متاثرین ماڈل ٹاؤن انصاف کے منتظر

اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو سزا ملی تو سانحہ ساہیوال، سانحہ اسلام آباد جیسے واقعات کا سدباب بھی ممکن ہوسکے گا


اگر ان کی اپنی حکومت میں انہیں انصاف نہ ملا تو کب ملے گا؟ (فوٹو: فائل)

مچھ میں ہونے والے سانحے پر مسلم لیگ کی قیادت نے جس انداز میں دکھ و غم کا اظہار کیا، اور جس طرح لیگی قیادت متاثرین کے دکھ درد میں شریک ہوئی، اس سے یہ تاثر زائل ہونے میں مدد ملی کہ یہ بے رحم اور سنگدل لوگ نہیں ہیں۔ قوم کو معلوم ہوا کہ ان کے سینے میں بھی دل ہے، کسی کے دکھ درد پر یہ لوگ بھی تڑپ جاتے ہیں، عام لوگوں کو یہ بھی انسان سمجھتے ہیں۔

شاید اسی لیے ایک صحافی نے مریم نواز سے ان کے والد محترم کے دور میں ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے سوال پوچھ لیا۔ سوال پوچھنے والے کو امید ہوگی کہ مریم نواز اس سانحے پر بھی نادم ہوں گی۔ وہ اس عزم کا اعادہ کریں گی کہ اگر آئندہ ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ایسے اقدامات کیے جائیں گے کہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔ ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرم بلاتفریق قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں گے۔ مگر مریم نواز کو حقیقت اور میڈیا کے حافظے کا پوری طرح ادارک تھا، اس لیے انہوں نے ایک موقع پر ''میں یہاں پر سیاسی گفتگو نہیں کرنے آئی'' اور ایک موقع پر احسن اقبال کو مائیک دینے میں عافیت سمجھی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک ایسا لرزہ خیز واقعہ ہے، جو آپ کو ہمیشہ رلا دیتا ہے۔ اگر آپ کا دل مردہ نہیں ہوا، تو بے اختیار آپ کے دل سے ظالموں کےلیے بددعا نکلے گی۔ ماڈل ٹاؤن میں پنجاب پولیس کے شیر دل جوانوں نے جس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، آپ جب بھی ان کی کارکردگی دیکھیں گے تو یہ آپ کو بھارتی درندوں کو پیچھے چھوڑتے نظر آئیں گے۔ آپ کو مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی داستانیں رقم کرتی قابض افواج یاد آجائیں گی، جنہیں ایک فاشسٹ حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔

پاکستان مسلم لیگ کے دور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف نہ مل سکا۔ ریاست اپنے ہونے کا احساس دلانے میں ناکام رہی۔ یہ شاید ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کی آہیں ہی تھیں کہ میاں صاحبان شاندار کارکردگی دکھانے کے باوجود، ملک کو اندھیروں سے نکالنے کے باوجود، سڑکوں، پلوں، میٹروز، اسپتالوں کا تحفہ دینے، ڈالر کو 100 روپے تک محدود کرنے، مہنگائی کا جن قابو کرنے، بہترین خارجہ پالیسی، صفائی کے بہترین انتظام جیسے کارنامے سرانجام دینے کے باوجود اگلی مدت کےلیے اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

یاد رہے اس دور میں عمران خان دعویٰ کیا کرتے تھے کہ یہ لوگ سب کچھ کرپشن کےلیے کررہے ہیں۔ مگر گزشتہ ڈھائی سال سے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باوجود نہ صرف خان صاحب ان کرپٹ لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت نکلوانے میں ناکام رہے بلکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو کیفر کردار تک بھی نہ پہنچا سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے اس سے پہلے کہ پی ٹی آئی سرکار قصہ پارینہ بن جائے، عوام کو ریلیف دینے کے ساتھ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچاکر مثال قائم کی جائے، تاکہ آئندہ قانون کے رکھوالے قانون کو کھیل نہ بنائیں۔ محافظ اپنی نوکری کی حفاظت کرنے کے بجائے عوام کی حفاظت کریں۔

امید کی جاسکتی ہے کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو قرار واقعی سزا ملی تو ملک میں سانحہ ساہیوال، سانحہ اسلام آباد جیسے واقعات کا سدباب بھی ممکن ہوسکے گا۔ بصورت دیگر ماڈل ٹاؤن، ساہیوال، اسلام آباد میں بے گناہ افراد محافظوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہیں گے۔ چند دن سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر شور ہوگا، اپوزیشن حکومت پر تنقید کرے گی، اور حکومت مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے دعوے کرکے اپنی ذمے داری سے عہدہ برآ ہوجائے گی۔

اور آخر میں علامہ طاہرالقادری سے بھی گزارش ہے کہ براہِ کرم ملک میں واپس تشریف لاکر اپنے سیاسی کزن سے گزارش کریں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ بصورت دیگر ایک دھرنا اس حکومت کے خلاف بھی ہوجائے۔ کیونکہ اگر ان کی اپنی حکومت میں انہیں انصاف نہ ملا تو کب ملے گا؟ میری تمام سوشل میڈیا استعمال کرنے والے، اہل قلم اور ہر دردمند پاکستانی سے بھی التماس ہے کہ علامہ طاہرالقادری سے گزارش کی جائے اور وہ موجودہ حکومت کو مجبور کریں، تاکہ پی ٹی آئی سرکار کا سورج غروب ہونے سے پہلے متاثرین ماڈل ٹاؤن کو انصاف مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |