ایران اور امریکا رواداری کی راہ پر
مودی صاحب یہ تو ہمارا اندرونی معاملہ ہے تو کیوں نہ ہم بیٹھ کر آپس میں حل کرلیں۔
اب تک ری پبلکن پارٹی کے جتنے بھی صدور آئے ہیں، ان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے عرب دنیا میں دوستی کا جو جال بچھایا ہے وہ یادگار رہے گا۔ عرب دنیا کے جتنے بھی ممالک ہیں، ان سے اسرائیل کے منظم رابطے قائم کردیے یہاں تک کہ سعودی عرب سے بھی زبانی کلامی رابطے قائم ہوگئے اور ہوائی گزرگاہ کا بھی معاملہ عرب دنیا سے حل ہوگیا۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو عرب دنیا سے مزید دور کردیا۔
یوں تو عرب اسرائیل جنگوں میں صرف مصر ہی تھا جس نے جمال عبدالناصر کی قیادت میں کئی جنگیں لڑیں۔ مگر عرب دنیا کا کوئی ملک ان کے ہمراہ جنگ میں شامل نہ ہوا۔ البتہ عرب دنیا کے نوجوان جمال ناصر کے حق میں نعرہ زن رہے، آجکل عرب دنیا میں آزادیوں کا جو نیا جال بچھایا گیا ہے ، اس سے عرب دنیا کا کلچر بتدریج تبدیل ہوتا رہے گا اور وہ سخت گیریاں جو سماج کا جزو تھیں نرم پڑتی جائیں گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ عرب اور ایران کے درمیان دوریوں میں اور اسرائیل سے قربتوں میں اضافہ کیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتنہ برسر اقتدار نہ آسکے حالانکہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ صرف چند فیصد ووٹوں کا فرق تھا کہ وہ برسر اقتدار آتے آتے رہ گئے بلکہ یہ کہیے کہ ایسا لگتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر تیار نہیں اور اس معرکے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں اور انتظامیہ کو اپنا روایتی کردار ادا کرنا پڑا۔ عام طور پر امریکا میں حزب اقتدار اور حزب مخالف اس طرح مقابلہ کرتے ہیں جیسے کہ دو کھلاڑی ٹیموں میں مقابلہ ہوتا ہے، مگر یہاں تو مقابلہ ایسا ہوا کہ اگر انتظامیہ ذرا بھی ڈھیلی پڑتی تو وائٹ ہاؤس میںایک خونیں معرکہ بن سکتا تھا جو انتظامی حسن تدبیر سے بال بال بچ گیا۔
ری پبلکن پارٹی کا ڈیموکریٹک پارٹی سے ایک طویل اختلافی سفر ہے مگر یہ سفر سیاسی اختلاف کا ہے کوئی مارپیٹ کی شکل کا نہیں۔ مگر یہاں اختلاف کی شکل ایسی تھی کہ ری پبلکن پارٹی کے رہنما نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ابتدائی رونمائی کی تقریب میں بھی شرکت نہ کی، جو جمہوری آداب کے منافی ہوتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کی قیادت نے پارٹی کو اپنی ڈگر سے بھی ہٹا دیا اور دوستانہ اختلاف کی جگہ مخاصمانہ روش کو پروان چڑھایا جو آنے والی قیادتوں کے لیے غیر مناسب ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی مسائل پر ٹرمپ نے امریکا کو تنہائی کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔
مثلاً بھارت اور چین کی سرحدی جنگوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کا جو بیان تھا اس کو جمہوری آداب کے خلاف کہا جاسکتا ہے۔ یہ جمہوری رواداری کے خلاف ایک بیان تھا جو چین کے خلاف دیا گیا۔ حالانکہ چین اور امریکا میں فی الوقت ٹیکنالوجی اور معاشی کشمکش کے سوا کوئی جنگ نہیں ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین اور بھارت کی سرحدی جنگ کو دو پارٹیوں کی جنگ کی شکل میں بیانات دیے جو ٹرمپ کے اقتدار جانے کے فوراً بعد ہی ایک دیے کی طرح بجھ گئے اور مزید اس میں بڑھنے کی کوئی امید نہیں کیونکہ روس اور بھارت کی مشترکہ ایما اور چین کے ساتھ میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ چین قبضہ شدہ علاقوں کو بھارت کے حوالے کر دے گا لہٰذا اب بھارت اور چین کے مابین کوئی جنگی وجہ باقی نہیں رہی اور مسٹر مودی اب اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ وہ چین کے روبرو جنگی حکمت عملی وضع کریں۔
مسٹر مودی کے پاس اب صرف ایک ہی کھیل باقی ہے وہ یہ کہ پاکستان کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کریں اور اپنے ملک کے تمام چینلوں کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر اکساتے رہیں، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کے ہاتھ سے یہ سیاسی کھیل بھی جلد جانے کو ہے کیونکہ ساؤتھ انڈیا سے تعلق رکھنے والی کملا ہیرس اب امریکا کی نائب صدر ہے جس نے اقتدار میں آتے ہی پہلا بیان یہ دیا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں دوستی کا پرچارکرنا چاہتی ہے۔
اصل میں مسٹر مودی پاکستان سے جنگ تو نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ آر ایس ایس کے لوگوں کو اپنے مزید قریب ترکرنے کا نعرہ لگا رہے تھے، ابھی تو وہ صرف بھارت کے ان شہروں کے نام جو اردو یا فارسی میں ہیں، ان کو بدلنے میں کوشاں ہیں۔ مثلاً فیض آباد کا ہندی نام ایودھیا رکھ دیا۔ اب وہ اس چکر میں تھے کہ وہ حیدرآباد دکن کا نام بھی بدل ڈالیں لیکن دکن کے لوگوں نے تو اپنی ننگی تلواریں نکال لیں جس پر مودی شکست کھانے کے علاوہ کچھ نہ کرسکے۔ تاج محل، آج بھی بھارت کے سرکا تاج ہے، مودی اگر اس کا نام بدلنا چاہے تو بدل نہیں سکتا کیونکہ ہندی میں بھی یہ نام درست ہے اور فارسی میں بھی۔ پھر اردو تو اردو ہی ہے۔
بھارت میں کسانوں کی جو تحریک چل رہی ہے۔ موسم بہار میں اپنے گل کھلانے کو ہے جب کہ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا میں برسر اقتدار آتے ہی ایران کے ساتھ کیے گئے، معاہدوں کو منسوخ کردیا تھااور ایران پر نئی پابندیاں عائدکردی تھیں لیکن جو بائڈن کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان دنوں بین الاقوامی طور پر جو خبریں سنائی دے رہی ہیں، ان سے یہ لگتا ہے کہ امریکا اور ایران پھر ایک دوسرے سے ایٹمی معاہدے میں قریب تر آنے کو ہیں کیونکہ ایک اخبارکی خبر کے مطابق ایران نے امریکا کو اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ وہ جوہری معائنہ کرنے کے لیے تین ماہ تک معائنہ کرسکتا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے ایٹمی تنصیبات کو اب تک فروغ نہیں دیا اور کے معائنے کے بعد ایران کے ساتھ دوبارہ سابقہ معاہدے کی تجدید کے امکانات روشن ہو جائیں گے اور مزید جوکئی سو پابندیاں ہیں وہ بھی دم توڑ دیں گی۔ اس طرح دنیا میں امن کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا جو اسرائیل کے لیے منفی اعلان ہوگا اور جن عرب ملکوں نے اسرائیل سے معاہدہ کرلیا ہے وہ بھی بے فیض رہیں گے لہٰذا پاکستان کا اسرائیل سے کسی قسم کے معاہدے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
اس لیے جو ممالک یا ادارے پاکستان سے اسرائیلی معاہدے کے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں وہ بھی اپنا وقت رائیگاں کر رہے ہیں اور جن ممالک نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرلیے ہیں اس کے عوض ان کو اسرائیل سے کسی قسم کا فیض نہیں مل سکتا۔ کیونکہ اسرائیل کی آبادی بہت کم ہے اور ٹیکنالوجی میں کوئی نت نئی ایجاد بھی اس کے یہاں ممکن نہیں۔ کیونکہ اسرائیلی ہنرمند، سائنسی اور فنی افرادی قوت امریکا میں فیض حاصل کر رہی ہے۔ اس کا عرب ملکوں میں یا بھارت میں جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ بھارت کے جن علاقوں میں گوریلا جنگ چل رہی ہے یا گوریلا جنگ چلنے کے امکانات ہیں وہاں اسرائیلی ہنرمند محدود پیمانے پر بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ فی الوقت اسرائیلی فوجی ہنرمند کشمیر میں ہنرمندی کے کام انجام دے رہے ہیں۔
لیکن اسرائیل اورکشمیر کی سرحدی اور جنگلاتی اس کے علاوہ لداخ میں کوئی ہنرمندی نہیں دکھا سکتا۔ بھارتی پنجاب جس طرح اناج کی جنگ لڑ رہا ہے اور ان کے ساتھ دیگر علاقوں کے لوگ نبردآزما ہیں ہر حال میں حکومت کو پسپائی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی شہریت کے حوالے سے جو تحریک بھارت میں چل رہی ہے اس میں بھی پسپا ہونے کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ کیونکہ یہ تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ محض کورونا کی وجہ سے لوگ گھر بیٹھ گئے تھے۔ لیکن پنجاب کے کسانوں نے جس طرح سردیوں میں کورونا کی پروا کیے بغیر کھلے آسمان کے نیچے چار ماہ رہ کر جس طرح جانیں دیں اور مسلمانوں کے ساتھ جو ان کی اکائی بنی ہے تو یہ تحریک جو برفانی موسم میں چل چکی ہے کیونکر نہ اپنے آبائی موسم میں سرخرو ہوکر دکھائے گی۔
سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کے تمام اسباق زبانی یاد ہیں۔ ان کو یہ سبق بھی اچھی طرح پڑھنے میں آ رہا ہوگا کہ جی ڈی پی کیسے گر رہا ہے اور ان کے سکے کی قیمت بین الاقوامی دنیا میں کیسے کم ہو رہی ہے۔ لہٰذا وہ دن دور نہیں جب یہ گجرات کے سیٹھ مسٹر مودی سے یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ بس مودی صاحب بس، اب معاملات کا کوئی حل نکالنا ضروری ہو گیا ہے۔ ہم سہ رخی تحریک کا طویل عرصے تک مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
جب ایران اور امریکا رواداری کی راہ پر ہیں اور وہ ایٹمی تنصیبات پر بات چیت پر تیار ہو سکتے ہیں تو مودی صاحب یہ تو ہمارا اندرونی معاملہ ہے تو کیوں نہ ہم بیٹھ کر آپس میں حل کرلیں۔