جمہوری حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام سے گریزاں کیوں

قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلی کے صرف 1174ارکان 21 کروڑ عوام کو روز مرہ مسائل سے کیسے چھٹکارہ دلا سکتے ہیں۔


Ghulam Mohi Uddin March 21, 2021
جمہوریت کا رونا رونے والے ارکان اسمبلی اور افسر شاہی اپنی طاقت اور اختیار میں کسی کو شامل کرنے پر آمادہ نہیں۔ فوٹو: فائل

15 جولائی 2016 کو تاریخ نے ایک عجیب سیاسی کامیابی کا نظارہ کیا، جب ترکی کی اعلیٰ فوجی قیادت سے انحراف کرتے ہوئے جرنیلوں کے ایک باغی گروہ نے ہردلعزیز رہنما رجب طیب اُردوان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تو ترکی کے نہتے عوام نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا ۔ لوگ گھروں سے نکلے اور ٹینکوں سے بھڑ گئے۔

پاکستان کی طرح ترکی کی سیاسی تاریخ بھی ریاستی معاملات میں غیر معمولی فوجی اثر ورسوخ اور دخل اندازی سے بھری پڑی ہے۔ مغربی طاقتیں بھی ترکی میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے فوج پر انحصار کرتی رہی۔ عین ممکن ہے کہ صدر اُردوان کے خلاف بغاوت کے پیچھے بھی انہی طاقتوں کا خفیہ ایجنڈا کار فرما ہو۔

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ترک قوم اپنی فوج کے ساتھ اُنسیت اور گہرے احترام کا رشتہ رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود جس فوجی کارروائی کو عوامی حمایت حاصل نہ تھی اور ترک لوگوں کے نزدیک بلا جواز تھی اُسے خود لوگوں نے ہی اپنے عزم اور قربانی سے ناکام بنا دیا۔ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ عوامی سطح پر ایسی منظم مزاحمت صرف اسی صورت میں ممکن ہوا کرتی ہے جب لوگوں کو سیاسی اور سماجی حوالوں سے گلی محلے کی سطح پر منظم کر دیا گیا ہو۔

اگر ایسا نہ ہو تو ایسی کسی بعاوت یا ناپسندیدہ غیر جمہوری اقدام کے خلاف شدید جذبات ہونے کے باوجود بھی عوام کوئی موثر مزاحمتی تحریک منظم نہیں کر پاتے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر عوام حکومت سے نالاں ہوتے اور اس سے جان چھڑانے کے درپے ہوتے تو یقیناً اُس فوجی گروہ کا ساتھ دیتے جس نے حکومت کے خلاف بغاوت کی ہوتی۔

اسی حوالے سے ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ دنیا میں کوئی انقلاب اُس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر پایا جب تک کہ گلی محلہ اور گائوں کی سطح پر پارٹی کیڈر کو منطم نہیں کر لیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مرکز سے آنے والا کوئی بھی حکم آناً فاناً ملک کے ہر شخص تک اپنے بالکل درست تناظر ، معنی اور مقصد کے ساتھ پہنچ جاتا ہے۔

اگر اس بارے میں کسی کو کوئی ابہام بھی ہو تو اس ابہام کو دور کرنے اور بالکل درست انداز میں عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے لوگ ہر وقت موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ روس کا سوشلسٹ انقلاب اور چیرمین مائو کی قیادت میں عظیم چینی انقلاب نہ صرف اسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوئے بلکہ انقلاب کے طویل مدتی مقاصد کو حاصل کرنے کی جو جدوجہد بعد میں کی گئی اُس کا بنیادی ذریعہ بھی یہی پارٹی کارکن ہی تھے جو ملک کے کونے کونے میں ہر سطح پر سرگرم عمل تھے۔اگر ان ملکوں میں تبدیلی کے لئے محض وہاں پر پہلے سے موجود افسرشاہی پر انحصار کیا جاتا تو کبھی بھی کوئی انقلاب کامیابی سے ہم کنار نہ ہوتا۔

ترکی میں عوامی سطح پر سامنے آنے والے ردعمل کی وجہ یہ تھی کہ صدر اُردوان مقامی حکومتوں کی سیاست سے ترقی کر کے صدر کے عہدے تک پہنچے ہیں۔ اس کے باوجود کہ مخالفین کے ساتھ معاملہ کرنے کا اُن کا انداز کوئی بہت آئیڈیل قسم کا جمہوری نہیں رہا اور سیاسی مخالفین کو دبانے کے الزامات مسلسل ان کا پیچھا کرتے رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے ہمیشہ مقامی حکومتوں کی سطح پر موجود اپنی پارٹی کے ڈھانچے پر انحصار کیا ہے ۔ انہوں نے حکومت کرنے کے لئے درکار اتھارٹی اور قوت ہمیشہ گلی محلہ کی سطح پر موجود پارٹی کیڈر سے کشید کی ہے نہ کہ بڑے شہروں اور مرکزی سطح پر موجود قیادت سے۔ یہ مقامی سطح پر موجود موثر حکومتی سیٹ اَپ کی اثر پذیری کی ایک شاندار مثال ہے۔

ہمارے ملک پاکستان میں مقامی حکومتوں کا نظام ہمیشہ ناہمواری کا شکار رہا ہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ملک میں جمہوری نظام کا تسلسل نہیں رہا۔ اس کی وجوہات پر بحث کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ جہاں جمہوری حکومتوں کو بار بار کام کرنے سے روکا جاتا رہا ہے تو اس کے باوجود مقامی حکومتوں کا ایک موثر نظام اگر موجود ہوتا تو وہ بلا تعطل لوگوں کی خدمت بجا لاتا رہتا۔ ایسی صورت میں جمہوری حکومت چلے جانے کے باوجود جمہور کے روز مرہ معاملات کسی رکاوٹ کے بغیر چلتے رہتے۔

ہمارے ملک میں سیاست دان جمہوری نظام کے لئے مرے جا رہے ہوتے ہیں، جب کوئی حکومت اپنی بُری کارکردگی، اقربا پروری، کرپشن اور بد عنوانی کے باعث فارغ کر دی جاتی ہے تو جس پارٹی کی حکومت ختم کی گئی ہوتی ہے اُس کے لئے آئین کوئی صحیفہ آسمانی اور جمہوریت جُزایمان بن جاتی ہے۔

پھر رات دن سیاست دان جمہوریت کے ''خاتمے'' کا ماتم شروع کر دیتے ہیں حالانکہ جمہوریت خود اُس حکومت کے نام نہاد جمہوری دور میں بھی ناپید ہوتی ہے کیونکہ جمہوری نظام کی اصل روح یعنی مقامی حکومتوں کے نظام کو کسی جمہوری دور میں وہ ترجیح اور مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہو پایا جو اس کا حق ہے۔ مزے کی بات یہ کہ پاکستان میں مقامی حکومتوں کے بہترین سیٹ اَپ فوجی ادوار میں سامنے آتے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہر گز نہ تھی کہ فوجی حکمرانوں کو اس کی غیر معمولی اہمیت کا احساس تھا بلکہ اصل بات یہ ہوتی تھی کہ گھر بھیجے جانے والے سابق حکمرانوں اور کسی حد تک حزب اختلاف کے قابل ذکر رہنماء تو فوجی اقدام کے براہ راست ہدف ہوتے تھے۔ کیونکہ الیکشن پر کروڑوں روپے لگا کر جو مقام حاصل کیا گیا تھا وہ چھن چکا ہے۔

حکومت میں آنے کے بعد جو مالی اور دیگر فوائد حاصل کئے جانے تھے وہ وقت کی تکمیل سے پہلے ہی ہاتھ سے جا چکے ہیں لہذا اس عداوت پر مبنی ٹکراو کے ماحول میں فوجی حکمرانوں کو ایک متبادل جمہوری سیٹ اَپ کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے اقدام کو قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرنے کی سبیل کرے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مارشلاء کے بعد جو پہلا سیاسی کام فوجی حکمرانوں سے سرزد ہوتا آیا ہے وہ مقامی حکومتوں کے نظام کا قیام ہے۔ اس اقدام سے سیاسی اور بین الااقوامی سطحوں پر نہ صرف یہ کہ کسی حد تک صورت حال موافق ہو جاتی ہے بلکہ ملک میں عوامی سطح پر مدد و تعاون بھی میسر آ جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ مقامی حکومتوں کے ذریعے نوازے جانے والے لوگوں کی صورت میں سیاسی مخالفین سے مقابلے کے لئے درکار افرادی قوت بھی فراہم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے ہمیں فوجی ادوار میں غیر جماعتی انتخابات کا رحجان بھی نظر آتا ہے۔

مقامی حکومتوں کا نظام کیوں ضروری ہے؟
عصر حاضر میں ممالک عموماً دو طرح کی انسانی آبادیوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ ایک تو وہ شہر ہیں جو سمندر کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اور آبادی کا اژدہام ایسا ہے کہ کسی کو کسی کا پتہ نہیں۔ لاکھوں کروڑوںلوگوں کی آبادی والے شہروں میں ایسا ممکن ہی نہیں کہ محض سرکاری مشنری کو استعمال میں لاتے ہوئے عوام کے روز مرہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اگر کراچی جیسے شہر کے کسی محلے میں پانی نہیں آ رہا تو اُس ضلع کے انتظامی سربراہ کو اس بات کا علم ہو گا۔ اس بات سے آگاہی ہو گی کہ گلی محلوں میں بنیادی ضروریات فراہم کرنے والے سرکاری ادارے لوگوں کی شکایات کا ازالہ کر رہے ہیں یا نہیں۔

ایسی توقع رکھنا سراسر حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا میں جوں جوں شہر پھیلنے لگے، جیسے جیسے صنعتی ترقی بڑھی، زندگی مشکل اور پیچیدہ ہونے لگی تو سوچ بچار کرنے والوں کو اس مسلئے کا یہی حل سمجھ میں آیا کہ عدم مرکزیت کی طرف جایا جائے۔ جب آپ کی ذمہ داری کا حجم اس قدر ہو جائے کے آپ کی نظر کی حد سے تجاوز کر جائے تو واحد حل یہی ہے کہ ذمہ داری کو چھوٹے حصوں میں بانٹ لیا جائے تاکہ ہر کوئی مرکز کی طرف بھاگنے کے بجائے اپنے گھر پر ضروریات زندگی حاصل کرنے کے قابل ہو۔

دوسرے دیہاتی علاقے ہیں جو بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بدترین محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں تو صورتحال بہت مختلف ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں دیہاتی علاقے اپنی سماجی ترقی کے حوالے سے کمزوری اور بے اختیاری کی کفیت سے دوچار ہوتے ہیں لہذا خواہ مختلف وجوہات کی بنا پر ہی ہو با اختیار مقامی حکومتوں کے موثر نظام کے قیام کے ذریعے پورے ملک کے شہری اور دیہی علاقے ترقی اور بہتری کے مواقعوں سے یکساں طور پر مستفید ہوسکتے ہی۔ اس مسئلے کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ آبادی میں ہوشربا اضافے اور اس دبائو کے زیر اثر وسائل کی قلت اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ وسائل کے زیاں کو روکا جائے اور ان کی منصفانہ تقسیم کا اہتمام ہو۔

اس وقت ملک کی آبادی 21 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس آبادی کے مسائل لامحدود ہیں جن کے حل کے لے سینٹ کے 104 قومی اسمبلی کے 342 سندھ اسمبلی 168 کے پی کے 124اور پنجاب کے 371 اور بلوچستان کے 65 ارکان موجود ہیں۔ یعنی پوری آبادی کی نمائندگی 1174 افراد کر رہے ہیں جن میں اکثریت کا تعلق اُن مالدار گھرانوں سے ہے جن کے کااُن مسائل سے کبھی واسطہ نہیں پڑا، جن کا سامنا پاکستان کے عام لوگوں کو ہرروز کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس تعداد میں چاروں صوبوں کی مقامی حکومتوں کے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ نمائندوں کو بھی شامل کرلیا جائے اور انہیں قومی مسائل کے حل کے لیے مالی انتظامی اور قانونی اختیارات کے اعتبار سے مستحکم کر دیا جائے تو عوام کو زندگیوں کو محفوظ اور خوشحال بنانا ممکن ہوجائے گا۔

مقامی حکومتوں کے قیام میں غیر سنجیدگی کیوں؟
ہماری سیاسی تاریخ کا یہ ایک تلخ سچ ہے کہ مقامی حکومتوں کو ہمیشہ فوجی حکومتوں کے دور میں فروغ حاصل ہوا۔ دوسری جانب جمہوری حکومتوں کو یہ خدشہ لاحق رہا کہ مقامی حکومتوں کے باعث ان کا اثرو رسوخ کم ہوجائے گا۔ ہماری سیاست میں ایکٹیلبز کی سیاست کو جو فروغ حاصل ہوا اُس نے اس خوف کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا۔ ہمارے ہاں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کا یقین ہوجائے تو قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اپنی نشتیں چھوڑ کر مقامی حکومتوں کے عہدوں کے لے میدان میں آنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں فنڈز سب سے بڑی کشش ہے۔

اگر کسی حکومت نے عوامی نمائندوں کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں میں مالیاتی اختیارات کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنے کا سوچا تو وہیں جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔ عوامی نمائندوں کا اصرار ہوتا ہے کہ مالیاتی اختیار ان کے پاس رہے۔ اگر مالیتی اختیارات مقامی حکومتوں کے پاس چلے جائیں تو شاید قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار کم پڑ جائیں۔

مقامی حکومتوں کے قیام کی مخالفت کرنے والوں میںہماری افسر شاہی بھی شامل ہے۔ ان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ انہیں مقامی حکومتوں کی ماتحتی گوارہ نہیں۔ ہماری بیورکریسی کے اس رویئے کی جڑیں برصغیر پر برطانوی راج میں تلاش کی جا سکتی ہیں جب انگریز حاکموں نے مقامی نمائندوں اور دیہات میں پنچائیت کے قدیم ڈھانچے کو مسمار کرکے انتظامی اختیارات کمشنر اور اس کے ماتحت عملے کے سپرد کردیے ۔قیام پاکستان کے بعد بھی انتظام ریاست میں یہی نقطہ نظر غالب رہا۔

دہشت گردی کی جنگ اور مقامی حکومتیں
پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے شاید دنیا میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں لیکن ذرا تصور کریں کہ اگر ملک میں ایک بااختیار اور موثر مقامی حکومتوں کا نظام مسلسل ارتقائی منازل طے کررہا ہوتا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت کم نقصان کی ساتھ بہت پہلے جیتی جاچکی ہوتی۔

مقامی حکومتوں کے موثر نظام میں مقامی عوامی نمائندوں کو سب سے نچلی سطح پر اپنے علاقے کے ہر گھر کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔ تھوڑی سے بنیادی تربیت کے ساتھ انہیں اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی اجنبی کسی جگہ پائوں جمانے سے پہلے ہی نظروں میں آجائے۔ جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مدد سے نیچے سے لے کر اوپر تک پورے ملک کے طول و عرض میں اطلاعات کا نظام مربوط کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی ناپسندیدہ سرگرمی کی موثر نگرانی ممکن ہے لیکن حکومتوں کی غیر سنجیدگی کے باعث ہم نے تربیت کا یہ موقع بھی ضائع کیا۔

کورونا اور مقامی حکومتیں
چین میں کورونا سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی اختیار کی گئی وہ دنیا بھر کے لئے مثال ہے لیکن اس کو روبہ عمل لانا اس لئے ممکن ہوا کیونکہ چین میں شہروں کی گلیوں اور دیہات میں ہرگھر تک کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کی رسائی ہے لہٰذا جو پالیسی مرکز نے بنائی وہ اسی وقت پورے ملک میں روبہ عمل ہوگئی۔ مقامی حکومتوں کے موثر نظام کے ساتھ کورونا سے نمٹنے میں غیر معمولی آسانیاں پیدا ہوجاتیں۔مقامی حکومتوں کی موجودگی میں وباء سے بچائوکی تدابیر موثر عملدرآمد ممکن ہو جاتا۔
٭ مشکوک مریضوں کی نشاندہی آسان ہوتی۔
٭ اس بات کا فوری فیصلہ ممکن ہوتا کہ آیا مریض کو گھر پر قرنطینہ کرنا ممکن ہے یا نہیں۔
٭ اس بات کو یقینی بنانا ممکن ہوجاتا کہ لوگوں کو بیماری سے بچنے کے لئے ضروری ہدایات بروقت ملیں اور ان پر عملدرآمد کی نگرانی کی جاسکے۔
٭ یہ معلوم ہہوتا کہ کس کونسلر کے علاقے سے کتنے مریض کن ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں اور ان کی دیکھ بھال میں مزید کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ اگر کسی گھر کا کفیل بیماری کی وجہ سے کام کے قابل نہیں رہا تو اس کے خاندان کی ضروریات کس طرح پوری ہوں گی۔
٭ حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی مالی معاونت کو مقامی حکومتوں کے حلقوں کی بنیاد پر تقسیم کرکے ہر قسم کی غلطی اور خامی کا قبل از وقت تدارک ہوجاتا۔
٭ مقامی طبی مراکز اور ہسپتالوں میں درکار مدد اور تعاون کو مربوط بنانے کا کام زیادہ موثر ہوجاتا۔
٭ وباء کے دوران سکولوں کی بندش کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کو مربوط بنانے میں مدد اور تعاون میسر ہوتا ہے۔
٭ بے وسیلہ لوگوں کو راشن اور دیگر ضروریات زندگی کی بلاتعطل فراہمی
٭ اس بات کو یقینی بنانا کہ ایک مخصوص علاقے میں بیماری سے بچائو کے لئے مقررہ ایس او پیز کی پاسداری درست ادنداز میں ہورہی ہے۔

پنجاب نے مقامی حکومتوں کا بہترین قانون متعارف کرایا ہے
نئے نظام کے تحت وہی لوگ اوپر آئیں گے جنہیں غالب اکثریت کا اعتماد حاصل ہوگا: جاوید ملک



جاوید ملک بین الاقوامی ترقی کے ایک ماہر پالیسی ساز ہیں۔ صوبہ پنجاب کے تعلیمی اصلاحات کے پروگرام کا 2009ء سے 2018 ء تک حصہ رہے، وزیر اعلیٰ کے پنجاب ایجوکیشن سیکٹر ریفارم کے مشیر تھے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ڈی ایف آئی ڈی کے لیے پنجاب کے 54000 اسکولوں کے 450 ملین پائونڈکے اصلاحاتی پروگرام کے ڈیزائن اور عملدرآمد کی قیادت کا نو سال تک فریضہ سر انجام دیا جو کہ اس وقت دنیا میں ڈی ایف آئی ڈی کا سب سے بڑا پروگرام تھا۔

اقوام متحدہ سمیت پندرہ سے زائد اداروں کے ساتھ بین الاقوامی معیار کی پالیسی اور پروگرامز سے متعلقہ جائزہ رپورٹس تصنیف کر چکے ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی آف ہاتھ انگلینڈ کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریسرچ میں ڈاکٹریٹ فیلو ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں جمہوری اداروں کی اصلاحات کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے ڈیمو کریسی رپورٹنگ انٹر نیشنل پاکستان کے سربراہ ہیں جہان ان کا کام پارلیمانی اداروں کے ساتھ ملکر ملکی قوانین اور پالیسی سازی کو بہتر بنانا ہے۔

جاوید ملک نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ایکسپریس کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے بڑا زبردست قانون منظور کیا ہے۔ یہ دو قوانین کا مجموعہ ہے جو پنجاب میں بلدیاتی نظام کو وضح کرتے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے ستر سالوں میں صرف جنرل مشرف کی حکومت تھی جس کا 2001ء کا قانون بہت موثر تھا۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ پہلا قانون ہے جو بڑی دور اندیشی سے بنایا گیا ہے۔ اس کی چار پانچ بڑی نمایاں چیزیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کے اندر جو انتخابات ہیں اس میں میئر کا انتخاب یا تحصیل کے سربراہ کا انتخاب براہ راست ووٹ کے ذریعے ہوگا۔

مثلاً لاہور کا ناظم ایک عام آدمی کے ووٹ سے منتخب ہوگا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے ہاتھ میں کس قدر اختیارات ہوں گے، اس قانون کے تحت نو دس تو بڑی شہری حکومتیں بنیں گی گوجرانوالہ، لاہور، راولپنڈی، ملتان اور دیگر ڈویژنوں میں بڑی بڑی حکومتیں بنیں گی۔ جن کے پاس تقریباً اتنے ہی اختیارات ہوں گے جتنے وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتے ہیں یعنی اس کے پاس انتظامی اور مالی طور پر مکمل اختیارات ہوں گے جو کہ انقلابی تبدیلی ہے۔ وہ اپنے وسائل بھی خود پیدا کرسکے گا اور اس پر خرچ بھی کرسکے گا۔ تقریباً ہمارے ہاں اس وقت تین ہزار یونین کونسلز ہیں پنجاب میں، اس قانون کے تحت ان تیس ہزار یونین کونسلز کو توڑ کر بائیس ہزار حکومتیں بنیں گی گائوں کی سطح پر کیونکہ یونین کونسلز کا تجربہ جو ہے وہ بھی ناکام ثابت ہوا تھا یونین کونسل پندرہ بیس گائوں کا مجموعہ ہوتا ہے اس کے اندر کسی کی اونر شپ نہیں ہوتی۔

اس قانون میں ایک خاص بات یہ ہے کہ پروفیشنل لوگ بھی انتظامیہ میں آسکیں گے یعنی اگر لاہور کا میئر چاہے کہ اُس کا واٹر منسٹر کوئی بڑا واٹر ایکسپرٹ ہو یا ایجوکیشن منسٹر ماہر تعلیم ہو تو وہ غیر منتخب لوگوں میں سے بھی پروفیشنلز کو اپنی کیبنٹ میں رکھ سکے گا۔ اس کے علاوہ جو ڈلیوری میکنزم ہے اس میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں مثال کے طور پر کوئی بھی مقامی حکومت ہے چاہے وہ تحصیل کی سطح پر ہے میونسپل کی سطح پر ہے وہ مقامی سطح پر کسی بھی ایم او یو میں جاسکتی ہے، کسی پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ، کسی این جی او کے ساتھ انوسٹمنٹ لاسکتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو اسے آزاد کردے گی۔

سیکرٹریوں سے جو آپ کو این او سی لینے پڑتے ہیں یا جو Approval کا پیچیدہ طریقہ کار ہے وہ حائل نہیں ہوگا۔ ایک اور بات بڑی اہم ہے جو انفورسمنٹ کا مسئلہ ہے لوکل لیول پر اس کو حل کرنے کے لیے اس قانون میں مقامی سطح پر انسپکٹرز ہیں جو مقامی ناظم بھرتی کرکے رکھ سکیں گے اور انسپکٹر انفورسمنٹ کے لیے باقاعدہ لوگوں پر جرمانے عائد کرسکیں گے۔ یعنی اگر ایک جگہ پر گندگی کا ڈھیر پڑا ہے اور کوئی اٹھا ہی نہیں رہا تو وہاں آپ کا ناظم جو انسپکٹر بھی ہے وہاں کے ذمہ دارآن کو ایک دو دفعہ تنبیہ کرے گااور اگر تیسری دفعہ بھی ٹھیک نہ ہوا تو جرمانہ کرسکے گا اس کی پوری سزائوں کا نظام انہوں نے اپنی Anexures میں دیا ہوا ہے۔

دنیا بھر میں ایک بات صدیوں سے کہی جاری ہے کہ "All Politics is local" یہاں بھی یہ مسئلہ رہے گا کہ اگر میرے مخالفین جیت جاتے ہیں تو وہ میری گلیاں نہیں بنائیں گے لیکن اس میں جو مقامی سطح پر الیکشن کا نظام ہے وہی بڑا درست ہے کہ اس میں کونسلر آپس میں مقابلہ نہیں کررہے ہوں گے بلکہ متناسب نمائندگی کا نظام دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہی جگہ سات سیٹیں ہیں اگر کسی وارڈ میں یا کسی گائوں میں تو وہ سات سیٹیں جو ہیں وہ سارے لوگ ووٹ دیں گے جو سب سے زیادہ ووٹ لے گا وہ چیئرمین بن جائے گا جو باقی لوگ ہیں وہ ممبر بن جائیں گے اور ضروری نہیں کہ میرا مقابلہ آپ سے ہوگا تو آپ جیت گئے ہیں بلکہ ہم دونوں بھی جیت سکتے ہیں۔ اس میں by default انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ ایسے لوگ منتخب ہوکر آئیں جو زیادہ تر لوگوں کا اعتماد رکھتے ہوں، جب ایک کمیونٹی میں 60، 70 فیصد لوگوں کا اعتماد وہ رکھتے ہیں تو وہ پھر ایک طرف نہیں جاسکیں گے۔

ہمارے یہاں اس وقت جو پاپولیشن پروفائل (آبادی کے اعداد و شمار) ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً ہماری پچاس فیصد آبادی 1998ء کے بعد پیدا ہوئی اور ہماری آبادی کا 65 فیصد جو ہے وہ 35 سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان ایک جوان ملک ہے تو اس میں بھی یوتھ کونسلر، خواتین کونسلر کی گنجائش ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوگا ابھی مزید مقامی طبقات، مقامی سطح پر محروم طبقات کی اور بھی زیادہ فکر کرنا ہوگی۔

اس کو ہم قانون کی زبان میں affermative action کہتے ہیں جو پاکستان نے ویسے بھی انسانی حقوق کا چارٹر سائن کیا ہے ہم نے اس میں لکھا ہے، ہمارے Constitution میں بھی ہے بلکہ 1973 کے قانون کے پری ایمبل میں بھی ہے کہ ہم سب سے پہلے کمزور طبقات کا دفاع کریں گے ہمیں چاہیے کہ ہم اسی آئینی روح کو نیچے تک لے کر آئیں خاص طور پر ہمارے ہاں جو تعصبات مقامی سطح پر ہیں وہ ختم ہوں یہ ایک جدوجہد ہے فوری طور پر صرف قانون کے نفاذ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اس میں مسلسل دانشور اور میڈیا کے حضرات، ہم سب کو اس میں حصہ ڈالنا پڑ گا۔

حالیہ کورونا کی جو وباء آئی ہے اُس حوالے سے بات کریں تو پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں یا چھٹا ملک ہے۔جب اتنا بڑا ملک ہوتا ہے تو اس ملک میں حکومت اگر سرکاری افسران پر ذمہ داری ڈال دے تو سرکاری عملہ بہت کم تعداد میں ہوتا ہے اور اُن میں سے بھی بہت سے چھٹی پر ہوتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت چوبیس گھنٹے آپ کے درمیان رہتی ہے ان کی کوئی چھٹی نہیں ہوتی نہ Weekend ، نہ تین بجے کے بعد۔ آپ کے وارڈ کا جو نمائندہ ہے، آپ کے گائوں کا جو چیئرمین ہے جو وائس چیئرمین ہے وہ چوبیس گھنٹے آپ کی دسترس میں ہوتا ہے۔ دوسرا اس میں یہ ہے کہ جو مقامی سٹاف ہے وہ بھی ان کا تابع ہوتا ہے۔

اس قانون میں ان کو وسائل بھی دیئے گئے ہیں۔ اس قانون میں ان کو یہ گنجائش بھی دی گئی ہے کہ وہ مقامی سطح پر کسی این جی او کے ساتھ مل کر بھی ایک کمپین کرسکتے ہیں وہ اپنی کمیونٹی کے لوگ جو باہر رہتے ہیں ان سے فنڈریز کرسکتے ہیں یعنی جو کمیونٹی نیٹ ورکس ہماریے ہاں already ہیں ان کو مزید متحرک کرسکتے ہیں۔ وہ مقامی سطح پر جو سماجی ادارے ہیں، مساجد ہیں یا اس سے related جو اور انجمنیں ہیں، ایسوسی ایشنز ہیں، انجمن تاجران ہیں یہ سب لوگوں کو موبلائز کرسکیں گے۔

ایسا ہوگا کہ آپ کی اگر سو حکومتیں ہیں تو ہوسکتا ہے کہ پچاس کی کارکردگی باقی پچاس کی کارکردگی سے اچھی ہو لیکن آپ اس وقت دیکھیں کہ کم از کم پچاس کی کارکردگی تو بہتر ہوگی نا۔ ابھی اگر آپ دیکھیں کرونا کی وباء کے دوران نیو یارک کے میئر کی ہر روز پریس کانفرنس ہوتی ہے اور وہ لائیو سٹریمنگ چلارہا ہوتا ہے یعنی جو نیویارک کا گورنر ہے بعض اوقات اس کی پریس کانفرنس امریکہ کے صدر کی تقریر سے زیادہ سنی جارہی ہوتی ہے۔

کورنا کے حوالے سے پبلک ہیلتھ کا پہلو تھا، کاروباری حضرات کی حفاظت کا پہلو تھا اس میں آپ کے سکولوں کے بند ہونے اور کھولنے کا پہلو جو ہے اس کے اندر اس طرح کی چیزیں بھی ہیں کہ آیا مقامی ہسپتال میں آکسیجن تو نہیں ختم ہوگئی تو جب آپ مقامی سطح پر اختیار دیتے ہیں تو آپس کے نیٹ ورکس کو بھی استعمال کرتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ اپنے ذاتی وسائل سے آکسییجن خرید کر ہسپتال میں رکھ دیں۔ ان کو پروکیور منٹ کے لمبے چوڑے چکر میں نہیں پڑنا پڑتا کہ سیکرٹری ہیلتھ سے ملیں یا وزیر اعلیٰ ہی اس کا نوٹس لے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔