تین محبوب اور تین مبغوض بندے آئیے خود کو تلاش کریں

پہلا مبغوض تو وہ شخص ہے جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کاری کا مرتکب ہو۔


پہلا مبغوض تو وہ شخص ہے جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کاری کا مرتکب ہو۔ فوٹو: فائل

اﷲ تعالیٰ اپنے جن بندوں سے پیار فرماتے ہیں ان کی نشانیاں نبی کریم ﷺ نے ذکر فرما دی ہیں۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کے مبغوض (ناپسندیدہ) بندوں کی علامات بھی ذکر فرما دی ہیں تاکہ انسان اپنے آپ کو ان بُرے اوصاف سے بچائے۔

حضرت ابوذر غِفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''تین طرح کے لوگوں سے اﷲ تعالیٰ محبّت جب کہ باقی تین طرح کے لوگوں سے اﷲ تعالیٰ نفرت فرماتے ہیں۔ جن سے اﷲ تعالیٰ محبّت فرماتے ہیں ان میں سے پہلا وہ شخص ہے جو ایسی قوم میں رہتا ہو جس قوم کے پاس کوئی شخص رشتے داری اور قرابت داری کی بنیاد پر نہیں بل کہ محض اﷲ کا واسطہ اور قسم دے کر کچھ مانگنے آیا ہو اور وہ قوم ایسے شخص کو دینے سے انکار کر دے اور یہ شخص علیحدگی میں اُس مانگنے والے کی اس طرح مدد کرے کہ اﷲ تعالیٰ اور مانگنے والے کے علاوہ کسی کو اس بات کا پتا نہ چلنے دے۔

دوسرا وہ شخص جو کسی ایسے قافلے میں شریک سفر ہو کہ وہ قافلے والے سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے رات کو سو جائیں اور یہ شخص اﷲ کی طرف متوجّہ ہوکر آہ و زاری اور کلام اﷲ کی تلاوت میں مشغول ہوجائے۔ تیسرا وہ شخص جو ایسے لشکر میں شامل ہو جس کو میدان کارزار میں شکست ہوگئی ہو لیکن یہ شخص بھاگنے کے بہ جائے سینہ سپر ہو کر آگے بڑھے یا تو قتل کر دیا جائے یا پھر فتح و نصرت اس کے قدم چوم لے۔'' (جامع الترمذی)

رسول کریمؐ نمائندہ خدا ہیں، آپؐ کی بعثت کا مقصد مخلوق خدا کو خدائے ذوالجلال کی پسند اور ناپسند سے باخبر کرنا ہے، تاکہ انسانیت اﷲ کو راضی اور خوش کرنے والے کام کرے اور اﷲ کو ناراض کرنے والے کاموں سے بچ سکے۔

پہلا محبوب بندہ وہ ہے جو چپکے سے کسی حاجت مند کی ضرورت کو پورا کرے۔ جب کچھ لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی شخص ان کے پاس آئے اور رشتہ داری اور قرابت داری کا واسطہ دینے کے بہ جائے اﷲ کی ذات کا واسطہ دے۔ لیکن لوگ اس کی بات پر کان نہ دھریں اور اس کی ضرورت پوری کرنے سے عملًا انکار کر دیں اسی دوران ایک شخص وہاں سے اٹھے اور چپکے سے ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کر دے اور باقی لوگوں کو اس کا پتا نہ چلے تو ایسا شخص اﷲ کا محبوب ہے۔ ایک تو چُپکے سے صدقہ دینا بہت بڑی نیکی ہے۔

اس کے ساتھ اس نے اﷲ رب العزت کے نام کا احترام کرتے ہوئے ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ اس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کے نام کی عظمت بہت زیادہ ہے۔ ظاہر ہے جو اﷲ کے نام سے محبت کرتا ہے اﷲ بھی اس کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔ اس شخص کا یہ عمل اﷲ کی بارگاہ میں محبوبیت و مقبولیت اس لیے بھی پا لیتا ہے کیوں کہ اس شخص نے یہ نیکی کرتے وقت دو بڑے گناہوں سے خود کو بچا لیا ہے۔ ایک تو ضرورت مند کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا اور اسے مجلس میں بیٹھ کر نیچا نہیں دکھایا۔ چوں کہ اس شخص کا یہ عمل خالصتاً اﷲ کو راضی کرنے کے لیے ہے اس لیے ایسے شخص کو اﷲ کے ہاں محبوبیت کا مقام نصیب ہوتا ہے۔

دوسرا محبوب بندہ وہ ہے جو چپکے سے اﷲ کی عبادت کرے۔ جب قافلے والے سفر کی تھکان کی وجہ سے میٹھی نیند سو جائیں اور یہ سفر کی تھکاوٹ کے باوجود نیند کو قربان کرکے، خواہش نفس کو روند کر نماز تہجد اور تلاوت قرآن کا اہتمام کرتا ہے یعنی مشقت کے ساتھ عبادت کرتا ہے تو یہ عبادت اﷲ کے ہاں اسے مقام محبوبیت تک پہنچا تی ہے اور یہ مخلوق خدا کی نظروں میں محبوب بن جاتا ہے۔

تیسرا محبوب بندہ وہ ہے جو اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے تن تنہا لڑتا رہے۔ جب لشکر والے دشمن کی فوج سے شکست کھانے کے بعد پیٹھ دکھا کر بھاگ رہے ہوں ایسے وقت میں یہ شخص ہمت نہ ہارے اور سینہ سپر ہو کر دشمن کے مقابلے میں جان لڑا دے اور مسلسل دشمن سے مقابلہ کرے اس دوران یا تو قتل ہو جائے اور شہادت کا درجہ حاصل کر لے یا پھر فتح و نصرت سے ہم کنار ہو جائے۔

دونوں صورتوں میں کام یابی ہے۔ اس بات کا صحیح طور پر اندازہ صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو میدان کارزار میں داد شجاعت دے چکے ہوں۔ جب لشکر والے اپنی جان بچا کر بھاگ رہے ہوں اور اس کو اپنے سامنے اپنی موت نظر آ رہی ہو اس کے باوجود بھی یہ شخص دین اسلام کی سربلندی اور دشمنان دین کو مٹانے کے لیے میدان میں ڈٹا رہے تو یہ اس کے اخلاص کی علامت ہے۔ اسی اخلاص کی بہ دولت وہ اﷲ کے ہاں مقام محبوبیت پالیتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب اﷲ رب العزّت کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتے ہیں میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں آپ بھی محبت کریں۔ حضرت جبرائیلؑ اس سے محبت شروع کر دیتے ہیں اور آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں بندے سے اﷲ تعالیٰ محبت کرتے ہیں (اے آسمان والو) تم بھی اس سے محبت کرو آسمان والے محبت شروع کرتے ہیں اور زمین والوں میں اس کو مقبول بنا دیا جاتا ہے۔'' (صحیح مسلم)

حضرت قتادہ بن نعمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ رب العزّت جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو دنیا میں دل لگانے سے روکے رکھتے ہیں جیسا کہ تم لوگ بیمار بندے کو (بیماری کے بڑھ جانے کے خوف سے ) پانی سے روکتے ہو۔'' (جامع الترمذی)

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ رب العزّت جب کسی گھر والوں سے محبت فرماتے ہیں تو ان کے معاملات میں نرمی شامل فرما دیتے ہیں۔''

حضرت ابوذر غِفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''تین طرح کے لوگوں سے اﷲ تعالیٰ نفرت کا معاملہ فرماتے ہیں: پہلا وہ شخص ہے جو بوڑھا ہوجائے پھر بھی زنا کرے۔ دوسرا وہ شخص جو فقیر اور تنگ دست ہو پھر بھی تکبّر کرے اور تیسرا وہ شخص جو مال دار ہو لیکن دوسروں پر ظلم کرے۔'' (جامع الترمذی)

پہلا مبغوض تو وہ شخص ہے جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کاری کا مرتکب ہو۔

دوسرا مبغوض وہ بندہ ہے جو تنگ دست ہو پھر بھی تکبّر کرے۔ قرآن و سنت میں متکبّر شخص کے بارے میں بہت سخت وعیدیں مذکور ہیں۔ تکبّر کرنا ویسے ہی بہت بڑا گناہ ہے لیکن ایک ایسا شخص جس کے پاس اسباب تکبر بھی نہیں، وہ بھی تکبر کرے تو اﷲ رب العزّت کی نگاہ میں قابل نفرت بن جاتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبّر ہوگا۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ بندہ اچھے کپڑے اور اچھے جوتے کو پسند کرتا ہے۔

(کیا یہ بھی تکبر ہے؟) آپ ﷺ نے جواب دیا کہ نہیں۔ اﷲ جمیل ہیں اور حسن و جمال کو پسند فرماتے ہیں۔ تکبر یہ ہے کہ بندہ حق بات کو قبول نہ کرے اور لوگوں کو ذلیل سمجھے۔'' (صحیح مسلم) رسول اﷲ ﷺ نے تکبّر کا علاج یہ بتلایا ہے کہ بندہ سلام کرنے میں پہل کرے۔

تیسرا مبغوض بندہ وہ ہے جسے اﷲ نے مال دیا ہو اور وہ ظلم کرے۔ جو بندہ مال دار ہونے کے باوجود ظلم کرتا ہے وہ اﷲ کے ہاں قابل نفرت ہے۔ کیوں کہ مال کا مل جانا محض اﷲ کی عطا سے ہے اس کی وجہ سے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی پر ظلم کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ محدثین کرامؒ نے ''الغنی الظلوم'' کی تشریح میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود بھی قرض خواہوں کو قرض کی ادائی نہ کرے یہ بھی ظلم ہے۔ اﷲ کریم ہمیں اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمائے اور مبغوض ہونے سے بچائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔