موٹیویشنل اسپیکنگ حقیقت اور افسانہ دوسرا حصہ
2013 میں ڈونالڈ ٹرمپ کے لندن میں خطاب کے لیے تین گھنٹوں کے لیے 5لاکھ ڈالرز ادا کیے گئے۔
میں عینی شاہد ہوں کہ 2013 میں ڈونالڈ ٹرمپ کے لندن میں خطاب کے لیے تین گھنٹوں کے لیے 5لاکھ ڈالرز ادا کیے گئے۔ میں انھی دنوں صدر پرویز مشرف کے ایک کنٹریکٹ کا شاہد ہوں جس کے لیے انھیں ڈیڑھ لاکھ ڈالرز ادا کیے گئے۔ پ
رسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری کے کچھ ستونوں کو میں نے خود ہائر کیا۔ ٹونی بیوزان کو پاکستان آنے کے لیے ایک کروڑ ادا کیا گیا، اسی طرح شہرہ آفاق جیک کین فیلڈ اور برائن ٹریسی کولندن کے لیے ڈیڑھ، ڈیڑھ کروڑ دو دنوں میں ادا کیے گئے۔ دیپک چوپڑا کی بولنے کی فیس چھ گھنٹوں کے لیے تین کروڑ کے آس پاس ہے۔
اور ہاں، پچھلے تین برسوں میں بہت سے لوگوں نے ٹونی رابنز کے بارے میں پوچھا کہ اسے پاکستان لے کر آتے ہیں اور عمران خان اور ٹونی رابنز کو اکٹھا کیا جائے۔ جب میں نے بتایا کہ رابنز کا تین دن کا سفر اور سپیکنگ کا خرچہ پچیس کروڑ بنتا ہے تو اچھے خاصے لوگوں کا تراہ نکل گیا۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ رابنز کے ساتھ ایک تصویر کھنچوانے کا خرچہ پانچ سے دس لاکھ روپے ہے۔ میں عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے کے ڈیڑھ لاکھ پونڈ کے ایک کنٹریکٹ کا شاہد ہوں جو پانچ سال پہلے سائن کیا گیا تھا۔ گویا سیلف ہیلپ کی دنیا کا راک اسٹار ٹونی رابنز، خان سے بھی پانچ سے دس گنا زیادہ مہنگا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو ابن عربی روحانیت پر بات کرنے، غالب یا علامہ اقبال شاعری کے رموز سمجھانے، ماریہ شاراپووا ٹینس اور زندگی پر بات کرنے کے لیے، نیلسن مینڈیلا لیڈرشپ، اور آل پاچینو یا امیتابھ بچن اداکاری اور زندگی پر بات کرنے کے لیے مل سکیں تو آپ کتنا کچھ لٹانے کے لیے تیار ہوجائیں گے؟
اب آپ شاید ہکا بکا سوچتے ہوں گے کہ مغرب میں دیپک چوپڑا، رابنزجیسے لوگوں کو اتنی رقم دینے کے لیے اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اپنے پلے سے یہ پیسے خرچ کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے سیکھ لیا ہے کہ زندگی کے اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لیے بہترین سے سیکھنا ہے۔
وہ فاقے کرتے ہیں، پیدل چلتے ہیں، مگر اپنے سیکھنے کے اوپر خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً مجھے Success Resources نے ٹونی رابنز کے اپریل 2021 میں ہونے والے ورچوئل پروگرام کو پاکستان میں مارکیٹ کرنے کا کہا، مگر میں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ کیونکہ پاکستانی روپوں میں اس ورچوئل پروگرام کی فیس 65 ہزار روپے سے شروع ہوتے ہوئے پانچ لاکھ تک پہنچتی ہے اور میں پاکستان میں اکا دکا کے علاوہ ایسے لوگوں کے وجود سے آگاہ نہیں ہوں جو اپنے اوپر، سیکھنے سکھانے کے لیے اتنے پیسے لگانے کو تیار ہوں گے۔
پاکستان میں کارپوریٹ ٹریننگ کا دور دورہ ہے جس میں جمائیاں لیتے ہوئے خواتین وحضرات لنچ اور ٹی بریک کے انتظار میں موبائل سے کھیلتے ہوئے، واٹس ایپ کمپنی کے خرچ پر اپنا دن گزارتے ہیں۔ ہم کپڑوں، جوتوں اور کھانے پر یہ پیسے لگا سکتے ہیں، مگر سیکھنے کے لیے کیوں؟ مثلاً ایک دلچسپ سوال ہے کہ آپ میں سے کتنے پڑھنے والوں نے آج تک 50 ہزار سے زائد رقم اپنی پرسنل ڈویلپمنٹ پر خرچ کی ہے؟ کتابیں خریدی ہیں؟ کورس کیے ہیں؟ ضرور بتائیے گا۔
ٹونی رابنز کی ٹریننگ صبح 6 بجے سے لے کر رات 2 بجے تک چلتی ہے۔ اگر آپ پوچھیں کہ پچھلے سال لندن میں ایک چھت کے نیچے اس کے پروگرام میں کتنے لوگ 18 گھنٹے کی ٹریننگ میں موجود تھے تو جواب ہے، صرف پندرہ ہزار۔ اپریل 2021 کے ورچوئل پروگرام کے تیس ہزار سے زائد ٹکٹ بکے۔
پاکستان میں سیلف ہیلپ انڈسٹری، گزشتہ بیس برس میں ٹیکنالوجی کے انقلاب اور واٹس ایپ کی برکت سے پتھر کے دور سے براہ راست فائیو جی میں داخل ہوئی ہے، جس کے اپنے اپنے چیلنجز ہیں۔ کوئی بیس برس پہلے جب میں نے اور پاکستان کے نامور اسپیکر قیصر عباس نے ''ٹک ٹک ڈالر'' اور'' شاباش تم کرسکتے ہو'' مل کر لکھی تھیں توتب وہ اردو میں شایع ہونے والی ابتدائی کتابوں میں سے تھیں۔ قاسم علی شاہ کو اس وجہ سے میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ سیکھنے سکھانے کے اس سلسلے کو ''معلیٰ'' سے ''محلے'' میں لے آئے اور سیلف ہیلپ کے محدود دروازے کو لامحدود میں کھول دیا اور عوام الناس کو ''ٹوٹوں''سے ہٹا کر ''حکمت'' کو شیئر کرنے پر لگا دیا۔
پاکستان میں پرسنل ڈیویلپمنٹ کے ماہرین کے مالی امکانات کے حوالے سے میں اپنے سمیت چند نامور دوستوں کو جانتا ہوں جنھیں چند ایک دن کا چھ یا سات ہندسوں میں معاوضہ ملتا ہے، لیکن ایسے لوگ آپ انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی سیلف ہیلپ انڈسٹری اپنے بچپنے میں ہے اور اگر اسے درست ٹریک پر نہ ڈالا گیا تو بدقسمتی سے یہیں سے موت کے منہ میں جانے کا اندیشہ بھی ہے۔
پرسنل ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے مقررین اور مصنفین کا برصغیر پاک و ہند پر بہت اثر رہا ہے۔ بہت دفعہ کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو کانوں کا چسکا ہے۔ قابض انگریزوں کے خلاف 1857کی جنگ آزادی کے پیچھے بھی مقررین کی قوت کارفرما تھی، آزادی کی تڑپ اس دور کے حساب سے شعر و شاعری اور دیگر اشاعت کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی گئی۔ جنگ آزادی کے بعد مولوی نذیر احمد اور سرسید کے کام میں بھی مجھے پرسنل ڈیویلپمنٹ یا خود کاری کے لوازمات ملتے ہیں کیونکہ ان تحریروں کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو تبدیلی پر اکسایا گیا ہے۔
مسلمانوں کو اپنی حالت زار سے آگاہ کرنے، آنے والے مشکل دور کے لیے تیار کرنے اور خودی کو بیدار کرنے کے لیے علامہ اقبال نے بھی شاعری اور نظموں کے ذریعے عام مسلمانوں کو عمل پر اکسایا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، بہادر یار جنگ، عطاء اللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری جیسے لیڈرز دراصل اپنے دور کے اعلیٰ پائے کے شعلہ بیان مقررین تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو ایک بہترین اسپیکر گزرے ہیں اور ان کی وجہ شہرت ان کی خطابت کے جادوئی انداز میں پوشیدہ تھی۔
1971 کی مایوس کن شکست کے بعد بھٹو نے ایک مایہ ناز مقرر ہونے کی وجہ سے پوری قوم کو اکٹھا کر کے مایوسی کے اندھیروں سے نکالا۔ عمران خان کے جوہر آپ سب نے کنٹینرز پر دیکھ ہی لیے ہیں۔ طاہر القادری بھی اسی صف میں شامل ہیں۔
(جاری ہے)