حقوق و قوانین کی جنگ

آج اظہار رائے کی دگرگوں صورتحال نے مجھے ایک ایسے استاد کی کتاب کے آگے دو زانوکیے بیٹھے رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔


وارث رضا April 25, 2021
[email protected]

آج اظہار رائے کی دگرگوں صورتحال نے مجھے ایک ایسے استاد کی کتاب کے آگے دو زانوکیے بیٹھے رہنے پر مجبور کر دیا ہے جو فرد کی آزادی کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑنیوالے جنونیوں کو ان آئینی اور قانونی دائرہ کار سے آگاہ کرنا چاہتا ہے، جو ان کا آئینی و قانونی حق ہے، وہ انسان کی آزاد منش طبیعت سے واقف ہونے کے باوجود آزادی کو سلیقے سے لڑنے اور مقاصد کے حصول کے لیے قاعدے اور قوانین کی آگہی سے نئی نسل کی معلومات وسیع کرنے کا متفکر استاد ہے۔

کبھی کے اتفاقات ہمیں ایسے اوجھل مگر اہم پہلوؤں سے آگاہ کر دیتے ہیں کہ یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے سماج میں تخلیقی سوتے نہ صرف توانا بلکہ بہادرانہ انداز سے مزاحمت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہی کردار مجھے لاہور کی عالمی اخبارات میں کالم نویس اور صحافت کی استاد یاسمین آفتاب کی کتاب ''میڈیا اینڈ میڈیا لاز ان پاکستان'' میں نظر آیا، جس میں اہل صحافت اور اس شعبے میں زیر تعلیم طلبہ سے گفتگو کی گئی ہے۔

انگریزی زبان میں یاسمین آفتاب کی اس کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر مہدی حسن نے برصغیر پاک وہند کی ڈھائی سو سالہ صحافتی تاریخ کا احسن طریقے سے اجمالی جائزہ لیتے ہوئے آزادی اظہار رائے کو اس عرصے میں درپیش مسائل و مشکلات کا ذکر کیا ہے اور اس تناظر میں یاسمین آفتاب کی اس تصنیف کو نہ صرف صحافیوں اور طلبہ صحافت کے لیے اہم قرار دیا ہے بلکہ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے بھی آگہی کا مخزن گردانا ہے۔ جس کا مزید ادراک کتاب کی نگارشات کے جائزے سے ممکن نظر آتا ہے۔

یاسمین آفتاب نے کتاب کے تعارف کے دوران پاکستان میں صحافت کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے جس میں انھوں نے سیاسی شکست ریخت کے تناظر میں قوانین کے ارتقاء کے دوران شعبہ صحافت کو پیش آنیوالے مصائب و مشکلات کا سیر حاصل ذکر کیا ہے اور یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ آج پاکستان میں صحافت کا پیشہ جو آج کے حالات میں قتل، اغوا اور قاتلانہ حملوں اور نا معلوم ریاستی جبر کا نشانہ ہے۔

یاسمین آفتاب کی نظر میں اظہار رائے کو دبانے کا سلسلہ ایک تاریک تاریخ لیے ہوئے ہے اور اظہارکی آزادی ان گنت آزمائشوں اور قربانیوں کا ثمر ہے جو اس وقت کے صحافی اور قلمکار بھگت چکے ہیں اور جس کا تذکرہ بہت سے کہنہ مشق صحافیوں اور متعدد کتب میں کیا جاچکا ہے جسے سردست اختصار کے ساتھ ہی پیش کیا جا سکتا ہے تاکہ قاری کو ماضی کے معروضی حالات کا علم ہو اور حالیہ واقعات کو ان سے مربوط کر کے نہ صرف حقیقی صورتحال کا ادراک کیا جا سکے بلکہ نیا صحافی مستقبل کی پیش بندی کے بھی قابل ہو سکے۔

یاسمین آفتاب کا کہنا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں اردو کا پہلا اخبار 1822 میں شایع ہوا جب کہ برطانوی سامراج ایسٹ انڈیا کمپنی نے اگلے ہی برس 1823 میں اولین پریس ایکٹ متعارف کروا دیا جس میں ذرایع کی معلومات پر کئی پابندیاں لگا دی گئیں۔ جس میں اخبار کی اشاعت کے لیے ''ڈیکلریشن'' لینے کی پابندی بھی شامل تھی۔ یہ پابندی برصغیر میں نہ صرف تاج برطانیہ کے دور میں بھی قائم رہی بلکہ آزادی کے بعد پاکستان میں بھی اسے برقرار رکھا گیا۔

اس باب میں پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کی نمایندہ تنظیم پی ایف یو جے کے 1950 میں قیام، 1957 میں دو ہفت روزہ کے کوئٹہ سے ڈیکلریشن کے انکار پر عبدالسلام اچکزئی کی آئینی پٹیشن اور اس پر 1823 کے پریس ایکٹ کے تحت عدالتی فیصلے، اسی سال بدترین کالے قانون پریس اینڈ پبلیکشن آرڈیننس کے اجرا، 1988 میں ضیا آمریت کی جانب سے رجسٹریشن آف پرنٹنگ پریسز اینڈ پبلیکشن آرڈیننس کے نفاذ اور اس کیخلاف پی ایف یوجے کی بے باک جدوجہد، 1964 میں جنرل ایوب کی حکومت کی جانب سے این پی ٹی کے قیام اور متعدد اخبارات کو قومیائے جانے کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان ضمن میں پی ایف یو جے کی مزاحمت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

یاسمین نے کتاب میں اس کے علاوہ ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ کے لیے پی ایف یو جے کی مثالی کوششوں کو بھی ستائشی طور پر پیش کیا ہے۔ جس کے دوران صحافیوں نے قید وبند کی صعوبتیں اور کوڑوں کی سزائیں برداشت اور دھمکیاں بھی برداشت کیں۔ مصنفہ کے خیال میں یہ ذکر دراصل قربانیاں پیش کرنیوالے ان صحافیوں کو خراج تحسین ہے جن کے بغیر کتاب ہذا کا حق ادا نہیں ہوتا۔ یاسمین آفتاب کا ماننا ہے کہ پاکستان میں صحافت قربانیوں کی طویل شاہراہ سے گزر کر آج اس مقام پر پہنچی ہے اور اظہار رائے کا سودا سر میں لیے میڈیا ورکرز نے قدم قدم پر اس کی قیمت ادا کی ہے۔

یاسمین آفتاب نے باب اول میں آزادی اظہار رائے کا استفہامیہ پیش کیا ہے جس میں موضوع کی تفہیم، اس پر انسانی حقوق کے آفاقی اعلامیے، اظہار رائے کی آزادی کی حدود وقیود، تقریر کی آزادی پر مفکرین عالم کے نظریات اور ان کا جمہوریت سے تعلق پر تبصرے کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ کتاب Media and Media Law in Pakistan کے دوسرے باب پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 19 دی گئی اظہار رائے کی آزادی، اس سے متعلق قوانین کے متن، اصطلاحات کی تشریح، استثنات، دیگر ہم عصر اقوام میں اس حوالے سے موجود قوانین اور ان میں موجود حدود سے موازنہ کیا گیا ہے۔

تیسرا باب آزادی اظہار رائے اور تقریر کی آزادی کے نتیجے میں توہین عدالت کے امکانات و واقعات کو اجاگر کرتا ہے، چوتھا باب ہتک عزت، پانچواں سائبر قوانین، چھٹا نفسیاتی حربوں اور پروپیگنڈہ پر بحث کرتا ہے۔ یاسمین کی اس کتاب کے ساتویں میں باب میں موجودہ الیکٹرانک میڈیا کا تعارف، موجودہ مسائل سمیت ملکی و غیر ملکی میڈیاز سے متعلق مختلف اسرار ورموز اور تبصرے کیے گئے ہیں، آٹھواں باب سوشل میڈیا کے تعارف، مسائل، بڑھتی ہوئی طاقت اور احتساب میں لائے جانے کے امکانات اور سفارشات سے تبصرے پر مبنی ہے۔ نویں اور آخری باب میں مصنفہ نے میڈیا کی سماجی ذمے داریاں اجاگر کرتے ہوئے مختلف مفکرین کے نظریات پیش کیے ہیں۔

کتاب کی ورق گردانی اور سرسری جائزے کے دوران مصنفہ کی ادبی کاوش قابل ستائش نظر آئی مگر اس کتاب کے بعد کے معاملات اور موجودہ صورتحال کا تفصیلی جائزہ بھی اہمیت کا حامل ہے، جو تشنہ ضرور ہے مگر یہ فرض بھی یاسمین سمیت ہم سب پر ہے کہ موجودہ بدترین حالات جن میں اخباری صنعت روبہ زوال اور بیروزگاری کے زخم سہہ رہی ہے جب کہ الیکٹرونک میڈیا اپنی ہیجانی سے عوام میں غیر مقبول ہونے کی طرف جا رہا ہے، تو اس گھمبیر صورتحال کو کیسے سنبھالا دیا جائے اور صحافی کی زندگی کو کیسے محفوظ کیا جائے۔

امید ہے کہ نئے قوانین و ہدایات اور تشنہ پہلوئوں کو سنجیدہ انداز میں ایک اور کتاب کی صورت میں یاسمین شاید کامیاب ہو جائیں تو ممکن ہے کہ ان کی یہ کوشش حکمرانوں کے صحافت پر پابندیوں کے نامعلوم سائے بہت زیادہ عرصے تک اپنے آسیب میں نہیں رکھ پائیں اور یقین ہے کہ اہل صحافت گھٹن سے نکل سکے گی، اس اہم کتاب کو اردو کے علاوہ علاقائی زبانوں میں لانے کی بھی ضرورت اپنی جگہ ہے، یاسمین کی جرات و تحریر کو ہم سب کا سلام۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں