فکر و دانش

انسان، انسان کو ڈس رہا ہے اور سانپ بیٹھا ہنس رہا ہے۔


ایم قادر خان January 15, 2021

کوئی بات اچھی ہو یا بری میں سمجھتا ہوں ہر فرد جانتا ہے۔ ہر شخص کی سوچ مختلف ہوتی ہے ،کوئی مثبت ہے توکوئی منفی ۔ اپنے وہ نہیں ہوتے جو تصویر میں ساتھ ہوتے ہیں اپنے تو وہ ہوتے ہیں جو حقیقت میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ خیالات کی آمدنی کم ہو تو الفاظ کی فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔

انسان، انسان کو ڈس رہا ہے اور سانپ بیٹھا ہنس رہا ہے۔ اچھے لوگوں کا ہماری زندگی میں آنا ہماری خوش قسمتی ہوتی ہے، لیکن انھیں سنبھال کر رکھنا ہمارا ہنر۔ کبھی کسی ایسے شخص پر ظلم نہ کرو جس کے پاس فریاد کے لیے اللہ کے سوا کوئی نہ ہو۔ جو وقت گزرگیا اس کو یاد کرکے کچھ اصول بنا لیں جو وقت باقی رہ گیا ہے وہ بہتر ہو جائے گا۔ پرانے لوگ سمجھ دار تھے تعلقات سنبھالتے تھے پھر لوگ عملی ہوگئے تعلق سے فائدہ نکالنے لگے۔ اب لوگوں کا رویہ فائدہ ہو تو تعلق رکھتے ہیں۔

دنیا کی مہنگی چیز بھروسہ ہے جسے بنانے میں عمر بیت جاتی ہے اورگنوانے میں ایک لمحہ لگتا ہے۔ مطلبی دنیا کے لوگ کھڑے ہیں ہاتھوں میں پتھر اٹھائے، میں کہاں تک بھاگوں شیشے کا مقدر لے کر۔ جب چھوٹے تھے تو بڑے ہونے کی خواہش تھی لیکن اب معلوم ہوا کہ ادھورے سپنے اور ٹوٹے ہوئے خواب سے بہتر اسکول کا ہوم ورک اور ٹوٹے ہوئے کھلونے ہوتے تھے۔

انسان نہ کچھ ہنس کر سیکھتا ہے اور نہ رو کر سیکھتا ہے، وہ جب بھی سیکھتا ہے کسی کا ہوکر سیکھتا ہے، یا پھر کسی کو کھوکر سیکھتا ہے۔ اچھے تربیت والدین، گھر والوں سے ملتی ہے بڑے مہنگے اسکول صرف تعلیم دیتے ہیں۔ زمانہ برے لوگوں کی برائی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتا بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے خراب ہوتا ہے۔ کام پڑ سکتا ہے آدھے رشتے لوگ اسی وجہ سے رکھتے ہیں۔ ہم سفر خوبصورت نہیں سچا ہونا چاہیے۔

جب کبھی کسی چیز کا غرور آنے لگے تو ایک چکر قبرستان (شہر خموشاں) کا لگا لینا چاہیے۔ خوف زدہ نہ ہو بلکہ غربا کی آہ سے ڈریں اس لیے کہ اگر امیر بھاگے گا تو وہ حاکم کے دروازے پر جائے گا، غریب نے اگر آہ بھرلی تو وہ اللہ کے دروازے پر کھٹکھٹائے گا۔

جب بھی اللہ سے دعا مانگیں تو کہا کریں اللہ اپنی شان کے مطابق عطا فرمائے۔ جھوٹا کبھی عزت نہیں پاتا چاہے اس کی پیشانی سمت چاند نمودار ہو جائے اور سچا کبھی ذلیل نہیں ہوتا۔ جو برداشت کرنے کا فن جانتا ہو وہ شخص زندگی کی کوئی جنگ ہار نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی کوئی رات اور تکلیف میں گزرا کوئی بھی دن کبھی رائیگاں نہیں جاتا کیونکہ زندگی کا ہر آسان اور تکلیف دہ لمحہ اللہ کی عظمت کا حصہ ہوتا ہے جو کبھی کبھی سمجھ میں آجاتا ہے اور کبھی کبھی ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جو ظلم کے ذریعے عزت چاہتا ہے اللہ اسے انصاف کے ذریعے ذلیل کرتا ہے۔ لوگوں کے محل دیکھ کر غریب مت سمجھو کیونکہ امیر کی قبر اور غریب کی قبر ایک جیسی ہوتی ہے۔

کبھی کبھی گناہ گار کا ندامت بھرا ایک آنسو مغرورکی عبادت سے سبقت لے جاتا ہے۔ کبھی کبھی ہم کچھ لوگوں کو زیادہ مقام دے کر بگاڑ دیتے ہیں، اگر وہ کم ظرف نکلیں تو وہ بدلے میں ہماری آنکھیں، آنسو اور دل درد سے بھر دیتے ہیں۔ جب قبولیت کا وقت آتا ہے اور خدا کی مرضی ہمارے حق میں ہوتی ہے یا پھر نصیب میں لکھا جب ہم کو ملتا ہے تو اللہ فرماتا ہے ہو جا پھر ہو جاتا ہے۔ اور اس لمحے میں آسمان، ستارے، چاند، سورج، وقت، قسمت، فضا، بادل، بارش اور کشش ثقل، قدرت کائنات کی سازشیں، دنیا کا ہر ایک ذرہ مل کر ہمیں منزل کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ عجیب دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو باقی اور باقی سب کو فانی سمجھتا ہے۔

جس مقام پر برداشت ختم ہو جاتی ہے اسی مقام سے صبر شروع ہوتا ہے ہم تکلیف کے جس مقام پر ہوں ہم سے آگے کچھ لوگ ضرور ہوتے ہیں انھیں دیکھ کر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تاکہ ہمارے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔ صبر وقت مانگتا ہے وقت مشکل تھا۔ دکھ انسان کو یا تو ریت کی طرح ڈھا دیتا ہے یا پھر چٹان کی طرح کھردرا اور سخت بنا دیتا ہے۔

صبرکا گھونٹ دوسرے کو پلانا آسان ہے خود پینے میں پتا چلتا ہے کہ ایک ایک قطرہ کتنا مشکل ہوتا ہے۔ الفاظ ہی سب کچھ ہوتے ہیں دل جیت بھی لیتے ہیں اور دل چیر بھی لیتے ہیں جتنے راز داں کم ہوں گے دھوکے کم کھائیں گے۔ جب ہم مشکلات میں ہوتے ہیں تو اکثر سوچتے ہیں کہ اللہ کہاں ہے؟ یہ یاد رہے امتحان کے دوران استاد خاموش رہتا ہے۔ برے دوستوں سے بچنا ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو وہ ہمارا تعارف بن جائیں بات تمیز سے اور اعتراض دلیل سے کرو کیونکہ زبان تو حیوانوں میں بھی ہوتی ہے مگر وہ علم اور سلیقے سے محروم ہوتے ہیں۔ کمزور لوگ بدلہ لیتے ہیں، مضبوط لوگ معاف کردیتے ہیں، ذہین لوگ نظرانداز کردیتے ہیں۔

روحانیت کی راہ پر چلنا ہے تو دل سے کینہ، حسد، بغض، نفرت، تکبر اور ان کو نکالنا پڑے گا۔ اللہ کی دوستی حاصل کرنی ہے تو اس کے بندوں پر مہربان ہونا پڑے گا۔ کیونکہ عبادت کرنے سے پارسائی ملتی ہے اور نیکی کرنے سے رب ملتا ہے۔ عورت کے بدن سے پیدا ہو کر عورت کو حقیر اور کمتر سمجھنے کا کوئی جواز میری سمجھ میں نہیں آتا۔ دل سے اترا ہوا شخص کبھی بھی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہیں کرسکتا۔ ہمارے اخلاق کی قدر بھی لوگ اس وقت کریں گے جب ہمارے پاس دولت اور طاقت ہو۔ غریب کتنا ہی خوش اخلاق ہو، لوگ اس کے اخلاق کو اس کی مجبوری سمجھتے ہیں۔

مشورہ ایک سے مانگیں تو سیکڑوں دیتے ہیں اور مدد مانگے تو صرف ایک ہی دیتا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحات وہ ہوتے ہیں جب ہم اپنی سب سے قیمتی شے کو بچانے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ غلام کو غلامی پسند نہ ہو تو کوئی آقا پیدا نہیں ہو سکتا۔

انسان جو چاہے وہ کرنے سے قاصر ہے جب کہ اللہ جو چاہے وہ کرنے پر قادر ہے، پھر بھی ہم قادرکو چھوڑ کر قاصر سے امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی دوسرے کے لیے دعا مانگ کر دیکھیں، ہمیں اپنے لیے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں