کپتان غزنوی کیوں غوری کیوں نہیں
سومناتھ مندر، جو سلطان محمود غزنوی کے سترھویں حملے کا نشانہ بنا، برصغیر کی تاریخ کا مشہورومعروف مندر تھا...
سومناتھ مندر، جو سلطان محمود غزنوی کے سترھویں حملے کا نشانہ بنا، برصغیر کی تاریخ کا مشہورومعروف مندر تھا ۔اس مندر میں جوبت نصب تھا،بلکہ اس کے لیے معلق صحیح لفظ ہوگا۔ کیونکہ یہ دیوہیکل بت نہ تو زمین پر نصب تھا اور نہ ہی کسی دیوار کے سہارے اسے کھڑا کیا گیا تھا ۔ مندر کی چاروں دیواروں اور چھت و فرش پر یعنی چھ مقامات پر، برابر کی قوت والے مقناطیس (میگنٹس ) لگا کر اس دھاتی بت کو ہوا میں معلق کردیا گیا تھا ۔ چونکہ چھ اطراف سے مقناطیس اس بت کو اپنی جانب کھینچتے تھے اور ان سب کی قوت یکساں تھی اس لیے یہ دیو ہیکل بت فضا میں معلق ہو کر رہ گیا تھا ۔ یعنی مذہبی معجزے کا تاثر دینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا ۔ سومناتھ کی ''پجاری مافیا '' نے اس معلق بت کے متعلق من گھڑت داستانیں سنا کر عوام کو '' چڑھاوے '' چڑھانے پر راغب کیا ہوا تھا ۔
عوام کے لیے دیوتا جی کا یہ چمتکار ہی کیا کم تھا کہ بھگوان جی نہ زمین پر تھے اور نہ آسمان پر ، وہ تو مندر کے بیچوں بیچ ہوا میں معلق کھڑے تھے ، لہذا چڑھاواں کی بھرمار تھی ۔ پجاریوں نے مال و زر چھپانے کے لیے ہی اسے کھوکھلا بنوایا تھا ۔ سونا ، چاندی ، زیورات اور سکے اسی بت کے اندر چھپا دیے جاتے تھے ۔ محمود غزنوی کی انٹلیجنس رپورٹس اس مندر اور بت کے بارے میں مکمل ہوچکی تھیں ۔ لہذا وہ غزنی سے چل کر سومناتھ پر حملہ آور ہوگیا ۔ اس مندر کی آرائش بھی زبردست طریقے سے کی گئی تھی ۔ محمود غزنوی نے سب کچھ اتروا لیا ۔ یہاں تک کہ مندر کے آرائشی دروازے تک اکھڑوا کر اس نے غزنی ( افغانستان ) روانہ کردیے ۔ اب وہ بت کی طرف متوجہ ہوا تو پجاریوں نے بت نہ توڑنے کے عوض اسے بھاری مال و زر کی پیشکشیں شروع کردیں ۔ سلطان جانتا تھا کہ جو پیشکش اسے کی جارہی ہے اس سے سیکڑوں گنا زیادہ کا مال کھوکھلے بھگوان کے اندر موجود ہے ۔ لہذا وہ نہ مانا اور سب کچھ لوٹ کر غزنی لے گیا ۔
غیر جانبدار مورخین کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی جملہ '' میں بت فروش نہیں ، بت شکن ہوں '' ایک تاریخی مغالطہ ہے ، جو نہ جانے کس داستان گو نے زیب داستان کے لیے محمود غزنوی کے نام سے منسوب کردیا ہے ۔ ان مورخین کے پاس اس سلسلے میں کافی وزنی دلائل موجود ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سلطان محمود غزنوی کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ وہ اپنے حملوں اور فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مقبوضہ علاقوں میں اسلامی مملکت کے قیام کے لیے اقدامات اٹھاتا ۔ وہ سترہ مرتبہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور مال غنیمت سمیٹ کر غزنی واپس لوٹ گیا ۔ اس نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نہ تو کبھی کوشش کی اور نہ ہی ان علاقوں میں کبھی اس نے اپنا کوئی نمایندہ چھوڑا ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر جانبدار مورخین کی ایک بڑی تعداد سلطان محمود غزنوی کو سرے سے '' مجاہد '' تسلیم کرنے پر ہی تیار نہیں ہے ۔ اس کے برعکس افغانستان ہی کے ایک علاقے '' غور '' سے چل کے ہندوستان پر ایک اور حکمران سلطان شہاب الدین غوری حملہ آور ہوتا ہے ۔ تراوڑی کے میدان میں اس کا مقابلہ ایک دلیر مقامی حکمران راجہ پرتھوی راج چوہان سے ہوتا ہے ۔
گھمسان کی جنگ اور سخت مقابلے کے بعد شہاب الدین غوری ، پرتھوی راج چوہان کے ہاتھوں شکست کھا کر واپس غورلوٹ جاتا ہے ۔ شہاب الدین غوری یہ قسم کھا کر خود سے عہد کرتا ہے کہ جب تک اس شکست کا بدلہ نہ لے لوں نہ تو اپنے آرام دہ بستر پر سوؤں گا اور نہ ہی اس شکست خوردہ ، خون آلود لباس کو اپنے جسم سے جدا کروں گا ۔ لہذا اس کی شاہی پوشاک کے نیچے یہ خون آلودہ لباس ہمیشہ موجود رہا اور اس کی تمام راتیں پیال کے بستر پر گزریں پیال کو آپ گھاس پھوس کا ڈھیر سمجھیں جس پر سلطان شب بسری کرتا تھا ۔ اگلے برس وہ پھر تراوڑی کے میدان میں بھرپور تیاری کے ساتھ پرتھوی راج چوہان کے مقابلے پر اترا اور اسے عبرت ناک شکست سے دو چار کیا ۔ فتح یاب ہونے کے بعد اس نے اپنی قیمتی پوشاک کے نیچے موجود اپنی شکست کی یادگار، اس لباس کو جب اتارا ، جو اس کے اپنے خون سے لتھڑا ہوا تھا تو لوگوں کو سلطان غوری کی اس قسم کے بارے میں علم ہوا ۔ اس نے اپنی شکست کو بھلایا نہیں بلکہ اس سے سبق بھی سیکھا اور اسی شکست کو اپنی طاقت بھی بنایا ۔ دوسرا کام اس نے یہ کیا کہ ہندوستان میں ایک اسلامی فلاحی مملکت قائم کی اور اپنے ایک وفادار ترک غلام قطب الدین ایبک کو اس اسلامی ریاست کا والی مقرر کر کے خود واپس غور چلا گیا ۔ یہ وہی قطب الدین ایبک تھا جسے خاندان غلاماں کا بانی کہا جاتا ہے ۔ ایبک بے پناہ صلاحیتوں کا حامل حکمران ثابت ہوا اور جلد ہی عوام میں مقبول ہوگیا ۔
بدقسمتی سے بمشکل چار سالہ حکمرانی کے بعد یہ پولو کھیلتے ہوئے اپنے گھوڑے سے گر کر شدید زخمی ہوا اور پھر جانبر نہ ہوسکا ۔ دہلی کا قطب مینار اسی کے نام سے موسوم ہے۔ جو قطب کی لاٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ گویا محمد بن قاسم کے بعد سلطان شہاب الدین غوری وہ پہلا غیر ملکی مسلمان حملہ آور حکمران تھا جس نے یہاں باقاعدہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کی داغ بیل ڈالی اور اسلام کی ترویج کے لیے اقدامات کیے ۔ اس کا حریف پرتھوی راج چوہان بھی بڑا سخت جان اور بہادر حکمران تھا ۔ یہ پرتھوی راج آج بھی ہندوؤں کے لیے دیو مالائی کردار ہے اور وہ اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔ یہ پرتھوی راج بھرے دربار سے اپنی محبوبہ '' سنجوگتا '' کو اس وقت اپنے گھوڑے پر اٹھا کر لے گیا تھا جب سنجوگتا کا سوئمبر رچایا جا رہا تھا ۔ بھارت نے اپنے ایٹمی میزائل '' پرتھوی '' کا نام اسی دلیر راجہ کے نام پر رکھا ہے ۔ جس کے جواب میںڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی میزائل کا نام غوری رکھا تھا ۔ یعنی پرتھوی کا بالکل صحیح جواب غوری ہی ہونا چاہیے تھا ۔ اب آپ سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری دونوں کا موازنہ کیجیے کہ کون بہتر اور کامیاب حکمران تھا ؟ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے اور سلطان غوری نے صرف دو حملے کیے ۔
کیا متواتر حملے کرنا ہی کامیابی کی دلیل ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ لہذا عمران خان صاحب کی خدمت میں عرض کروں گا '' خان صاحب آپ کا یہ کہنا کہ محمود غزنوی کے حملوں کی طرح سندھ کے دورے کروں گا'' یعنی بلدیاتی الیکشن میں آپ عام انتخابات کے دوران ہونے والی شکست کا ازالہ کریں گے ۔ کیا متواتر سندھ کے دوروں سے آپ کامیابی حاصل کرسکیں گے ؟ خان صاحب معاف کیجیے گا ہم آپ کے مداحین میں شامل ہیں اور آپ ہمارے بہت بڑے ممدوح ہیں ، لیکن لگتا ہے کہ آپ نے جنرل الیکشن کی شکست سے ابھی تک کچھ سیکھا نہیں ۔ کراچی ایم کیو ایم کا بالخصوص ضلع وسطی اس جماعت کا سومناتھ ہے آپ غزنوی کی طرح بار بار حملہ آور ہوکر شور شرابا اور توڑ پھوڑ تو مچا سکتے ہیں لیکن اسے فتح نہیں کرسکتے ۔ اردو بولنے والوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ '' کچھ بھی ہو ، ووٹ تو الطاف بھائی کا ہے '' ۔ لہذا گذارش ہے کہ پچھلی شکست کو غوری کی طرح یاد رکھتے ہوئے اسے اپنی طاقت بنائیے اور اس سومناتھ کو فتح کر کے دکھائیے تو ہم مانیں گے کہ واقعی آپ مروجہ سیاست کے زمینی حقائق سے باخبر ہوچکے ہیں ۔
قطع نظر اس کے کہ پچھلے الیکشن میں کتنی دھاندلی ہوئی اور کس نے کی ؟ یہ ایک کامن شکایت تھی ۔ نتیجہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی سے صرف ایک سیٹ ہی مل سکی۔ اگر بلدیاتی الیکشن جیتنا ہے تو غزنوی بن کر نہیں غوری بن کر آپکو سوچنا ہوگا ۔ بار بار کے دوروں سے بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی کو سندھ میں منظم بنیادوں پر استوار کریں اور اس کے لیے اس شہر میں مستقل قیام کی راہ ہموار کریں ۔ ایم کیو ایم کا سومناتھ اس شہر میں فضا میں معلق نہیں بلکہ بہت گہری جڑیں رکھتا ہے ۔ اس کا ووٹ بینک دوسری نسل کو منتقل ہوچکا ہے ۔ بالکل بھٹو کے ووٹ کی طرح جس کا سفر اب تیسری نسل تک آپہنچا ہے ۔ اور آپ کو سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں ان دو مضبوط بتوں یا سومناتھ کو ڈھانا ہے تو پھر عرض کروں گا کہ محمود غزنوی بن کر اس کام کو کرنا ممکن نہ ہوگا ۔ شہاب الدین غوری بن کر '' غور '' فرمائیں ۔