موٹیویشنل اسپیکنگ حقیقت اور افسانہ آخری قسط
سیلف ہیلپ انڈسٹری کی پاکستان میں بے تحاشا مقبولیت ہی اس کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
گزشتہ کئی عشروں تک پاکستان میں ڈیل کارنیگی، جم ران اور برائین ٹریسی جیسے معروف موٹیویشنل اسپیکرز کی کتابیں اردو میں ترجمہ کرکے استعمال ہوتی رہیں۔
اس سلسلے میں چند پاکستانی موٹیویشنل اسپیکرز اور ٹرینرز نے پاکستانی معاشرے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلف ہیلپ کے موضوعات پر کتابیں لکھیں، جس میں بشیر جمعہ کی کتاب''آج نہیں تو کبھی نہیں''، فائز سیال کی ''بدلو سوچ بدلوزندگی'' اور''شاہراہ کامیابی''، قیصر عباس اور میری مشترکہ کتب ''شاباش تم کر سکتے ہو''،''ٹک ٹک ڈالر'' اور قاسم علی شاہ کی لکھی گئی چند کتابیں شامل ہیں، مگر آج بھی پاکستان کی پرسنل ڈیویلپمنٹ یا سیلف ہیلپ انڈسٹری میں اوریجنل کام نہ ہونے کے برابر ہے اور شاید اس صنف میں شایع ہونے والی آج تک کی تمام کتابوں کی فہرست 100 سے کم ہی ہوگی۔
حال ہی میں وفات پانے والے مولانا وحید الدین خان کو ان کی کتب "راز زندگی"، "راز حیات" کی وجہ سے میں انھیں پرسنل ڈیویلپمنٹ پر لکھنے والے اہم ترین اوریجنل لکھاریوں میں شامل کرتا ہوں۔
اپنے اپنے شعبوں میں اوج کمال تک پہنچنے والے افراد بھی تحریک پیدا کرنے والے کا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔ جن میں دین، تعلیم، بزنس این جی اوز، انٹرٹینمنٹ اور کارپوریٹ سے تعلق رکھنے والے بااثر لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ہم نظر دوڑائیں تو ان ناموں میں مولانا طارق جمیل، پروفیسر رفیق اختر، جسٹس ناصرہ اقبال، اعجاز نثار، ابرار الحق اور اظفر احسن سرفہرست نظر آئیں گے۔ ویسے تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی الیکشن فارم میں اپنا پیشہ ''موٹیویشنل اسپیکر'' لکھا تھا جس کا علم مجھے 2015 میں ان کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک ملاقات میں ہوا۔
پاکستان اور اسلام کی تاریخ، ثقافت اور روح کو آج کے جدید میڈیم کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچانے کا کریڈٹ موٹیویشنل اسپیکرز کو جاتا ہے۔ آج گھر بیٹھے اقبال کے پیغام کی سلیس اردو ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ماضی اور حال کا کوئی ایسا نامور پاکستانی نہیں ہے جس کی کامیابی اور اس کے پیچھے چھپا راز ہم تک آسان زبان میں نہ پہنچ پایا ہو۔ پھر چاہے ہم عبدالستار ایدھی کی بات کریں، جہانگیر خان، گل جی،عبدالقدیر خان یا پھر عمران خان۔ اب محنت کے بل بوتے پر کھڑے ہونے والے ہر قسم کے بزنس کی اندرونی کہانی کو بھی لوازمات کے ساتھ عام پاکستانی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سب اور بہت کچھ پروفیشنل اسپیکرز کی بدولت ہی ممکن ہوپایا ہے۔
اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج بھی پاکستان میں موٹیویشنل اسپیکنگ ایک پروفیشن کے اعتبار سے اپنے ایام طفولیت میں ہے۔ ابھی پر پرزے نکال رہی ہے اور ٹرینرز ٹرائب جیسے پلیٹ فارمز موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ کو ایک پروفیشنل تربیت میں ڈھالنے کے لیے جتن کر رہے ہیں۔ آج مارکیٹ میں موٹیویشنل اسپیکرز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے، مگر فعال اسپیکرز کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں پروفیشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ پاکستان میں سب سے تیزی سے پھیلنے والے شعبوں میں شمار ہوگا۔
اگر مجھ سے کوئی پانچ سال پہلے پوچھتا کہ پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری میں نام بنانے میں کتنا وقت اور سرمایہ خرچ ہوتا ہے تو میرا جواب ہوتا، دو سے تین کروڑ اور 20-15سال۔ تاہم ٹیکنالوجی نے سب تلپٹ کر دیا۔ اب 15 سال کا سفر درست رہنمائی میں 7,5 سال میں ممکن ہے کیونکہ یوٹیوب کی برکت سے پوری دنیا میں اپنے ناظرین اور حلقہ احباب تک پہنچا جاسکتا ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ راتوں رات چند امریکی، برطانوی یا بدیسی کتابیں پڑھ کر یا کہانیاں رٹ کر یا فارمولے بنا کر سیلف ہیلپ گرو بن جانے کا تصور بہت سوں کو گمراہ کر سکتا ہے۔موٹیویشنن کی افیم کا نشئی بن جانا ایک بڑا چیلنج ہے ۔نفسیات کے پانیوں میں ایک چوتھائی صدی گزارنے اور دنیا کے بہترین اداروں اور ماہرین سے سیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیلف ہیلپ انڈسٹری میں کام کرنے والوں کی باقاعدہ لائسنسنگ لازمی ہے۔ ان کو کڑے ضوابط کے مطابق ریگولیٹ کیا جانا چاہیے اور ہر ایک کو مرشد بن کر چھابڑی لگانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ میری ایک بڑی خواہش ہے کہ پاکستان میں ایک گورننگ باڈی قائم کی جائے جو سیلف ہیلپ انڈسٹری کو ریگولیٹ کرے اور اس شعبے کو اتائیوں سے محفوظ رکھے۔
سیلف ہیلپ انڈسٹری کی پاکستان میں بے تحاشا مقبولیت ہی اس کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ سوچنا کہ کوئی بھی مشہور موٹیویشنل اسپیکر انسانی نفسیات کے تمام تر داؤ پیچ جانتا ہے اور ہرفن مولا ہے، ایک معروف غلط فہمی ہے۔ یاد رکھیے کہ باقاعدہ نفسیاتی تعلیم اور لازمی تربیت اور سرٹیفکیشن کے بغیر آپ کا غلط مشورہ کسی کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔