اپنی زندگی کی ڈور اپنے ہی ہاتھوں کاٹتے امریکی

ہمارے ہاں عامتاثر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہر فرد خوش و خرم زندگی بسر کررہا ہو گاحالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔


Basheer Wasiq January 12, 2014
مریکا میں خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لئے بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں ۔فوٹو : فائل

ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں ہمارے ہاں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہاں پر معاشی خوشحالی کی بدولت خوشیوں کا راج ہوگا ، ہر فرد خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہو گا، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ امریکا جو دنیا کی واحد سپر پاور ہے اسے عموماً ہر حوالے سے رول ماڈل تصور کیا جاتا ہے۔

نیویارک ، واشنگٹن ، کیلی فورنیا وغیرہ ایسی امریکی ریاستیں ہیں جنھیں میڈیا کے ذریعے ایسے پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ تصور ابھر کر سامنے آتا ہے کہ امریکا کے عوام ''سپر نیشن'' ہیں، جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ معاشی بدحالی کی وجہ سے وہاں کے عوام ہر قسم کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہوں گے، اس لئے دنیا کی ہر برائی اور خامی ان میں پائی جاتی ہو گی اور ان کے لئے یہ دنیا جہنم سے کم نہیں ہو گی اور وہ اس دنیا سے جلد از جلد نجات پانا چاہتے ہوں گے ، مگر حیران کن پہلو یہ ہے کہ تمام تر مادی خوشحالی کے باوجود امریکی شہریوں میں خودکشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ترقی اور خوشحالی کے باوجود ان کے شہری پر مسرت زندگی نہیں گزار رہے اور بالآخر بہت سے مایوس ہو کر اپنی زندگی کی ڈور خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔



امریکا میں خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لئے بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کام کر رہے ہیں ۔ نیشنل سوسائیڈ پریوینشن لائف لائن نیٹ ورک انھی اداروں میں سے ایک ہے جو اپنی زندگی سے مایوس ہو جانے والے یا ذہنی دباؤ کا شکار افراد کو فون پر رہنمائی فراہم کرتا ہے اس کے ملک بھر میں 161کال سنٹر ہیں، انھی میں سے نیویارک سٹی کے کال سنٹر میں ایک فون ایسا بھی ہے جسے برج فون کہتے ہیں کیونکہ یہ نیویارک کے گیارہ پلوں پر لگائے ہیلپ کال بوتھ سے منسلک ہے۔ یوں تو اس فون کی گھنٹی کبھی کبھار ہی بجتی ہے مگر جب بجتی ہے تو 24/7لائف نیٹ ہاٹ لائن میں بیٹھے آپریٹرز کے لئے اس کی آواز ایک دھماکے سے کم نہیں ہوتی کیونکہ اس کے بجنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پھر کوئی امریکی خودکشی کے لئے شہر کے کسی پل پر پہنچ چکا ہے۔ آپریٹر کو اس فون کال پر فوری امداد فراہم کرنا ہوتی ہے کیونکہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کے لئے پل پر پہنچ جانے والا کسی بھی وقت کچھ کر سکتا ہے۔

2005ء سے امریکا میں خود کشیوں کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2009ء میں پہلی مرتبہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اس حد تک اضافہ ہو اکہ ان کی تعداد موٹر سائیکل حادثات میں مرنے والوں سے بھی بڑھ گئی۔ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق 2010ء میں 38ہزار 3سو سے زائد امریکیوں نے خود کشی کی۔ 1999ء سے 2010ء تک پینتیس سے پینسٹھ سال تک کی عمر کے امریکیوں میں خود کشی کرنے کے رجحان کی شرح میں 28.4فیصد اضافہ ہوا۔ مردوں میں یہ شرح پچاس فیصد تک رہی۔ بہت سے محققین کا خیال ہے کہ بہت سی ایسی خود کشیاں بھی ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اس لئے خود کشیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔



خود کشیوں میں اس خوفناک اضافے کو دیکھتے ہوئے امریکا میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ خودکشی کے رجحان میں کمی کے لئے کیا اقدامات کئے جانے چاہئیں۔گزشتہ پندرہ سال میں امریکی پبلک پالیسی اور وفاقی فنڈ کا بڑا حصہ عوام میں ذہنی صحت کے معیار کو بہتر بنانے اور ڈپریشن اور خوفزدگی کی کیفیت میں کمی کے لئے کی جانے والی کوششوں پر صرف کیا جا رہا ہے۔ مگر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ عوام کی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے خودکشی کا رجحان رکھنے والوں کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ اگر ایسا فرد رابطہ نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنائے گا۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان رکھنے کی آخری سطح پر پہنچ جانے والے افراد کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

نیشنل سو سائیڈ پریوینشن لائف لائن کے ڈائریکٹر جان ڈراپر کا کہنا ہے کہ ہماری یہ کبھی بھی خواہش نہیں رہی کہ زیادہ سے زیادہ افراد مایوس ہو کر ہم سے رابطہ کریں بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں ایسے افراد موجود ہی نہ ہوں، مگر جب کوئی مایوس فرد رابطہ کرتا ہے تو ہم اس کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں ، اگر امریکا میں دماغی صحت کے نظام کو مکمل طور پر بہتر کرنا ہے تو اس کے لئے صرف فون پر مدد کرنا نہیں بلکہ ایک جامع حکمت عملی درکا ر ہو گی جس کے لئے بہت زیادہ فنڈز کی ضرورت ہو گی۔

نیشنل سوسائیڈ پریوینشن لائف لائن نیٹ ورک کا ہیڈ آفس نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں واقع ہے جہاں پر پورے نیٹ ورک کے ذریعے موصول ہونے والی کالز کا علم ہوتا رہتا ہے، اس دفتر میں تین شفٹوں میں پچاس سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ لائف لائن کال سنٹرز میں کام کرنے والے افراد ماہر نفسیات ہوتے ہیں ، گویا ان کال سنٹرز میں کوئی عام آپریٹر کام نہیں کر سکتا کیونکہ انھوں نے مایوسی میں ڈوبے افراد کی مفید مشوروں کے ذریعے مدد کرنا ہوتی ہے اور اگر کوئی فرد مایوسی کی آخری سٹیج پر پہنچ چکا ہو اور خو د کشی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے فوری مدد بھیجی جاتی ہے۔ بطور آپریٹر کام کرنے والے ماہرین کو چند سوال پوچھنے پر فوری پتہ چل جاتا ہے کہ مدد کے لئے فون کرنے والا کس ذہنی کیفیت سے دوچار ہے۔

نیشنل سوسائیڈ پریوینشن لائف لائن کے ہیڈ آفس میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ شام کے بعد اتنی زیادہ کالز آتی ہیں کہ بہت سے افراد کو کافی دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے حالانکہ مایوس ذہنی کیفیت سے گزرنے والے فرد کی کال فوری سنی جانی چاہیے کیونکہ ایسا فرد کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ادارہ ایسے لوگوں پر فوکس کرتا ہے جو تنہائی یا ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں مگر ان میں ابھی خودکشی کا رجحان پیدا نہیں ہوا ہوتا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ خود کشی کی کوشش کرنے والوں کو بھی ہر ممکن مدد بہم پہنچاتا ہے مگر اس کی مدد اس وقت تک ہی ہوتی ہے جب تک وہ ان سے رابطے میں ہوتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق امریکا میں 80 لاکھ افراد خود کشی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ، جبکہ ان میں سے گیارہ لاکھ افراد مدد کے لئے کال سنٹرز پر رابطہ کرتے ہیں ۔ اس صورتحال کے حوالے سے ادارے کے ڈائریکٹر ڈراپر کا کہنا ہے کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ گیارہ لاکھ افراد ہم سے رابطہ کر کے خود کو بچانا چاہتے ہیں،اس کا کہنا ہے اس سال بارہ لاکھ افراد کی طرف سے فون کال کئے جانے کی توقع ہے، یہ ایک طرح سے ادارے کی کامیابی بھی ہے کہ لوگ ہم پر اعتماد کرتے ہیں ۔

امریکا میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا جائزہ لینے کے لئے بنائے گئے ادارے امریکی ایسو سی ایشن آف سو سائیڈ یالوجی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر لینا برمن کا کہنا ہے کہ لائف نیٹ کا قیام بہت اچھا ہے اس سے مایوس افراد کو ایک فون کال کرنے پر ایسی صورتحال سے نکلنے میں مدد ملتی ہے جس سے وہ نکل نہیں پا رہے ہوتے، اس لئے یہ انسداد خود کشی کے لئے اچھا قدم ہے۔



بہت سے تنقید نگاروں جن میں ڈی جے جیف بھی شامل ہیں کا کہنا ہے کہ خود کشی کو روکنے کے لئے قومی سطح پر جن پروگراموں کی اشتہار بازی کی جاتی ہے یہ سب حکومت کی طرف سے ملنے والے فنڈز کو غلط سمت میں لگانے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام ایسے لوگوں کے لئے ہیں جو ذہنی امراض جیسے ڈپریشن ، خوف کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ایسے افراد جو درحقیقت خود کشی کرنے کا رجحان رکھتے ہیں ان تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ڈی جے جیف 1980ء کی دہائی میں اپنی بہن کے شیز و فرینیا کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد خود بھی مینٹل النس پالیسی آرگنائزیشن کے نام سے کونسلنگ کا ایک ادارہ چلا رہے ہیں، یہ ادارہ ڈپریشن کا شکار افراد کی رہنمائی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مارکیٹنگ اور اشتہار بازی پر پیشہ ضائع کرنا کہاں کی عقلمندی ہے جبکہ یہ جانتے ہیں کہ کہاں پر فوکس کرنا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق ضعف ذہن کی بیماری میں مبتلا 90فیصد امریکی اکثر دوسری ذہنی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ، اس کی وجہ نسل در نسل بیماریوں کا منتقل ہونا اور گھر میں پرتشدد ماحول کا ہونا بھی ہے۔ تاہم ایسے افراد جو خود کشی کی سطح تک پہنچ چکے ہوتے ہیں انھیں آسانی سے فوکس نہیں کیا جا سکتا ۔

ایس اے ایم ایچ ایس اے (SAMHSA ) خود کشی میں کمی کے لئے کام کرنے والا حکومتی ادارہ ہے۔ اس کے تحت دماغی صحت کے لئے کی جانے والی کوششوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس سے لاکھوں امریکی مستفید ہو ئے ہیں، تاہم گزشتہ دو سالوں میں اس ادارے کی طرف سے حکومت کو فنڈز کے لئے کی جانے والی اپیلوں میں کمی ہوئی ہے۔ 2014ء کے لئے ایس اے ایم ایچ ایس اے کی طرف سے پچاس ملین ڈالر کی درخواست کی گئی جو 2012ء کی نسبت آٹھ ملین ڈالر کم ہے ۔ اس ادارے کی طرف سے لائف لائن کو سالانہ 3.7ملین ڈالر فنڈ دیئے جاتے ہیں ۔ اس سال ایس اے ایم ایچ ایس اے امریکیوں میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی کے لئے چلائے جانے والے پروگرام کی بہتری اور چیکنگ کے لئے دوملین ڈالر مزید خرچ کرے گا تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ شہری اس سے کس حد تک مستفید ہو رہے ہیں۔ ادارے کی انسداد خود کشی برانچ کے ایکٹنگ چیف رچرڈ میکون کا کہنا ہے کہ ہماری پالیسی تو یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے افراد پر فوکس کیا جائے جن کی زندگی زیادہ خطرے میں ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کو شش کی جاتی ہے کہ ایسے پروگرام بنائے جائیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ ان کی ذہنی صحت کو بہتر بنایا جا سکے۔

دی گڈ بی ہیوئر گیم (the good behaviour game ) اس ادارے کے تحت چلایا جانے والا ایک پروگرام ہے جس میں لوگوں کے رویے میں پیدا ہونے والے مسائل کی ابتدائی سٹیج پر تشخیص کی جاتی ہے، اس پروگرام پر پانچ سالوں میں گیارہ ملین ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں، اس سلسلے میں خاص طور پر نوجوانوں کو زیر غور لایا جاتا ہے۔



امریکی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک سائنسی بنیادوں پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مینٹل ہیلتھ کی بہتری کے لئے شروع کئے جانے والے ان پروگراموں کے کیا نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ ایک میگزین سائیکاٹرک سروسز میں شائع ہونے والی 2009 ء کی ایک تحقیق کے مطابق 1987ء سے 2007ء تک200سے زائد ایسے پبلیکیشنز سامنے آئے جن کا مقصد عوام میں خود کشی کے رجحان میں کمی کے لئے شعور پیدا کرنا تھا اور انھوں نے عوام میں رسائی بھی حاصل کی تاہم اس حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے عوام میں مینٹل ہیلتھ کی بہتری میں اضافہ یا خود کشی کم ہونے کے رجحان میں کتنی کمی ہوئی ۔ ایک میگزین کے مطابق انسداد خود کشی کے حوالے سے لگائے جانے والے اشتہاری بورڈز کے نوجوانوں پر منفی اثرات بھی مرتب ہو ئے ہیں، نوجوان ان اشتہارات کو پڑھ کر مزید مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور مدد کے لئے فون کرنے کی بجائے خود کو مزید تنہا کر لیتے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی میں ایس اے ایم ایچ ایس اے کے تعاون سے ایک تحقیق کی گئی تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہیلپ سنٹر فون کرنے والوں میں خودکشی کا رجحان کتنا کم ہوا ، یہ تحقیق 2007ء سے 2012ء کے درمیانی عرصہ پر مشتمل تھی، اس کے مطابق ہیلپ سنٹر پر بارہ فیصد فون کرنے والوں کا کہنا تھا کہ فون کے بعد ان میں خود کشی کا رجحان ختم ہو گیا جبکہ پچاس فیصد کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کے بعد کونسلرز سے رابطہ کیا اور اپنا علاج کرایا۔ ایک اندازے کے مطابق انسداد خود کشی، تشہیری مہموں، مینٹل ہیلتھ کے پروگراموں اور دیگر اقدامات پر امریکی حکومت کے 35ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود پریشان کن پہلو یہ ہے کہ امریکا میں خود کشیوں میںکمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے ۔ نیشنل سوسائیڈ پری وینشن لائف لائن کے ڈائریکٹر کے مطابق اس سال پہلے سے ایک لاکھ زیادہ فون کالز آنے کی توقع ہے، یہ اس حوالے سے خوش آئند بھی ہے کہ لوگ مدد کے لئے رابطہ کر رہے ہیں مگر افسوسناک بھی کہ لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے جو خود کشی میں اضافے کے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں