برائے فروخت

کوئی معقول شخص ایک ایسی کرسی پر تین سال بیٹھنے کے لیے پچاس ساٹھ کروڑ کی خطیر رقم کیسے خرچ کرسکتا ہے۔


Amjad Islam Amjad February 14, 2021
[email protected]

آج کل میڈیا پرجو موضوع بہت زیادہ اِن ہے اس کا تعلق ایک ایسی خریدوفروخت سے ہے جس کو سمجھنا اور سمجھانا اپنی جگہ پر ایک انوکھا مسئلہ ہے کہ میرے جیسے عام آدمیوں کے تو یہ بات پلّے ہی نہیں پڑتی کہ کوئی معقول شخص ایک ایسی کرسی پر تین سال بیٹھنے کے لیے پچاس ساٹھ کروڑ کی خطیر رقم کیسے خرچ کرسکتا ہے جہاں وہ بظاہر سامنے پڑی میز کو صرف بجا یا نہ بجاہی سکتا ہے اور جس کے لیے بعض منتخب عوامی نمایندے بھی اپنے ضمیر وغیرہ کی قیمت لگانا چاہتے ہیں۔

اس سے میرا دھیان بہت سے ایسے شعروں کی طرف مڑگیا جس میں اسی بکنے بکانے کو مختلف حوالوں سے موضوع بنایا گیا ہے مثلاً غالب کا یہ شعر کہ

بِک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ

لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر

اب یوں ہے کہ اس میں ''متاعِ سخن''اور ''عیار طبعِ خریدار''جیسی بھاری بھرکم ترکیبوں نے کچھ ایسی دہشت سی پھیلا دی ہے کہ سارا کاروبار ہی ایک طرح سے بند ہوجاتاہے۔ اس لیے ہم کچھ نسبتاً آسان شعروں کی طرف چلتے ہیں، جیسے

میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں

اور دکاں دارخریدار سمجھتے ہیں مجھے

بک جاتا ہوں ہاتھوں ہاتھ

حد سے زیادہ سستا ہوں

انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں

بس پیار ہماری قیمت ہے مِل جائے تو ہم بِک جاتے ہیں

جس کو بچائے رکھنے میں اجداد بِک گئے

ہم نے اُسی حویلی کو نیلا م کردیا

سب ہیں بکنے والے ہاتھ

تیرے ہوں یا میرے ہاتھ

جب تک بکا نہ تھا تو کوئی پوچھتا نہ تھا

تو نے خرید کر مجھے انمول کردیا

مگر یہ سارے شعر مل کر بھی اُس ویڈیو کا مقابلہ نہیں کرسکتے جس میں نوٹوںکے ڈھیر اور اُن کو گِن کر جیبوں میں ڈالنے والوں کے درمیان یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ ان میں سے کون زیادہ ہلکا ہے اور یہ جو سینیٹ کے آیندہ الیکشنز کے بارے میں شفافیت کے حوالے سے اس بکنے بکانے کے عمل کو ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور جن پر بظاہر اور فی الوقت عمل ہوتا نظر نہیں آرہا، اُن پر بات کی جائے تو فوراً ہی ایک بہت دلچسپ مصرعہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے، اگر کبھی ایسا ہوگیا تو سینیٹ ہال میں رکھی ہوئی ہر کرسی سے ایک ہی آواز اُٹھا کرے گی کہ

؎ وہ جوبیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

اب آیئے اصل بات کی طرف، جس کے لیے یہ ساری تمہید باندھی گئی ہے کہ میں نے اسی موضوع کے حوالے سے آج ہی ایک غزل لکھی ہے جس کی ردیف ہی ''بِک جاتے ہیں''رکھی گئی ہے۔ اس خاصی طویل غزل کے ہر شعر میں میں نے خریدوفروخت کے معروف عمل کو ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ اب میں کہاں تک کامیاب رہا ہوں، اس کا فیصلہ تو آپ ہی کریں گے کہ یہ ''متاعِ سخن ، عیارِ طبعِ خریدار '' کے مطابق ہے یا نہیں ، میرے اندازے کے مطابق اسے رعائتی نمبروں کی ضرورت نہیں پڑے گی ،سو اس سے پہلے کہ دکان بند ہوجائے، آیئے کچھ خریدوفروخت کرلیں۔

سب کچھ ہوتے بِک جاتے ہیں

لوگ یہ کیسے بِک جاتے ہیں؟

ٹوٹے تو وہ گھر نہیں رہتا

سب کے حصّے بِک جاتے ہیں

دل منڈی میں سودے اکثر

بِن گاہک کے بِک جاتے ہیں

لیکن تم تو ہم سے نہیں تھے

مانا، ہم سے، بک جاتے ہیں

گاہک وہ ہو تو آنسو بھی

ہنستے ہنستے بک جاتے ہیں

وقت پڑے تو دیکھا ہم نے

بیچنے والے بِک جاتے ہیں

سچ تو پھر بھی سچ رہتا ہے

لکھنے والے بِک جاتے ہیں

کون خریدے اُن کے غم کو

جن کے بچے بِک جاتے ہیں

محنت کش کے ہاتھ بکیں تو

خواب بھی اس کے بِک جاتے ہیں

بات تو ساری قیمت کی ہے

اچھے اچھے بِک جاتے ہیں

کیا کیا مہنگے لوگ یہاں پر

کتنے سستے بِک جاتے ہیں

بچے اُن کو چُھو نہیں پاتے

اور کھلونے بِک جاتے ہیں

سچ کا گاہک اک بھی نہیں ہے

لاکھوں دھوکے بِک جاتے ہیں

دیواریں، دروازے کیا ہیں

گھر کے نقشے بِک جاتے ہیں

امجدؔ جن کو بِکنا ہو وہ

کسی بہانے بِک جاتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں