حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے کیوں

الیکشن کمیشن کے خلاف حکومت کی مسلسل مہم ہمارے ابن الوقت سیاست دانوں کے اس روایتی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔


Asghar Abdullah April 07, 2021
[email protected]

سیکرٹ بیلٹ کے بعد ڈسکہ الیکشن کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے موقف سے اتفاق کیا، اس کے خلاف حکومتی اپیل مسترد کردی اور ڈسکہ الیکشن دوبارہ کرانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے خلاف عدالتی محاذ پر حکومت کی یہ دوسری ناکامی ہے۔

اس پر حکومت کا ردعمل اس طرح سامنے آیا کہ جہاں وزیراعظم نے قوم سے ٹیلی فونک خطاب میں پھر عدلیہ کے عدم تعاون کی شکایت کی۔ وزیر سائنس فواد چوہدری نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن میں ''اصلاحات'' کے لیے اپوزیشن سے بھی تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔

اس سے پہلے بھی حکومت کے کچھ وزرا پریس کانفرنس کرکے مطالبہ کر چکے ہیں کہ موجودہ الیکشن کمیشن مستعفی ہو جائے، کیونکہ وہ حکومتی پارٹی ، جو ملک کی سب سے بڑی پارٹی بھی ہے، کا اعتماد کھو چکا ہے۔ اس صورتحال کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمیشنرکو موجودہ حکومت ہی نے اس عہدے کے لیے منتخب کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے بارے میں اپوزیشن کے تحفظات تو سمجھ میں آتے ہیں، مگر پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت، اپوزیشن سے بھی بڑھ چڑھ کر الیکشن کمیشن کے خلاف سرگرم عمل ہے ۔

نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی نمایندوں کے درمیان بات چیت شروع ہوئی تو وزیراعظم نے بابر یعقوب، عارف خان اور فضل عباس میکن؛ جب کہ اپوزیشن لیڈر نے جلیل عباس جیلانی، ناصر محمود کھوسہ ( جو ریٹائرڈ بیوروکریٹ اورسابق چیف جسٹس آصف سعید کے بھائی ہیں)اور اخلاق احمد تارڑ کے نام تجویز کیے۔

وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے پر یہ 6نام پارلیمانی کمیٹی کے پاس گئے، مگر وہاں بھی ان میں سے کسی نام پر اتفاق نہ ہوا کہ بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے برابر برابر ارکان ہوتے ہیں۔) اس ڈیڈ لاک کے خاتمہ کے لیے دونوں طرف سے جو نئے نام سامنے آئے، ان میں شہبازشریف کی طرف سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر اور عمران خان کی طرف سے سکندرسلطان راجہ کا نام بھی شامل تھا۔ بطور سول سرونٹ سکندر سلطان راجہ کا کیریئر انتہائی شاندار اور بے داغ رہا ہے۔

ان کے والدسلطان احمد فوج میں میجر تھے۔ 1987میں سی ایس ایس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، دوران سروس مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی میں اپنے ذاتی تعلقات کو انھوں نے کبھی حائل نہیں دیا تھا۔ ان کی اسی uprightness کی وجہ سے ہی عمران خان نے نئے چیف الیکشن کمشنر کے لیے ان کا نام تجویز کیا تھا۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پارلیمانی کمیٹی کی جس میٹنگ میں سکندر سلطان راجہ (چیف الیکشن کمشنر) اور دوسرے دو ارکان ناصر احمد درانی (سندھ) اور شاہ محمد جتوئی ( بلوچستان )کے ناموں پر اتفاق رائے ہوا، وہ میٹنگ اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں ہوئی تھی،اورخودا سپیکرصاحب نے اس میٹنگ کی صدارت کی تھی۔ اس میٹنگ کے بعد شیرین مزاری نے نئے چیف الیکشن کمشنر اور سندھ، بلوچستان کے دو نئے ارکان کی متفقہ منظوری کو عمران خان حکومت کی تاریخی کامیابی اور پارلیمنٹ کی فتح قرار دیا تھا۔

حکومت نے مگر اس پر جس طرح ردعمل ظاہر کیا، اس سے پہلے کم ازکم حکومت کی سطح پر ایسی کوئی مثال پیش نہیں جا سکتی۔ وزیراعظم نے اسی رات قوم سے خطاب کیا، جس کی ضرورت نہ تھی۔ مزید یہ کہ اس خطاب میں ان کا لہجہ کافی غیر محتاط تھا۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کو نہ صرف یہ کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا ذمے دار قرار دیا، بلکہ یہ نامناسب الزام بھی عاید کردیا کہ اوپن بیلٹ کے تحت الیکشن نہ کراکے الیکشن کمیشن نے ناجائز پیسا بنانے والوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ یہ معمولی الزامات نہ تھے۔

چنانچہ الیکشن کمیشن نے بھی خلاف روایت پریس ریلیز جاری کرکے اپنی پوزیشن واضح کرنی ضروری سمجھی۔ یہ بھی حکومت کو ناگوار گزرا، بلکہ الیکشن کمیش کے خلاف اس کے جذبات میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔

اس تنازعہ میں جو چیز ابھی تک حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے نہ تو خود سے الیکشن کا کوئی طریقہ وضع کیا اور نہ کسی الیکشن کا نتیجہ بدلا، بلکہ آئین کے تحت الیکشن کرائے اور ان کے نتائج کا اعلان کیا۔ الیکشن کا طریقہ وضع کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔

حکومت کو سیکرٹ بیلٹ کا طریقہ پسند نہیں تو اس کو بدلنے کے لیے اس کے پاس آئینی راستہ موجود ہے۔ مگر اس راستہ پر آگے بڑھنے کا طریقہ یہ ہے حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے کر آگے چلے۔ آئین میں اس طرح کی تبدیلی کا بل، جس سے حکومت اور اپوزیشن دونوںمساوی طور پر متاثر ہوتے ہیں، اتفاق راے کے بغیر پیش کرنے کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

اس حوالے سے مگر حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس روز حکومت نے انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی، اس سے گزشتہ روز یہ مطالبہ داغ دیا کہ الیکشن کمیشن مستعفی ہو جائے، یعنی وہ الیکشن کمیشن جسے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اتفاق رائے سے مقرر کیا تھا اور یہ مطالبہ کرتے ہوئے حکومت یہ بھی بھول گئی کہ چیف الیکشن کمشنر کے لیے سلطان سکندر راجہ کا نام خود وزیراعظم نے تجویزکیا تھا۔

حقیقتاً، الیکشن کمیشن کے خلاف حکومت کی مسلسل مہم ہمارے ابن الوقت سیاست دانوں کے اس روایتی مزاج کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ اپوزیشن ہوں تو یہ اداروںکے استحکام اور خود مختاری کی دہائی دیتے ہیں، اور جب حکومت میں آتے ہیں تو ان اداروں کی خودمختاری سلب کرنے اور تمام تر اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ شاید یہی ہماری جمہوریت کا ، ہماری سیاست کا اور ہمارے حکمرانوں کا المیہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں