انورعزیز چوہدری کی طلسم ہوش ربا داستان

مرحوم انور عزیز چوہدری نے پرشکوہ اور ہنگامہ خیز زندگی گذاری۔


محمد اسلم خان February 08, 2021
[email protected]

مرحوم انور عزیز چوہدری نے پرشکوہ اور ہنگامہ خیز زندگی گذاری۔ سربلند اور سرخرو رہے، الزامات اور تہمتیں ان کے اجلے دامن کو آلودہ نہ کرسکیں۔لیکن بعد از مرگ ان پر عجیب و غریب الزام عائد کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ نون کے رہنما تھے حالانکہ ان کا نواز لیگ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ وہ آل شریفین کے شدید نظری و فکری مخالف تھے۔

اپنے صاحبزادے دانیال عزیز کے نااہل قرار پانے کے بعد انھوں نے ''شیر'' کے نشان پر الیکشن لڑنے سے انکار کرکے شکرگڑھ کی علاقائی سیاست کا پانسہ پلٹ دیا۔مرحوم انور عزیز چوہدری پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ انھوں نے 24 سو کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کیا ہوا تھا، بھیڑ پال اسکیم کے تحت یہ بنجر اراضی 60 برس پہلے انور عزیز چوہدری کو الاٹ ہوئی تھی۔ اس وقت ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا تعارف گورنمنٹ کالج لاہور اور ان کے والد ڈاکٹر عبدالعزیز چوہدری تھے ۔

دانیال عزیز چوہدری تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جن کی آڑ میں کرپشن اور قبضہ گروپوں کی کہانی کا ساتواں باب تخلیق کیا گیا ہے۔ جو سرکاری دستاویزات جاری کی گئی ہیں ، ان میں انور عزیز چوہدری کے بجائے کسی چوہدری عزیز کا ذکر کیا گیا ہے، دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ مجوزہ زمین کو واگزار کرا لیا گیا ہے جب کہ حقائق یہ ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنرکو گرفتار کرکے ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کیا گیا جب کہ خاتون ڈپٹی کمشنر کو احتراماً ہتھکڑی نہ لگائی گئی تھی، دانیال عزیز کریمنل کورٹ پروسیجر کے تحت عدالت میں جائیں گے تو نت نئے تماشے ہوں گے ۔

یہ کالم نگار پندرہ برس انور عزیز چوہدری کے ساتھ ہم نشین و ہم سفر رہا تھا، انگریزی، اردو، فارسی اور پنجابی اساتذہ کے کلام کے عاشق زار، میاں محمد بخش عارف کھڑی شریف کی سیف الملوک کے حافظ،انور عزیز چوہدری کا گزارا اپنے بینکار بڑے بیٹے، عادل عزیز کے ماہانہ بھجوائے جانے والے جیب خرچ پر ہوتا تھا۔ مجلس آرائی اور مطالعہ چوہدری صاحب کے دو شوق آخری سانس تک ساتھ ساتھ چلے جب کہ تیراکی کو اپنی عیاشی قرار دیتے تھے۔ انور عزیز چوہدری اور یہ کالم نگار برس ہا برس ایک کمرے میں رہے، ہم نے چین، امریکا اور بھارت کے دور دراز سفر اکٹھے کیے ۔

اس کالم نگار اور چوہدری صاحب کی عمروں میں کم وبیش 40 برس کا فرق تھا لیکن ان کا کمال یہ تھا ، ہم جیسوں سے بھی ہمیشہ برابری کی سطح پر آکر بات کی۔ چوہدری صاحب نے ساری زندگی کرائے کے گھروں میں گزار دی، برس ہا برس اسلام آباد میں میرے ہاں مقیم رہے، جب ہم اسلام آباد کی نواحی بستی میڈیا ٹاؤن میں آگئے تو موصوف عامر متین کے ہاں منتقل ہو گئے، وہی عامر متین جو اب ٹی وی کی اسکرین پر الفاظ سے جادو جگاتے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے یہ کالم نگار عالمی براڈ کاسٹروں کے اجتماع میں شرکت کے لیے جکارتہ گیا ہوا تھا، فون کر کے چوہدری صاحب کی لاہور موجودگی یقینی بنانے کے بعد اپنی ہنگامی آمد سے آگاہ کیا، لاہور پہنچا تو گھر اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، پتا چلا کہ عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی کٹ چکی ہے اور چوہدری صاحب موم بتی کی روشنی میں مطالعے سے شغف فرما رہے ہیں، انھیں ذرا ملال نہیں تھا، کہنے لگے بیرونی امداد آنے میں ابھی دیر تھی، بل پہلے آگیا ادا نہ ہوسکا، اس لیے بجلی کٹ گئی۔ بیرونی امداد سے ان کا اشارہ سنگاپور سے عادل عزیز کی بھجوائی جانے والی رقم کی طرف تھا۔

یہ چوہدری کی اکلوتی صاحبزادی پروفیسر کرن کے جنازے کا منظر ہے۔ شکر گڑھ مہری پور کے چھوٹے سے گاؤں سے ہارورڈ یونیورسٹی تک کا پر شکوہ سفر کچھ یوں تمام ہوا کہ پروفیسر کرن عزیز چوہدری نے اپنی دھرتی پر دفن ہوکر اپنے اجداد سے اپنے والہانہ لگاؤ کو زندہ مجسم کر دیا۔''میرا مالک پروفیسر کرن ورگیاں دھیاں سب نوں دیوے، اوہ تے مر کے وی بابے انورعزیز دا اگا صاف کرگئی اے۔'' نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعد شکرگڑھ کے دو بزرگ دیہاتی آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور یہ کالم نگار دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ان کی دیہی دانش سے بھرپور باتیں سن رہا تھا۔

وہ بزرگ کہہ رہا تھا کہ سنیا کرن بی بی نے ایتھے دفن ہون دی وصیت کیتی سی، بابے دے نال دفن ہونا چاہندی سی، پر مالک نو کج ہور ہی منظور سی، بابا بیٹھا رہ گیا، دھی اگلے جہان چلی گئی '' واہ مولا تیرے رنگ نیارے نے، کرن بی بی دی وصیت نے ''چوہدری دا ڈیرہ'' آباد کردتا اے۔(اللہ تعالی پروفیسر کرن عزیز چوہدری جیسی بیٹیاں سب کو عطا کرے جو مرنے کے بعد بھی اپنے والد گرامی انور عزیز چوہدری کی راہ کے کانٹے چن گئی، راستہ صاف کر گئی، سنا ہے کرن بی بی اپنے والد کے پہلو میں دفن ہونا چاہتی تھی، یہ اس کی وصیت تھی لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ انور عزیز چوہدری صاحب کو بیٹی دفنانا پڑی۔ پروردگار کی مرضی کے مختلف رنگ اور زاویے ہیں لیکن کیا بیٹی تھی کہ کرن بی بی کی وصیت نے ''چوہدری دا ڈیرہ'' آباد کر دیا ہے)یہ دونوں بزرگ انور عزیز چوہدری کی صاحبزادی ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری کو نماز جنازہ کے بعد خراج عقیدت پیش کررہے تھے۔

چوہدری صاحب کے سیاسی حریف شد و مد سے پراپیگنڈہ کرتے تھے کہ ساری زندگی باہر گذاری، اینہاں دا شکر گڑھ نال کی 'سیر سانجھ' اے (چوہدری انور عزیز اور ان کے بچوں کا شکرگڑھ سے کیا تعلق ہے) جو پروفیسر ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری نے شکر گڑھ میں اپنے لان میں دفن ہو کر اس پراپیگنڈے کو ہمیشہ کے لیے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور اپنی دھرتی سے محبت کی لازوال داستان رقم کی جو صدیوں تک پنجاب کی چوپالوں میں دھرائی جایا کرے گی۔

انورعزیز چوہدری جیسا دانشور نہ سنا، نہ دیکھا ، وہ پنجاب کی دیہی دانش کا حقیقی استعارہ تھے۔ یہ کالم نگار کورونا کے عروج پر ڈیڑہ ماہ دن رات ان کے ساتھ رہا۔ پھر مجھے کابل جانے کے لیے روانہ ہونا پڑا، پشاور پہنچاتھا کہ ان کی اکلوتی اورچہیتی بیٹی ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری کی ناگہانی موت کی اطلاع ملی تو راستے ہی سے واپس آگیا۔

واپس پہنچا تودیکھا کہ ایک رات میں ہی چوہدری صاحب بوڑھے ہوچکے تھے۔ ان سے تعلق کو تین دہائیاں بیت گئیں۔ تادم آخر جب کبھی اکٹھے ہوتے ایک ہی کمرے میں قیام کرتے، ساری رات گفتگوگپ شپ میں گزار دیتے، کوروناکا پہلا وار مل جل کر برداشت کیا، ڈیڑھ ماہ ان کی ہمشیرہ کے ہر پڑے رہے۔ ڈاکٹر رزاق مرحوم کا سارا گھرانہ ہمارے لیے چشم براہ رہا کرتا تھا۔ چوہدری صاحب ساری رات مطالعہ کرتے رہتے، تاریخ، سیاست اوردفاعی اْمورپر کتابیں ان کی زندگی کا جزولاینفک تھیں۔ ہمارے پیارے شاہ جی، سید والا تبار عباس اطہر فرمایاکرتے تھے، چوہدری صاحب کے ہاتھوں میں سوراخ ہیں، رقم ان کے ہاتھوں میں ٹھہرنہیں سکتی۔

عملیت پسند سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے فلاسفر تھے، حکمت کارتھے اورمتنوع اقسام کے دوستوں کے دلدار تھے لیکن سیاست میں قبائلی وفاداری کے بجائے اپنے حلقہ انتخاب میں ہر حال میں فتح پر یقین رکھتے تھے ۔گزشتہ مہینوں میاں زاہد سرفراز کی عیادت کے لیے لائل پور کا پروگرام بنایا، مجھے اسلام آباد سے سیدھا گورونانک پورہ پہنچنے کا حکم جاری کیا ، یہ کالم نگار میاں زاہد سرفراز کے لیے کلرکہارسے کچھ نایاب قسم کے پودے لے جانے کے چکر میں آدھی رات کو پہنچا توتینوں مہربان زیداخترخان سمیت بھوکے بیٹھے میرا انتظارکرتے رہے تھے کہ کھانا اکٹھے کھائیں گے۔

پروفیسر کرن کا صدمہ بظاہر برداشت کر گئے تھے لیکن اندر سے ٹوٹ گئے تھے، 6 نومبر کو سالگرہ پر چند احباب اکٹھے ہوئے لیکن ماحول پر غم کے سائے اور دکھ کی گہری پرچھائیاں چھائی ہوئی تھیں۔ ٹھیک ایک ماہ بعد ان کی اہلیہ کیتھی بھابھی نے عہد وفا کی رسم کچھ ایسے نبھائی کہ آناً فاناً ان کے پیچھے پیچھے سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں ۔

جنگل کنارے انور عزیز چوہدری کے ڈیرے کے وسیع وعریض سبزہ زار کے کنارے مٹی کی دو ڈھیریاں اپنی دھرتی ماں سے محبت کی لازوال کہانی بیان کر رہی ہیں ۔یہ پروفیسر کرن عزیز اور انور عزیز چوہدری کی قبریں ہیں ۔

بہتا رون گے دلاں دے جانی

ماپے تینوں گھٹ رون گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں