپ میں ان کے خلاف قرون وسطیٰ سے ہی شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ نشاۃ الثانیہ کے ادوار میں بھی ان میں کمی نہیں آئی۔ ان کے خلاف وقفے وقفے سے ''پوگروم'' یعنی یہود کش فسادات ہوتے جیسے آج برما اور بھارت کے مسلموں کے خلاف ہوتے ہیں۔

ان ہی فسادات سے بچنے کےلیے اس قوم کی قیادت کرنے والوں نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ جب تک ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا، یہودی قوم کو ان مظالم سے نجات نہیں ملے گی۔

لیکن اس ریاست کے قیام کےلیے اس قوم نے ڈپلومیسی کی طاقت استعمال کرکے دنیا کو کس طرح جھکایا، یہ بڑی دلچسپ داستان ہے۔

آج کل جان کویگلی کی کتاب زیرِ مطالعہ ہے۔ کتاب میں مصنف کویگلی، صہیونی لیڈران کی اس ڈپلومیسی پر بحث کرتے ہیں جس کے ذریعے اسرائیلی ریاست کا خواب دیکھنے والے یورپ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں خود یورپ کا فائدہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کی مخالفت خود یہود کے مختلف فرقوں میں اس کے قیام سے پیشتر موجود تھی۔ خود فلسطین میں رہنے والے عرب یہودیوں بلکہ مذہبی جذبات کی وجہ سے وہاں منتقل ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔

خود یورپی یہودی بھی فلسطین جیسے غیر ترقی یافتہ خطے میں منتقل ہونے کے بجائے یورپ میں ہی حقوق چاہتے تھے۔ اور اگر انہیں کہیں منتقل ہونا تھا تو امریکا ان کے لیے بہترین انتخاب تھا جس نے روس سے بھاگے ہوئے بیس لاکھ یہود میں سے لاکھوں کو پناہ ہی نہیں، شہریت بھی دی تھی۔

لیکن، اس کے باوجود، اسرائیل کا خواب دیکھنے والے مغربی حکمرانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ دنیا کے تمام یہودیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور یورپی یہودیوں کے مسئلے کا حل فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ہے۔ کویگلی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا قیام دراصل ڈپلومیسی کی جیت ہے۔

ڈپلومیسی کی اس جیت نے یورپ میں مبغوض اشکنازی یہودیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے، جو خود یہود کی آبادی کا ایک قلیل حصہ ہے، ایک ناممکن امر کو ممکن کردیا تو کیا ہم مسلمانوں کو ڈپلومیسی کے اس محاذ کےلیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرنا چاہیے؟

یہ بھی یاد رہے کہ ڈپلومیسی کی اہلیت صرف فلسطین کے معاملے میں نہیں بلکہ امت کو درپیش لاتعداد پیچیدہ مسائل اور تنازعات کے حل کےلیے بھی اہم ہے کہ یہ بھی دنیا میں بقا کی ایک اہم ضرورت رہی ہے۔

اقبال سو سال پہلے کہہ گئے

سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

اب اپنی سادگی اور بھول پن کو چھوڑ کر ڈپلومیسی سیکھنے کا وقت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں