بدایوں کیس کیا ثابت کرتا ہے

بھارت میں عورتوں کے ریپ اور قتل کے بڑھتے واقعات پر خوفناک اعداد وشمار سامنے آتے رہتے ہیں۔


فرحین شیخ January 15, 2021
[email protected]

بھارت میں عورتوں کے لیے2021 کا آغاز ہی درد ناک رہا۔ ایک بھیانک پیغام دنیا میں بڑی سفاکی سے پہنچایا گیا کہ سال بے شک بدل جائے، سماج کبھی نہیں بدلے گا۔ ریپ اور جنسی درندگی کے واقعات بھارت میں اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ سیاست دانوں کے پاس اب اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ عورتوں کو اکیلے گھروں سے باہر نہ جانے کا مشورہ دے کر جان چھڑالی جائے۔

چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، بدعنوانی کون سا جرم ہے جو بھارت میں اپنی انتہا کو نہیں پہنچا لیکن ''نربھیا'' کے بھیانک ریپ اور قتل کے بعد ہونیوالے ہنگاموں سے لے کر اس کے قاتلوں کو پھانسی دیے جانے تک جانے کیوں یہ آس سی بندھی تھی کہ نربھیا کا قتل باقی تمام بھارتی عورتوں کے لیے زندگی کی نوید بن جائے گا لیکن یو پی میں ہونے والے ریپ کے تازہ واقعے نے ساری امیدوں کو خاکستر کر ڈالا ہے۔

بدایوں کی اس پچاس سالہ عورت کا شوہرکافی عرصے سے بیمار تھا۔ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق شوہر کی صحت یابی کی دعا کرنے مندر جانا اس کا معمول تھا۔ مندر ہو یا کوئی اور جگہ، ہوس کے پجاریوں کے لیے کوئی جگہ معنی نہیں رکھتی۔ مندرکے پنڈت نے اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے ظلم اور بربریت کی وہ تاریخ رقم کر ڈالی جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ ریپ، جنسی تشدد، قتل اور پھر لاش کوکنویں میں پھینکنا، بھلا ایسے سفاک لوگوں کا دنیا کے کسی بھی مذہب سے کیا واسطہ چاہے ان کے چولے کا رنگ گیروا ہو یا پھر کوئی اور۔ قتل کے بعد آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ اس قدر لرزہ خیز ہے کہ پتھر دل بھی ہل جائیں لیکن بھارت کی ریاست میں گویا یہ روزکا معمول ہے۔

بدایوں کی پچاس سالہ یہ عورت نازک جگہوں پر شدید چوٹیں لگنے اور زیادہ خون بہنے کی وجہ سے مرچکی ہے۔ اس کی موت نے پھر وہی بحثیں چھیڑ دی ہیں جو اس طرح کے دوسرے واقعات کے بعد ہمیشہ ہی چِھڑیں اور لاحاصل اختتام پذیر ہوگئیں۔ سر پیٹنے کا مقام تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھارت میں ہمیشہ ہی اس بات کا ڈھول پیٹا جاتا رہا ہے کہ عورتوں کے حقوق پر یہاں کیسے کیسے بہترین اقدامات کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے بھارتی سماج میں عورتیں پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں لیکن ہرکچھ دن بعد اسی بھارت میں چند درندے تمام حکومتی دعوؤں کو منہ کے بل گرا دیتے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر ایک گھناؤنی تاریخ رقم کرکے عورت کو یہ سوچنے پر مجبورکردیتے ہیں کہ آیا اس کے پاس جینے کا کوئی رستہ باقی بچا بھی ہے یا نہیں۔

ریاست اتر پردیش میں ہونے والے ریپ اور قتل کے اس تازہ واقعے پر ہر طرف شور مچا ہوا ہے لیکن اندرون خانہ یہ شور بھی سیاسی سا ہے۔ اپوزیشن کے لیے سنہرا موقع ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی اور نظم و نسق پر سوال اٹھا سکے سو وہ چیخ چلا کر یہی کررہی ہے۔

بی جے پی حکومت کو اس شور سے گویا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نربھیا قتل کیس میں بھی آخر وقت تک قاتلوں کو صرف اس لیے بچانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ان کا تعلق اونچی ذات کے ہندوؤں سے تھا۔ اور اب بھی اس شورکے معنی بی جے پی کے لیے نقارخانے میں طوطی کے شور سے زیادہ اہم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے جائے واردات کے معائنے تک کی زحمت محسوس نہیں کی، ایف آئی آر درج کرنے میں بے جا تامل کیا گیا جب کہ 2012 میں نربھیا ریپ کیس کے بعد جو اینٹی ریپ قانون سازی کی گئی تھی اس کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ پولیس میں شکایت درج کروانا اب آسان ہوجائے گا، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اب بھارتی عورتیں اچھی طرح جان چکی ہیں کہ قانون کتنا ہی اچھا کیوں نہ بن جائے سماج کا رنگ تو وہی گدلا اور مٹیالا رہے گا۔

خواتین کے تحفظ کے لیے بھارتی حکومت خود کو بے بس ثابت کرچکی ہے۔ ہاں وزیراعلٰی صاحب افسران کو ڈانٹ ڈپٹ کر خانہ پری میں ضرور مصروف ہیں تاکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو احتجاج کا موقع نہ دیا جاسکے۔

بھارت میں عورتوں کے ریپ اور قتل کے بڑھتے واقعات پر خوفناک اعداد وشمار سامنے آتے رہتے ہیں۔ تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن نے بھارت کو خواتین کے لیے دنیا بھر میں سب سے خطرناک ملک قرار دیا ہے تو حیرت کس بات کی اور اگر یہ رپورٹ جھوٹ کہتی ہے تو پھر آج کی تاریخ میں بھارت میں ریاستی سطح پر شام کے وقت عورتوں کوگھر سے تنہا نہ نکلنے کے مشورے بھلا کیوں دیے جارہے ہیں؟ مجرموں کو نکیل ڈالنے اور فاسٹ ٹریک عدالتوں میں ان کے مقدمات چلانے کے بجائے عورتوں کو یہ تلقین کیوں کی جارہی ہے کہ وہ گھرکے کسی مرد یا کم ازکم بچوں کے ساتھ باہر نکلا کریں تاکہ ان کو کم سے کم خطرے کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسے بے حس سماج پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے جس میں مجرم آزاد اور بے فکری سے دندناتے ہوں اور لوگ اپنی عزت بچانے گھروں میں دبکے ہوں۔

ویسے تو انڈیا میں ہر سال ہزاروں ریپ کے واقعات ہوتے ہیں لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جو چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ معاشرہ مجموعی طور پر پاگل ہوچکا ہے۔ ابھی پچھلے سال کی تو بات ہے کہ 86 سالہ عورت کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اب یہ پچاس سالہ عورت موت کے گھاٹ اتار دی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ وہ اندھا گونگا بہرا سماج ہے جس کی شہوت پرستی نے اس میں بسنے والوں کو ہر رشتے کی تمیز بھلا دی ہے۔

ماضی کے مقابلے میں اب بھارت میں عورتوں کے حقوق پر بہت کُھل کر بات ہونے تو لگی ہے لیکن سیاسی سطح پر سوائے تمسخر اڑانے کے اورکچھ نہیں کیا جاتا۔ اسی ضلع بدایوں میں چند سال قبل جب دوکم عمر لڑکیوں کا ریپ کر کے ان کی لاشوں کو درخت سے لٹکایا گیا تھا اس وقت بھی مقامی پولیس ان لڑکیوں کے اہل خانہ کا مذاق اڑاکر مدد سے صاف انکارکر چکی تھی۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے بھارت میں ریپ کا خطرہ ہر آنے والے دن میں پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

تاریخ لکھے گی کہ وہ صدی جس میں دنیا ترقی کے اوج کمال پر پہنچ چکی تھی اس وقت زمین کے نقشے پر موجود ایک ملک میں یہی طے نہیں ہوا پایا تھا کہ عورت کو کس وقت اورکس کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا چاہیے کہ اس کی عزت اورجان بچ سکے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر یہاں ہر عورت کو ریپ سے بچانے کے لیے گھروں میں بند بھی کردیا جائے گا تو بھی یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ،کیونکہ جنھیں سرکارکی سرپرستی اور اونچی ذات کا گھمنڈ ہو ان کے لیے یہ گھروں میں بند عورتیں ان مرغیوں کی مانند ہیں جنھیں قصائی پلک جھپکتے میں باہر نکال کر ایک ہی جھٹکے میں ان کا قصہ نمٹا دیتا ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہوکہ بی جے پی سرکار عورتوں کو یہ بھی بتادے کہ اگر یہ بے چاریاں اگرگھر میں بھی محفوظ نہ رہ پائیں تو پھرکہاں جائیں گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں