پاکستان کا قومی مسئلہ ایک پلیٹ سالن دو روٹی

ایک پلیٹ سالن اور دو روٹی کےلیے بھی عوام کو اپنے ہاتھوں کو زخمی اور گریبان کو چاک کرنا پڑے گا


یہ سالن روٹی والے مذاق کم از کم اس غیرت مند قوم کے ساتھ نہ کیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: وزیراعظم نے ملک میں غریبوں کا احساس کرتے ہوئے موبائل روٹی گھر کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اب وطن عزیز میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب ملک میں مہنگائی نے اپنے شکنجے مضبوطی سے گاڑ لیے ہیں۔ اسی مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے موبائل روٹی کا بندوبست کرکے اپنی جان بخشی کروالی ہے۔

لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ کم سے کم ہماری نظر میں تو بالکل بھی نہیں۔ کیوں کہ یہ قوم کو بھکاری بنانے والی بات ہے۔ جب آصف علی زرداری صدر مملکت کے عہدے پر فائز تھے تو انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ جس پر اپوزیشن نے یہ کہا کہ یہ قوم کو بھکاری بنانے والی مہم ہے۔ لیکن یہ پروگرام اتنا مشہور ہوا کہ بڑے بڑے نامور لوگوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اس معمولی سی رقم کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ ماہانہ بھاری تنخواہیں وصول کرنے کے بعد غریب کے تین ہزار ماہانہ پر بھی ہاتھ صاف کرنے سے باز نہیں آئے۔

اب یہی کام تبدیلی سرکار کررہی ہے۔ جس سے غریب کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ اس موبائل کا افتتاح اس شہر سے کیا گیا جہاں غریبوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب کہ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے، جس میں سے کراچی کی اپنی آبادی تقریبا سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے، جب کہ باقی دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو کراچی کمانے کی غرض سے آئے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے موبائل روٹی کا افتتاح کرتے ہوئے تاریخی الفاظ ادا کیے اور کہا کہ اب ملک میں کوئی غریب بھوکا نہیں سوئے گا۔ یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جنہیں سننے کےلیے کان ترس گئے تھے۔ جس طرح ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر اور کشکول توڑنے کی وہ تاریخی باتیں جنہیں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا، آج بھی ہم نہیں بھولے۔ دو وقت کے کھانے پر آنے والی لاگت اگر کسی کارخانے پر لگائی جاتی تو اس سے کم از کم ایک ہزار خاندانوں کو جہاں ایک طرف نوکریاں مل جاتیں، وہیں ایک ہزار خاندان بہتر زندگی کی شروعات کرسکتے تھے۔ اس کارخانے میں کام کرنے کےلیے تعلیم کی کوئی قید نہ رکھی جاتی، صرف ہنرمند اور ضرورت مند افراد کو نوکریاں فراہم کرکے ایک بہتر مستقبل کی طرف پہلا قدم بڑھایا جاسکتا تھا۔ مگر ہمارے وزیراعظم کو محض علی بابا چالیس چوروں والی کہانی یاد ہے۔

یہ روٹی موبائل کہاں کہاں جائے گی اور کون کون اس سے استفادہ حاصل کرے گا اور یہاں کتنی کرپشن کی جائے گی؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اگر وزیراعظم غریبوں سے اتنے ہی مخلص ہیں تو پھر تمام پرانی اسکیموں کا نئے سرے سے آغاز کریں جس سے غریب آدمی استفادہ حاصل کرسکے۔ نوجوان قرض لون جس طرح آیا اسی طرح فلاپ ہوگیا۔ کسی کو قرض ملا یا نہیں مگر نوجوان اس اسکیم کے چکرمیں ہمیشہ کی طرح خوار ضرور ہوئے۔ نوجوان اسکیم کو آسان بناکر جہاں نوجوانوں کو کاروبار کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے وہیں ملکی معیشت بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔ چلیں آپ کی مرغیوں اور کٹوں کے کاروبار کو ہی پروان چڑھانے کی اگر بات کی جائے تو کم از کم اس سلسلے میں تربیتی مرکز قائم کیے جاتے، جہاں دو ماہ کی تربیت کے بعد کامیاب نوجوانوں کو بغیر کسی شرائط کے لون فراہم کردیا جاتا تاکہ وہ اس سے اپنے کاروبار کا آغاز کرکے ایک کامیاب نوجوان بنتا۔ مگر ہم نے وہ کام کیے جس سے چاند بھی شرما جائے۔ ہمیں بھکاری بنانے کےلیے ہر چار چھ ماہ بعد ایک اسکیم لائی جاتی ہے اور دو ماہ چلنے کے بعد اس اسکیم کا کہیں ذکر تک نہیں ملتا۔ لیکن وہ اسکیم کاغذوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے جس سے کرپشن پروان چڑھتی رہتی ہے۔

غریب کو فائدہ دینا ہے تو بیواؤں کو سلائی مشین کے ساتھ ساتھ انہیں تھوڑی بہت رقم بھی کاروباری شرائط کے ساتھ دی جائے تاکہ وہ صرف سلائی مشین اپنے سر پر نہ مارے بلکہ اس مشین سے کپڑے خرید کر اسے فروخت بھی کرسکے۔ اسکیم شروع کرنی ہے تو کچی آبادیوں میں چلے جائیے، جہاں لوگوں کے پاس روزگار نہیں، انہیں دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔ انہیں بجلی کے بلوں نے مار دیا ہے۔ کرائے کے مکانوں میں رہنے والے یہ غریب ماہانہ صرف 10 سے 15 ہزار کماتے ہیں۔ ان کےلیے کوئی ایسی اسکیم لائی جائے جس سے وہ بغیر کسی کی محتاجی کے روزگار حاصل کرسکیں۔ انہیں بینکوں کے چکروں میں نہ اٹکایا جائے بلکہ انہیں شناختی کارڈ پر ہی قرضہ فراہم کیا جائے۔ اگر وزیراعظم پچاس ہزار روپے قرضہ ہر پاکستانی کو نہیں دے سکتے تو کم از کم 30ہزار قرض کی رقم دے دیں اور شناختی کارڈ کو ہی ان کی شناخت رکھ لیں۔ آسان اقساط میں قرض دیا جائے جو بغیر کسی سود کے ہو، تاکہ وہ لوگ اس اسکیم سے اپنا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرسکیں۔

لیکن یہ تمام باتیں فضول ہیں۔ کیوں کہ یہ قرض اور یہ روٹی بھی اشرافیہ کی جیب میں جائے گی۔ اس سے نہ کسی غریب کو فائدہ ہونا ہے اور نہ آگے کبھی ہوگا۔ عوام بھوکے مرتے رہیں گے۔ جس طرح ہیلتھ کارڈ کا شوشا چھوڑ کر عوام کو اسپتالوں میں ذلیل کیا گیا، اسی طرح ایک پلیٹ سالن اور دو روٹی کےلیے بھی عوام کو اپنے ہاتھوں کو زخمی اور گریبان کو چاک کرنا پڑے گا، تب کہیں جاکر انہیں ایک وقت کا کھانا میسر ہوگا۔

اگر آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو سرکاری اسکولوں کی حالت پر توجہ دیجئے اور انہیں ماڈل اسکول کا درجہ دے کر اس پر کام کیجئے، تاکہ آنے والی نسل کو کم از کم آپ کی دو روٹی اور ایک پلیٹ سالن کے چکر میں خوار نہ ہونا پڑے اور وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرسکیں۔

آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو ہر یوسی میں بند ڈسپنسریوں کو پھر سے کھلوائیے، تاکہ لوگوں کو صحت کی چھوٹی موٹی سہولت آرام سے میسر ہو۔

آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم ہر یوسی سطح پر گراؤنڈز، جن پر قبضے ہوچکے ہیں، انہیں آباد کرنے کےلیے اپنی ٹائیگر فورس کو لگائیں تاکہ معاشرہ صحت مندی کی جانب بھی راغب ہو۔

آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو صرف یوٹیلٹی اسٹورز پر سبسڈی نہ دیں بلکہ کوئی ایسا نظام لائیں جس سے ہر کریانہ اسٹور پر عوام کو مقررہ نرخ پر اشیا دستیاب ہو۔

آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو ہر یوسی میں ایک کمپلین سینٹر قائم کیجئے تاکہ آپ تک لوگوں کی شکایات پہنچ سکیں اور وہ آپ کو اپنی مشکلات سے آگاہ کرسکیں۔

آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنے سرکاری ملازمین پر نظر رکھنے کا بندوبست کیجئے، جنہیں کرپشن اور حرام کی عادت پڑچکی ہے۔ آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس پورا ملک ہے، آپ اس کی بہتری کی طرف توجہ دیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس ملک کا مسئلہ صرف زرداری اور نوازشریف نہیں بلکہ اور بھی عوامل ہیں، جن سے عوام اب تنگ آچکے ہیں۔

آپ کو کام کرنے کا بہت ہی شوق ہے تو پھر آپ عدالتی نظام میں جدت لے کر آئیے، تاکہ سائل کو انصاف کےلیے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ لیکن شرط صرف اتنی ہے کہ آپ کام کرنے والے بنیں تو سہی۔ ورنہ یہ سالن روٹی والی مسخریاں کم از کم اس غیرت مند قوم کے ساتھ نہ کیجئے۔ ان کےلیے پہلے سے سیلانی، چھیپا اور دیگر ادارے موجود ہیں جو دو وقت کی روٹی فراہم کررہے ہیں۔ آپ بلاوجہ اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ نہ ڈالیں۔

وزیراعظم صاحب آپ کی نیت پر شک نہیں، مگر خدارا اس ملک میں اور بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔ صرف کہنے سے یہ ملک مدینہ کی ریاست نہیں بن جائے گا، اس کےلیے آپ کو زرداری، نوازشریف، سینیٹ، الیکشن کمیشن اور ضمنی انتخابات سے باہر نکلنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ پہلے کون سا کام کیا جائے جس سے وہ نوجوان جو پڑھے لکھے ہیں اور جو پڑھے لکھے نہیں، انہیں کس طرح اوپر لایا جائے۔ امید ہے وزیراعظم اس پر ضرور توجہ دیں گے۔ ورنہ باقی ڈھائی سال گزرنے کے بعد آپ یقیناً اپوزیشن میں ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔