جہان سائنس میں جدید پیش رفت

نظریہ اضافت جسے آئن اسٹائن نے ہر زاویے سے مکمل کر لیا تھا اب تک کئی تصدیقی تجربات کی کسوٹی پر پرکھا جا چکا ہے


[email protected]

روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور کائنات میں روشنی سے زیادہ کسی چیز کی رفتار نہیں لیکن ڈنمارک کے ایک ماہر طبیعات ڈاکٹر لینی وسٹر گارڈ نے اپنے ساتھی سائنس دان شیندر ناتھ بوس کے ہمراہ دعویٰ کیا کہ سورج کی روشنی کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جہان سائنس کی اہم ترین شاخ طبیعات کے شعبے کی تازہ ترین خبر یہی ہے کہ ڈاکٹر لینی وسٹر گارڈ اپنے ساتھی سائنس دان شیندر ناتھ بوس کے ہمراہ ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن کی تھیوری CONDENSATION کی مدد سے سورج کی روشنی کی رفتار کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس جدید تھیوری کا نام شیندر ناتھ بوس اور آئن اسٹائن کے نام پر رکھا ہے۔ شیندر ناتھ بوس کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ تحقیق کی غرض سے آج کل ڈنمارک میں ہی مقیم ہیں، ان دونوں سائنس دانوں نے ایک خاص طبیعاتی پروسس کے ذریعے روشنی کی رفتار 71 کلو میٹر فی گھنٹہ کر دی ہے۔ ہم حالیہ نہیں بلکہ قدیم کائنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے حال سے ناواقف ہیں۔ اس طرح مادہ اور توانائی دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی شے کے دو مختلف روپ ہیں اور مادہ ہی اس کائنات کی اصل نہیں بلکہ اسے خود خالق کائنات نے پیدا کیا ہے اور آج سائنس دان بھی مادے کو ریڈیائی شعاع (ریڈیشن) ذریعے پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں ۔

اگر آپ 1890کے عشرے میں ٹسکینی کے دل آویز مضافاتی علاقے میں چہل قدمی کر سکتے تو آپ کی ملاقات ایک دراز گیسو لڑکے سے ہوتی جو ثانوی مدرسے کو چھوڑ چکا تھا اور اب پاویہ کی طرف رواں دواں تھا، جرمنی میں اس کے اساتذہ نے اس سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ زندگی بھر کچھ نہیں بن سکے گا۔ اس کے سوالات جماعت کا سکون برباد کرتے ہیں اور بہتر ہے کہ وہ مدرسے کو خیر باد ہی کہہ دے، لہٰذا اس نے ایسا ہی کیا وہ مدرسے کو چھوڑ کر شمالی اٹلی کی آزاد فضا میں شاداں و فراں گھومتا رہا، یہاں اسے ان موضوعات پر غور و خوض کرنے کا پورا پورا موقع ملا جن پر سوچنا بھی پروشیا کے اس قدامت پرست مدرسے میں ممنوع تھا۔ یہ نوجوان البرٹ آئن اسٹائن تھا جس کی فکر نے دنیا کو بدل ڈالا۔

آئن اسٹائن، برن اسٹائن نامی سائنس دان کی کتاب ''قدرتی علوم عوام کے لیے'' سے بے حد متاثر تھا اس کتاب کا مقصد سائنس کی ترویج اور شہرت تھا اور اس کے پہلے ہی صفحے پر بجلی اور روشنی کی حیرت انگیز رفتار کا بیان تھا، وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ ایک روشنی کی موج پر سفر کر سکتا ہے تو یہ دنیا کیسی نظر آتی؟ روشنی کی رفتار سے سفر! اف، شمسی روشنی سے جگمگاتی، جھلملاتی، دیہی شاہراہ پر سفر کرنے والے ایک لڑکے کے لیے یہ کیا دل پذیر اور سحر انگیز تصور تھا۔ اگر انسان افواج نور کے ساتھ سفر کر سکتا تو وہ قطعی محسوس نہ کر سکتا کہ وہ روشنی کی لہر پر سوار ہے، سطح موج پر سفر کرنے والا اس کی موجودگی کو ہی فراموش کر بیٹھتا، کیوں کہ وہ خود اسی رفتار سے سفر کر رہا ہوتا۔ روشنی کی رفتار سے سفر ایک عجوبے کی حیثیت رکھتا ہے، آئن اسٹائن جیسے جیسے ان سوالات کے بارے میں سوچتا گیا اتنا ہی وہ الجھتا گیا، اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرتا تو ہر جانب تناقضات (پیراڈوکسز) کی ایک بھیڑ لگ جاتی چند تصورات ایسے تھے جن کو مناسب فکری دلائل کے بغیر ہی قبول کر لیا گیا تھا۔

آئن اسٹائن نے انتہائی سہل سوالات کا ایک سلسلہ شروع کیا، یہ ایسے سوالات تھے جنھیں صدیوں قبل ہی پوچھا جانا چاہیے تھا۔ آئن اسٹائن نے ان اصولوں کو خصوصی نظریہ اضافیت میں مجتمع کر دیا۔ روشنی خواہ کسی متحرک یا ساکت جسم سے خارج ہو یا منعکس ہو، اس کی شرح رفتار پر کوئی فرق نہیں ہوتا لہٰذا پہلا اصول یہ ہوا ''نوری رفتار میں کسی ہم سفر جسم کی رفتار کا اضافہ نہیں ہوتا، اسی طرح کوئی مادی جسم روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر نہیں کر سکتا'' دوسرا اصول یہ ہوا '' کوئی جسم روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر نہیں کر سکتا ہے'' طبیعات میں کہیں یہ پابندی نہیں ہے کہ روشنی کی رفتار سے انتہائی قریب رفتار پر سفر ممکن نہیں، نوری رفتار سے 99.9 فیصد قریب سفر کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن آپ جتنا مرضی زور لگا لیں وہ آخری اعشاری نکتہ عبور کرنا ممکن نہیں جو نوری رفتار سے سفر کرنے کا مژدہ ہو گا اگر دنیا میں منطقی استقلال کی بقاء لازمی ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ کائناتی رفتار کی حد مقرر ہے ورنہ تو کسی بھی رفتار سے سفر کرنا ممکن ہوتا۔

نظریہ اضافت جسے آئن اسٹائن نے اپنی جوانی ہی میں ہر زاویے سے مکمل کر لیا تھا اب تک کئی تصدیقی تجربات کی کسوٹی پر پرکھا جا چکا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے اس کو بے نقص ثابت کیا ہے، ممکن ہے کہ کل کوئی شخص ایسا نظریہ پیش کرنے میں کامیاب ہو جائے جو تمام اشیا اور مظاہر سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس کا امکان کم ہے، آئن اسٹائن نے روشنی سے تیز رفتار سفر پر جو پابندی عائد کر دی ہے ممکن ہے کہ وہ ہمارے لیے قابل قبول نہ ہو لیکن اس مسئلے میں ہم عام فہم پر اعتبار کیوں کر لیں؟ دس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے رہیے، انسان کے تجربات تین لاکھ کلو میٹر فی ثانیہ کی رفتار سے کام کرنے والے قوانین قدرت سے کیوں الجھے؟ بے شک اضافیت انسان کے دائرہ اختیار کی کچھ حدود مقرر کرتی ہے لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ کائنات انسانی عزائم کے مطابق خود کو ہم آہنگ کرے۔ خصوصی اضافیت کے اصول ہمیں بتاتے ہیں کہ دراصل ستاروں تک پہنچنے کا ایک ممکنہ ذریعہ یعنی مافوق النور رفتار سے سفر کرنے والا جہاز ہم کبھی نہیں بنا سکتے، نوری رفتار سے سفر آب حیات کی تاثیر رکھتا ہے۔ کیونکہ اس رفتار سے سفر پر وقت بالکل سست ہو جاتا گویا تھم جاتا ہے لیکن نظریہ اضافیت اس رفتار سے سفر پر طبیعاتی قد غن لگاتا ہے۔

خلاء اور وقت کا تانا بانا ایک دوسرے سے بنا ہوا ہے جب ہم خلاء میں جھانکتے ہیں تو وقت میں بھی بہت فاصلے واقع ہیں۔ نوری رفتار سے سفر کرنے پر وقت چونکہ سست ہو جاتاہے چنانچہ خصوصی اضافیت ہمیں ستاروں تک پہنچنے ایک ذریعہ فراہم کرتی ہے لیکن سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا عملی تعمیرات کے نقطہ نگاہ سے نوری رفتار کے قریب سفر ممکن ہے؟ کیا اس مرحلے سے گزرنے کے لیے کوئی انتہائی زیادہ تیز رفتار خلائی جہاز بنانا قابل عمل ہو گا؟ فی الحال زمین سے پرواز کرنے والی تیز ترین مشینیں وائجر خلائی جہاز تھے ان میں سے دو وائجر حال ہی میں روشنی کی ایک بٹا دس ہزار وہی (1/000) رفتار سے خلاء میں سفر کر چکے ہیں اس رفتار سے وائجر خلائی جہاز کو قریب ترین ستارے اقرب قنطارس تک پہنچنے کے لیے چالیس ہزار سال درکار ہوں گے۔ تو کیا ہم مناسب مدت میں سورج سے قریب ترین ستارے تک پہنچنے کا بھی تصور کر سکتے ہیں؟ کیا ہم روشنی کی رفتار کی برابری کرنے کا کوئی طریقہ نکال سکتے ہیں؟ آخر روشنی کی رفتار میں ایسی کیا جادوئی بات ہے؟ کیا ہم کبھی اس سے بھی تیز سفر کرنے کے قابل ہو سکیں گے؟

شاید کئی صدیوں بعد ایسے حیرت انگیز سوالات کے موثر اور تسلی بخش جوابات سامنے آئیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔