قدیم و تاریخی شہر خموشاں

سندھ کا ایک تاریخی شہرٹھٹھہ جس کو جام نظام الدین اور جام نندو نے بسایا تھا


ایم قادر خان April 02, 2021
سندھ کا ایک تاریخی شہرٹھٹھہ جس کو جام نظام الدین اور جام نندو نے بسایا تھا

سندھ کا ایک تاریخی شہرٹھٹھہ جس کو جام نظام الدین اور جام نندو نے بسایا تھا۔ جب مغل قابض ہوئے تو اس شہرکی رونق کو چار چاند لگ گئے۔ اس وقت اس کی آبادی ایک لاکھ سے بھی زائد تھی یہ علم و فن، صنعت و حرفت ، تجارت کا بڑا مرکز تھا۔ ٹھٹھہ شہر گھٹتے گھٹتے بعد میں ایک زمانہ ہوکر رہ گیا۔

قدیم ترین شہر خموشاں کی شان و شوکت کا پتا دیتی ہے۔ دوسری چیز جس سے ٹھٹھہ کی عظمت کا اس شہر سے لگایا جاسکتا ہے وہ اس کی جامع مسجد ہے۔ یہ مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد میں ہی اس میں دیدہ زیب ، خوشنما ٹائل استعمال ہوئے۔ جامعہ مسجد کی خاص چیز برآمدوں کے وہ گنبد ہیں جن میں سے گونجتی ہوئی امام صاحب کی آواز محراب سے ہوتی ہوئی زیادہ فاصلے پر پہنچتی ہے جو صاف سنائی دیتی ہے۔ جو کام آج کل لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے کیا جاتا ہے وہ اس مسجد میں خود بخود انجام پاتا ہے۔

کسی زمانے میں ٹھٹھہ میں چار سو مدرسے تھے ، ان میں جید عالم درس دیا کرتے تھے ، ہزاروں طالب علم ، علم حاصل کرتے۔ اس زمانے میں ٹھٹھہ سندھ کا دارالحکومت تھا، دارالحکومت ہونے کے ساتھ ٹھٹھہ کی جس قدر ترقی ہوئی اسی قدر اس کو تباہ و برباد کیا جو بھی حملہ آور آتا وہ اس شہر کو تباہ کرتا ، بعض حملہ آوروں نے اسے آگ بھی لگائی۔

ٹھٹھہ کے ویران ہونے کی خاص وجہ یہ بھی ہوئی کہ بعد کے حکمرانوں نے اسے چھوڑ کر حیدرآباد شہرآبادکیا اس کو دارالحکومت بنایا جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ ٹھٹھہ کی آبادی کم ہونے لگی۔ ٹھٹھہ کی بعض اشیا پورے ملک میں پسند کی جاتی ہیں اور ملک سے باہر بھی ان کی مانگ ہے۔

جن میں ریشمی لنگیاں اور لکڑی کا سامان خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ یہاں اسکول و کالج ، سرکاری دفاتر ، سول اسپتال قائم ہیں جس کی وجہ سے آبادی میں خاص اضافہ اور رونق بڑھ گئی ہے۔تپتی دوپہر میں ، اداس سانسوں میں ، اداس شاموں میں ، ساون گھٹاؤں میں ، موسلا دھار بارشوں میں ، چاندنی راتوں میں ، جنوب سے آنے والی تیز ہواؤں میں ، کپکپاتی ہوئی سردیوں میں ، اور مکلی کے شہر خموشاں میں تو ہم تاریخ کے ان دریچوں میں چلے جاتے ہیں۔

جہاں ہزارہا منظرنامے ہیں جو مکلی کے اس وسیع و عریض قبرستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہاں وقت کے حاکموں کا کمال اور زوال کی داستانیں ہیں ، وقت کے وہ حاکم جو زبان سے کہہ دیتے وہ حکم بن جاتا۔ مگر وقت خود سب سے بڑا حکمران ہے وہ ان حاکموں کے منفی عوامل پر مسکراتا اور خاموشی سے دیکھتا رہتا ہے۔مکلی کا قبرستان جوکہ دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا بڑا شہر خموشاں ہے جس میں لاکھوں قبور ہیں۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علما، مشائخ، فضلا، محققین ، مدبر، مفکر، قلم کار، شعرا، نوابین، مغل اور جرنیل سپرد خاک ہیں۔

یہاں کی قبور کی خاص بات ان کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہل قبر کے زمانے کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اس دور کی تہذیب و ثقافت اور ہنرمندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان قبور پر کی گئی نقاشی اور مینا کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ٹھٹھہ مکلی کا یہ قبرستان ایک تاریخی ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد مختلف داستانیں ان کی عظمت کی داد دیتا ہے۔

یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہونے کے ساتھ بین الاقوامی عالمی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ جب ہم تاریخ کی اوراق گردانی کرتے ہیں تو آگاہی ہوتی ہے کہ وقت سے بڑا مصنف کوئی اور نہیں۔ تاریخ کے اوراق ان بادشاہوں کی کامیابی سناتے ہیں جو اپنے شاندار مقبرے اور مرقد بنواتے تھے کہ مرنے کے بعد ان میں مدفون ہوسکیں۔ کچھ تو لوگوں نے ان کے دربار میں ان کو مار ڈالا۔ ٹھٹھہ مکلی کا یہ شہر خموشاں اپنے ہزاروں بادشاہوں، سرداروں، امیر زادوں سے بھرا پڑا ہے جو موت کی آغوش میں سو رہے ہیں۔

تقریباً بیس میل کے پہاڑی و میدان سلسلے میں یہ قبرستان پھیلا ہوا ہے۔ یہ پراسرار قبرستان '' ساموی سے شروع ہوتا ہے اور پیر پٹھو'' کی طرف جاکر ختم ہوتا ہے جس میں ساتویں صدی کے راز مدفون ہیں۔

مکلی کے اس قبرستان میں طبعی موت سے مرنے والے کم لوگ ہیں دراصل ''ارجن'' اور ''ترکھان'' مغل ایک حاکم طبقہ رہا ہے اور یہ طبقہ اکثر زندگی کے دن تخت و تاج حاصل کرنے میں گزارتا رہا ، لہٰذا طبعی سے ہٹ کر یہاں موت وقت سے پہلے ہی آجاتی تھی۔ ان قبور اور مزارات میں جو لوگ دفن ہیں ان کی موت کے متعلق اگر تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ لوگ میدان میں مارے گئے یا پھر شب کی تاریکی میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

ٹھٹھہ کے مکلی قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جو پہلی قبر تعمیر ہوئی وہ ایک خاتون کی تھی اور وہ عورت اس علاقے میں مکلی کے نام سے معروف تھی۔ وہ کون تھی، کس طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور کس سماج کی حامل تھی، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ اس قبرستان کی دوسری وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ معروف سندھی مورخ احتشام الدین راشدی نے تحریر کیا ہے کہ ایک بار کسی بزرگ نے مکلی پہاڑی پر رات عبادت کرتے ہوئے قیام میں گزاری اور وہ یہیں پر سوگئے۔ رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلیات کے نظارے کروائے۔

صبح جب بیدار ہوئے تو بے اختیار پکار اٹھے ''ہٰذا مکری'' یہ بات اس دور میں مشہور ہوگئی۔ لوگ اس جگہ کو ''مکری'' پکارنے لگے جو بعد میں زبان کے لہجے کی وجہ سے تبدیل ہو کر ''مکلی'' کے نام سے پکارا جانے لگا۔ جب کہ بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق بعدازاں اس بزرگ نے یہاں کے بادشاہ کو یہ جگہ آباد کرنے کا مشورہ دیا جس کے بعد یہاں پر قبرستان بنا دیا گیا۔مکلی صرف ایک شہر خموشاں نہیں بلکہ اس دور کی ہنرمندی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

پتھروں اور مقبروں کے نقوش، کندہ کاری، مینا کاری، خطاطی اور اعلیٰ کندہ کاری اپنی مثال آپ ہے۔ مکلی قبرستان کی ہر قبر اور ہر ایک مقبرہ جاذب نظر، دل کش اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس قبرستان میں چھ لاکھ سے بھی زائد مقبرے اور قبریں موجود ہیں ان میں ایک لاکھ سے زائد اولیا کرام، 33 بادشاہ وقت، 17 گورنر، امیر، امیرزادے، سردار مدفون ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں :

1۔جن بادشاہوں کا دور 1352سے 1520 تک رہا۔2۔ ترخان بادشاہوں کا دور جوکہ 1556 سے 1592 تک رہا ۔

عمارات کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرز تعمیر عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان مقبروں میں مغل سردار ارطغرل بیگ، جانی بیگ، جان بابا، سلطان اور شاہین ترکھان اول جیسے علما، سردار، میر، نواب و دیگر لوگ محو خواب ہیں۔

مکلی قبرستان اہم ہونے کے ساتھ قدیم ہے علاوہ ازیں اس کی تاریخ ہمارے تاریخ کے طالب علموں کے لیے خاص ہے جس کا مطالعہ سندھ کے انمول ہیروں کی داستان پیش کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں