مسیحا یا موت کے فرشتے

دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں پر ڈاکٹر اور قانون کے رکھوالے مریضوں کی زندگی سے کھیلتے ہیں


ریاست طب کے شعبے میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بلاامتیاز سخت ترین کارروائی کرے۔ (فوٹو: فائل)

LONDON: یہ روس کا شہر بلیگوفینشک ہے جہاں پر ماہر ہارٹ سرجن ڈاکٹر والینتین فیلاٹوف مریض کا سینہ کھول کر اس کی اوپن ہارٹ سرجری میں مصروف ہیں۔ اسی دوران سرجن کو معاونین بتاتے ہیں کہ اسپتال کی بالائی منزل میں آگ لگ چکی ہے۔ لیکن وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مریض کی جان بچانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور یوں ڈاکٹر اور مریض دونوں ہی بچ جاتےہیں۔

یہ ایک کافر ملک کے کافر ڈاکٹر کا حال ہے۔ یہاں پر بسنے والے نہ دن رات نمازیں ادا کرتے ہیں اور نہ ہی صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ اور جی ہاں یہ وہی روس ہے جس کے وزیر خارجہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دورے پر آتے ہیں تو اپنی چھتری خود اٹھاتے ہیں، جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی چھتری ملازم اٹھاتا ہے۔ اسی دورے کے دوران یہ بھی طے پایا کہ روس پاکستان کو ویکسین مہیا کرے گا۔ کہنے والے نے کیا خوب کہا کہ اگر ہمارا وزیر خارجہ اپنی چھتری خود اٹھاتا تو ہم بھی ویکسین بنا چکے ہوتے۔

دوسری جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالت زار ملاحظہ فرمائیے، جہاں پر اولیا کے شہر میں 20 مارچ 2021 کو ڈاکٹرز کی غفلت کے باعث سات خواتین سمیت سولہ افراد آپریشن کے دو گھنٹے بعد ہی اپنی آپریشن والی آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ڈاکٹر صاحبان نے دوران آپریشن قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ کیا اور یوں معمولی غفلت سے سولہ افراد بینائی سے محروم ہوگئے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ کے نوٹس کے بعد تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ لیکن کیا ہماری کمزور ریاست ذمے داران کے خلاف کارروائی کرپائے گی؟ یہ بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔

اس سے پہلے گزشتہ سال ڈاکٹرز کی جانب سے زبان کے غیر ذمے دارانہ استعمال کی وجہ سے وکیلوں کے ایک جتھے نے اسپتال پر حملہ کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف سرکاری املاک کو نقصان پہنچا بلکہ کئی مریض زندگی کی بازی ہار گئے۔ آج تک قوم اس سانحے کے ذمے داران کے خلاف بھی کارروائی کی منتظر ہے۔

آپ کچھ دیر کےلیے تصور کیجیے کہ جب روس کے ڈاکٹر کو یہ معلوم ہوگا کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں پر ڈاکٹر اور قانون کے رکھوالے مریضوں کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ ڈاکٹر کسی دوا بنانے والی کمپنی کی دوا مریض کی حالت کے پیش نظر نہیں لکھتے بلکہ اکثر ڈاکٹر حضرات کمیشن، اندرون و بیرون ملک دوروں یا پھر عمرے کے ٹکٹ کے عوض لکھتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ مریض اس دوا کے حصول کےلیے اپنا گردہ بیچے یا گھر، زمین یا زیور بیچے، انہیں تو بس دوا بنانے والی کمپنی کے خرچے پر یورپ جاکر خدا کی قدرت یا پھر یا پھر مکہ مدینہ جاکر خدا کی شان دیکھنی ہوتی ہے اور پھر مریضوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کے خلاف ریاست اس خوف سے کہ کہیں وہ لوگ ہڑتال کرکے ریاست کو مفلوج نہ کردیں، کارروائی کرنے سے گریزاں ہوتی ہے، تو اس کافر ڈاکٹر پر کیا بیتے گی؟

اور اگر ان کو معلوم ہوجائے کہ ایسی حرکتیں کرنے کے بعد بھی یہ لوگ جنت کے طلب گار رہتے ہیں تو شاید ان کا ہاسا (ہنسی) ہی نکل جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست ہر شعبے بالخصوص طب میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بلاامتیاز سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے انہیں نشان عبرت بنادے۔ تاکہ آئندہ کسی کو جرات نہ ہو کہ وہ مریضوں کی زندگی سے کھلواڑ کرے۔ عوام سے بھی گزارش ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خاموش نہ ہوجائیں بلکہ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائیں۔ وطن عزیز کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اس وقت عمران خان وزیراعظم ہیں جو میڈیا پر چلنے والی مہم کا بھرپور انداز میں نوٹس لیتے ہیں۔

رمضان المبارک کی آمد ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ ہم نہ صرف رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں بلکہ رمضان المبارک کے بعد بھی اور کچھ بن سکیں یا نہ کرسکیں، ایک سچا اور مخلص پاکستانی ضرور بنیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں