مورخ ِ پاکستان احمد سعید مرحوم
پاکستان کے ایک سچے محقق اور دانشور کی بے بسی، بے چارگی اور ناقدری کی یہ ایک دردناک داستان ہے۔
یہ اُن کے سفر آخرت پر روانہ ہونے سے چند روز پہلے کی بات ہے۔ موسم کچھ زیادہ ہی سرد تھا۔ میں دفتر سے واپس آ رہا تھاکہ فون کی گھنٹی بجی۔ ڈرائیونگ میں چونکہ بہت مشاق واقع نہیں ہوا، لہٰذا دوران سفر میں فون کان سے لگانے کی ہمت نہیں ہوتی۔
صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کس کا فون ہے، میں نے بائیں طرف دیکھا۔ سیٹ پر پڑے سیل فون کی اسکرین پر احمد سعید صاحب کا نام آ رہا تھا۔ چنانچہ گاڑی ان کے گھرکی طرف موڑ دی۔ بمشکل چند منٹ گزرے ہوں گے کہ میں ان کی خدمت میں حاضر تھا۔ '' سر ! آپ نے کال کی تھی؟'' میں نے کہا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری،''بس ایسے ہی ملنے کا جی چاہ رہا تھا۔''
لاہور جوہر ٹاون جی 4 میں یہ ساڑھے تین مرلے کا گھر ہو گا۔مکان کو دیکھتے ہی پہلی نظر اس کی بیرونی تختی پرکندہ کلمات شُکرانہ ''عطاے ربی'' پر پڑتی تھی۔ مختصر سا ڈرائنگ روم، جس کی سامنے والی دیوار پر اوپر سے نیچے تک الماری کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہی حال بیڈوم کا تھا، جس میں اس وقت وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ فرش پر، میز پر،کرسی پر، حتیٰ کہ بستر کے تین چوتھائی حصہ پر بھی نئی پرانی کتابوں، ہاتھ سے لکھے ہوئے مسودوںاور ان کے کمپوزڈ پروف کا قبضہ تھا۔ بستر کا بمشکل ایک چوتھائی حصہ باقی بچا تھا، جس میں وہ سمٹ سمٹا کے سوتے بھی تھے، آرام بھی کرتے تھے اور کام بھی کرتے تھے۔
پروفیسر احمد سعید ویسے تو طبعاً خوش رہنے والے آدمی تھے لیکن آج اُس روز، اس ساعت اور اس لمحہ کو یاد کرتا ہوں تو ان کا وہ مضطرب چہرہ میرے سامنے آجاتا ہے، جو میں نے اس سے قبل نہیں دیکھا تھا۔ وہ کچھ نڈھال نڈھال سے لگ رہے تھے۔ سردی سے بچنے کے لیے گرم مفلرکو انھوںنے اپنی گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ انھی کی زبانی معلوم ہوا کہ طبعیت کی خرابی کی وجہ سے چند روز اسپتال بھی رہ چکے ہیں۔ یہ بات مگر ان کے لیے طمانیت کا باعث تھی کہ لاہور پر ان کی تحقیق بہت جلد شایع ہو رہی تھی۔
تاہم اس روز جو انھوں نے باتیں کیں، وہ زیادہ تر ان کے اپنے بھولے بسرے دنوں اورکچھ اپنے دوستوں کے کے عزیز ، خالد ھمایوں اور سلیم منصور خالد کے بارے میں تھی۔ وہ باتیں کرتے جا رہے تھے مگر مجھے لگا، جیسے نقاہت کی وجہ سے ان کو کافی دقت پیش آ رہی ہے۔ میں نے ان سے کہا، 'سر آپ آرام کریں' اور اچازت چاہی۔ ان کو چلنا کچھ مشکل ہو رہا تھا، اس کے باوجودحسب عادت میرے ساتھ ہی باہر آئے اور پرجوش طریقے سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہنے لگے ''رابطہ رہنا چاہیے''۔ کیا معلوم تھا کہ ان کے ساتھ یہ آخری ملاقات ہے۔
پروفیسر احمد سعید سے میرا تعارف ایکسپریس چنیل سے وابستگی کے دنوں میں ہو ا۔ میں قائد اعظم ؒ پر ہونے والے تحقیقی کام پر ڈاکومنٹری تیار کر رہا تھا ۔ پروفیسر خالدہمایوں کی زبانی معلوم ہوا کہ احمد سعید صاحب اس موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے نہ صرف میری راہ نمائی کی، بلکہ اس موضوع پر انتہائی معلومات افزا انٹرویو بھی ریکارڈ کرا دیا۔ اس کے بعد اسی نوعیت کی دوسری ڈاکومنٹری کے لیے بھی انھوں نے اپنے مشاہدات و تجربات ایکسپریس کے ناظرین کے ساتھ شیئر کیے۔ ان ملاقاتوںکے بعد ان سے نیازمندی کا مستقل تعلق استوار ہو گیا اور یہ تعلق پھر ان کے آخری وقت تک برقرار رہا۔
اُن کی زندگی کی کہانی، جو خود انھی کی زبانی میں نے سنی، مختصراً کچھ یوں ہے کہ وہ1942میں جالندھر ( مشرقی پنجاب بھارت ) میں پیدا ہوئے۔ 1947میں ان کا خاندان لاہور پہنچا۔ یہاں چشتیاں ہائی اسکول سے میٹرک، گورنمنٹ کالج سے بی اے، پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ اور سیاسیات میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیںاور1965کے لگ بھگ تاریخ کے استادکی حیثیت سے اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ جالندھر سے لاہور ہجرت کا سفر کے بارے میں یہ تاثر ان کے حافظہ سے کبھی محو نہیں ہوا کہ یہ ان کی زندگی کا ہولناک ترین سفر تھا۔ جالندھر میں اپنے محلہ اور مکان کی دھندلی سی تصویر بھی ان کی یادداشت کے کسی گوشہ میں محفوظ تھی۔
پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد انھیں بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں اپنے محلہ اور مکان کو دیکھنے بھی گئے، مگریہ انتہائی تکلیف دہ تجربہ تھا۔ وہ لوگ پاکستان بہت نفرت کرتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب ان پر پہلی بار قائداعظم ؒ کی حقیقی عظمت منکشف ہوئی کہ کیسے انھوں نے بروقت بھانپ لیاکہ اگر انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان پر ہندووں کی مکمل بالادستی قائم ہو گئی تو مسلمانوں کی زندگی بہت مشکل ہو جائے گی، اور یہی وہ لمحہ تھا،جب اس نوجوان استاد نے آیندہ سے اپنی تمام ترعلمی و فکری توانائیوں کو قائداعظم اور تاریخ پاکستان پر تحقیق کے لیے وقف کر دینے کا فیصلہ کیا۔
پروفیسر احمد سعید1967 سے 1988 تک ایم اے کالج اور 1988 سے1993 تک اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں شعبہء تاریخ کی سربراہ رہے۔ 1972 میں 'مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک پاکستان' کے عنوان سے ان کی پہلی تحقیق منظر عام پر آئی؛ لیکن بطور محقق ان کی شہرت کا آغاز ان کی دوسری تحقیق 'حصول پاکستان' سے ہوا، جس کا انگریزی ترجمہTrek to Pakistan کے نام سے شایع ہو چکا ہے اور اس موضوع پر مستند ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔1975 میں ان کی تحقیق'گفتار قائد اعظمؒ'کو بھی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔
قائداعظم ؒ کی تحریروں، تقریروں اور خطوط کے علاوہ انگریزی، ہندو اور مسلم اخبارات میں ان پر شایع ہونے والے مواد پر بھی ان کا تحقیقی کام بہت وقیع ہے۔ اس موضوع سے ان کو اتنی دل چسپی تھی کہ دوران ِ تحریک قائداعظم ؒ جن جن شخصیات سے ملتے رہے، پروفیسر احمد سعید نے اس کی تفصیل بھی منضبط کردی۔
ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے تحریک پاکستان کے ترجمان 'روزنامہ زمیندار' پر اپنے تحقیقی کام آغاز کیا۔ اس کام کا کچھ حصہ ابھی باقی تھا کہ اشاعتی ادارہ اندرونی اختلافات کا شکار ہو گیا اور یہ تحقیقی کام رک گیا۔ وہ کہا کرتے، وہ اس کام سے سرخرو ہو کر دنیا سے جانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ہر دروازہ کھکھٹکایا، متعلقہ عہدیداروں کی منت سماجت کی، ان کو یاد دہانی کے خطوط لکھے، سماجی رابطے کے جدید ذرایع کا سہارا لیا، مگرکوئی شنوائی نہ ہوئی۔ یہ ایسی تکلیف دہ صورت حال تھی کہ اس عرصہ میں جو لوگ ان سے ملتے رہے ہیں، وہی ان کے کرب کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے ان کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھنا دشوار ہو جاتا۔
پاکستان کے ایک سچے محقق اور دانشور کی بے بسی، بے چارگی اور ناقدری کی یہ ایک دردناک داستان ہے تاہم یہ ملال ضرور رہے گا کہ پروفیسر احمد سعید صاحب کی اپنے آخری تحقیقی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی اور وہ یہ حسرت دل ہی میں لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے، اناللہ و اناالیہ راجعون