بولنے میں مشکلات کے شکار افراد کیلیے اسٹیمر سرکل قائم

سرکل ہکلاہٹ کے شکارافرادکواسپیچ تھراپی کی تکنیک سکھانے کے ساتھ عوامی سطح پرانھیں خیالات کے اظہارکاموقع فراہم کرتاہے


Kashif Hussain April 05, 2021
ہکلاکربولناکوئی بیماری یامعذوری نہیں بلکہ ایک خوف ہے جوشخصیت پرحاوی ہوجاتاہے،متاثرہ فردروانی سے نہیں بول سکتا،شیرازاقبال

کراچی کے رہائشی محمد شیراز اقبال نے بولنے میں مشکلات کا شکار افراد میں اعتماد کی بحالی کے لیے پاکستان کا پہلا اسٹیمر سرکلStammer Circle قائم کیا ہے جس کے اراکین کی تعداد100ک لگ بھگ ہے ، زیادہ تر کراچی سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں نوجوانوں کی اکثریت ہے اس سرکل کا حصہ ہیں۔

اس سرکل کے تحت بولنے میں مشکلات کا شکار افراد کے لیے خصوصی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اسپیچ تھراپی کی تکنیک سکھانے کے ساتھ عوامی سطح پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے اعتماد کو بلند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، محمد شیراز اقبال خود بھی 5 سال کی عمر سے اس مشکل کا شکار رہے تاہم متحدہ عرب امارات میں شارجہ میں مقیم ہونے کی وجہ سے انھیں اسکولنگ میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن پاکستان میں ہکلاہٹ کے شکار افراد کے لیے سب سے بڑا چیلنج اسکول میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ اساتذہ کی سرد مہری اور تنقیدی رویے کا سامنا کرنا ہے۔

محمد شیراز اقبال نے بتایا کہ ہکلا کر بولنا کوئی بیماری یا معذوری نہیں بلکہ ایک خوف ہے جو شخصیت پر حاوی ہوجاتا ہے اور پھر متاثرہ افراد الفاظ کی ادائیگی اور روانی سے بولنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں، شیراز نے اپنی ہائی اسکول تک کی تعلیم شارجہ میں حاصل کی جہاں انھیں تعلیم کے دوران کبھی بھی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اساتذہ نے دیگر طلبا کے مقابلے میں ہمیشہ ان کو ترجیح دی اور انھیں زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیا اس کے برعکس پاکستان میں بولنے کے مسائل کا شکار بچوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اسکولنگ ہے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے ہم جماعتوں سے زیادہ اساتذہ کے تنقیدی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اساتذہ ایسے بچوں کو بولنے کا موقع نہیں دیتے جو بولنے میں دقت محسوس کرتے ہیں یا رک رک کر بولتے ہیں۔

ہکلاہٹ کے شکارافرادکومعاشرہ بیوقوف سمجھتاہے

ہکلاہٹ کے شکار افراد کو معاشرے میں سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور انھیں دیگر افراد کے مقابلے میں کم عقل سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہکلاکر بولنے کا ذہنی یا جسمانی صلاحیتوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ بات محمد شیراز اقبال نے گفتگو میں کہی انھوں نے کہا کہ ہلکاہٹ کا شکار افراد کے لیے روزگار کا حصول بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ اکثر ادارے ایسے افراد کو مسترد کردیتے ہیں جو انٹرویو کے دوران بولنے میں مشکل کا شکارہوتے ہیں ہکلاہٹ کے شکار افراد کے لیے رشتہ کاحصول بھی مشکل ہوتا باالخصوص خواتین اور لڑکیوں میں اگر یہ کمی ہو تو انھیں شادی میں پریشانی ہوتی ہے۔

خود محمد شیراز نے بھی اپنی عملی زندگی میں ملازمت کے حصول کے لیے 70کے لگ بھگ انٹریو دیے جن میں انہیں اسی رویے کا سامنا کرنا پڑا، محمد شیراز کہتے ہیں کہ دنیا میں ہکلاکر بولنے والے افراد کا تناسب آبادی کا ایک فیصد ہے اس لحاظ سے پاکستان میں20 لاکھ افراد اس مشکل کا شکار ہیں جن کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا جاتاہے، اگر اسکول اور ملازمت فراہم کرنے و الے اداروں کی سطح پر ہکلاہٹ کے شکار افراد کو نظرانداز نہ کیا جائے تو یہ افراد معاشرے کے مفید شہری بن سکتے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن بھی ہکلاہٹ کا شکار تھے
دنیا کی طاقتور ترین شخصیت امریکی صدر جو بائیڈن بھی بچپن سے اس کمزوری کا شکار رہے لیکن پاکستان کے برعکس امریکی معاشرے میں اس طرح کی کسی کمی کو چھپایا نہیں جاتا اور پورا معاشرہ ایسے افراد کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے جس کا عملی ثبوت جو بائیڈن کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے، پاکستان میں جو افراد ان مشکلات کا شکار رہے اور اپنی اس کمزوری پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اب وہ اس بارے میں اظہار کرنا پسند نہیں کرتے اگر ایسے افراد سامنے آئیں اور متاثرہ افراد کا حوصلہ بڑھائیں تو اس مسئلے پر قابو پانے میں آسانی ہوگی۔
اسپیچ تھراپسٹ اورڈاکٹرزبھی ہکلے افراد کاغلط طریقے سے علاج کررہے ہیں
اسپیچ تھراپی کرنیوالے اور ڈاکٹرز بھی ہکلانے کے شکار افراد کا غلط طریقے سے علاج کرتے ہیں زیادہ تر معالج پیسے لے لیتے ہیں اور کوئی تبدیلی نہیں لاپاتے اکثر ماہرین متاثرہ افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ چوینگم کھائیں، شیراز کے اسٹیمر سرکل میں ایسے بھی افراد ہیں جنھوں نے چار ماہ تک چوینگم کھائی جس سے ان کے بولنے کے انداز میں تو کوئی تبدیلی نہ آسکی تاہم انھیں دانتوں میں کیویٹی کا مسئلہ لاحق ہوگیا۔

ہکلے افراد کااعتماد کئی سالوں میں بحال ہوتا ہے،شیراز

ہکلاہٹ کے شکار افراد میں اعتماد کی کمی کم عرصہ میں دور نہیں کی جاسکتی اس پر قابو پانے میں کئی سال لگتے ہیں، اپنے سرکل کے ذریعے وہ ہکلاہٹ کے شکا ر افراد کو اسپیچ تھراپی کی تکنیک کے ساتھ وہ نفسیاتی طریقے بھی سکھاتے ہیں جن کی مدد سے وہ معاشرے کی تنقید یا مذاق برداشت کرسکیں، الفاظ کے چنائو اور ادائیگی میں خود پر کنٹرول رکھنا ہوتا ہے سب سے بڑھ کر اس بات سے لاپروائی اختیار کرنا پڑتی ہے کہ سامنے والا کس طرح کا ردعمل دے رہا ہے یہ بات محمد شیراز اقبال نے گفتگو میں کہی انھوں نے کہا کہ ہکلاہٹ کے شکار افراد میں اعتماد کو بلند کرنے میں ان کے گھر کا ماحول بھی اہمیت رکھتا ہے جن گھروں میں ہکلاہٹ کے شکار بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ گھر میں بھی بولنے سے اجتناب کرتے ہیں اور ان کی شخصیت دب جاتی ہے، معاشرے کے دیگر صحت مند افراد ہکلاہٹ کا شکار افراد کے لیے صرف اتنا ہی کریں کہ ان کی بات کو پورا ہونے دیں درمیان میں لقمہ نہ دیں اور ان کے جملے کو پورا کرنے کی کوشش نہ کریں۔

ہکلاہٹ کے شکارافراداپنی کمزوری کونہ چھپائیں

ہکلاہٹ کا شکار بہت سے افراد ایسے افراد سے بات کرتے ہوئے زیادہ نہیں اٹکتے جن کا رویہ دوستانہ ہوتا ہے لیکن یہ مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے کیونکہ اس میں کنٹرول متاثرہ فرد کے پاس نہیں ہوتا جیسے ہی سننے والے کا رویہ تبدیل ہوتا ہے متاثرہ فرد کی مشکل بھی بڑھتی جاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس میں ہر طرح کے حالات میں اپنی بات کہی جاسکے، یہ بات محمد شیراز اقبال نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ میں نے ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے 6 سال محنت کی اور بات کرتے ہوئے خود پر قابو پانا سیکھا ہے۔

ہکلاہٹ کے شکار اکثر افراد اپنی اس کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لیے خاموش رہتے ہیں یا اظہار خیال نہیں کرتے یہ غلط طرز عمل ہے شیراز اقبال ہکلاہٹ کے شکار افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی اس کمزوری کو دوسروں سے نہ چھپائیں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کریں یہی اس کمزوری پر قابو پانے کا موثر طریقہ ہے اس مقصد کے لیے وہ اپنے سرکل کے تحت پبلک اسپیکنگ کے مواقع مہیا کرتی ہے جو کرونا کی وبا کی وجہ سے یہ سرگرمیاں کافی متاثر ہوئی ہیں۔

جدید اسپیچ تھراپی کا سینٹر بنانامیرا خواب ہے،شیراز اقبال
شیراز ایک مذہبی پلیٹ فارم کے سوشل میڈیا سے منسلک ہیں اور اپنے تجربہ اور مہارت کو بولنے میں مشکلات کا شکار افراد کی بحالی کے لیے بروئے کار لانے کے خواہش مند ہیں، شیراز اپنے سرکل کو پاکستان بھر کی سطح پر پھیلانا چاہتے ہیں، پشاور، اسلام آباد اور لاہور سے بھی لوگ ان سے رابطہ کررہے ہیں اور اعتماد کی بحالی کیلیے سرگرمیوں کے انعقاد پر زور دے رہے ہیں لیکن شیراز کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے دوسری جانب کورونا کی وبا کی وجہ سے بالمشافہ سرگرمیوں کا انعقاد مشکل ہے۔

کراچی میں انھیں ٹی ڈی ایف کی معاونت حاصل ہے جو انھیں سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے آڈیٹوریم یا جگہ فراہم کرنے کے لیے دی جاتی ہے جس سے انھیں سرگرمیوں کے انعقاد میں مدد ملتی ہے، شیراز پاکستان میں اسپیچ تھراپی سینٹر بنانے کے بھی خواہش مند ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں