کارپوریٹ کلچر اقتصادی میدان میں ترقی کی کنجی

اس کلچر کی عدم موجودگی سے اختراع، نمو اور وسائل کی انتظام کاری پر منفی اثر پڑتا ہے


Express Tribune Report March 29, 2021
پاکستان میں ’’ سیٹھ‘‘ کا مائنڈ سیٹ بدل کر بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے

پاکستان میں کارپوریٹ کلچر حقیقی معنوں میں پروان نہیں چڑھ سکا۔ یہاں لولا لنگڑا کارپوریٹ کلچر بھی ''سیٹھ'' کی اپروچ کے ذریعے کام کررہا ہے۔

کارپوریٹ کلچر کی عدم موجودگی اور '' سیٹھ کے مائنڈ سیٹ '' کا پھیلا ؤ 3 پہلووں پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ان پہلوؤں میں اختراع اور نمو، وسائل کی بہتر انتظام کاری اور انسانی وسائل کا مؤثر استعمال شامل ہے۔ کسی فرد واحد یا خاندان (سیٹھ کلچر) کے لیے روایتی انداز سے ہٹ کرسوچنا اور نت نئی سمتوں میں مہم جوئی کرنا بہت مشکل ہے۔

اسی سوچ کی وجہ سے فیصل آباد اور سیالکوٹ کے بیشتر صنعی مراکز بینکوں سے قرض نہیں لیتے اور انھیں اس سوچ کی قیمت کاروباری ترقی نہ ہونے کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ نئے آئیڈیاز اور مینجمنٹ اپروچ نہ ہونے سے کاروباری ترقی منجمد ہوجاتی ہے۔ کارپوریٹ اپروچ نہ ہونے سے جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے وہ انسانی وسائل ہے۔ سیٹھ کی اپروچ '' ملازم بطور اسٹیک ہولڈر اور شراکت دار'' کے بجائے '' مالک اور نوکر'' کے ماڈل کی عکاس ہوتی ہے۔

اسی لیے کارپوریٹ ماڈل نہ اپنانے والے کاروباروں میں ملازمین کے اطمینان کی سطح بہت نیچے ہوتی ہے۔ سیٹھ کی اپروچ صنعی شعبے سے زیادہ خدمات کے شعبے میں پائی جاتی ہے۔ پیشہ وارانہ خدمات کے شعبے میں ملازمین کے ساتھ انتہائی غیرپیشہ وارانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے اور صنعتی شعبے کے ملازمین کے مقابلے میں '' مالک'' اور '' سیٹھ'' کے مائنڈ سیٹ کا انھیں زیادہ سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرکے اور کارپوریٹ کلچر کو اپنا کر بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں