بھاری بوجھ

غیاث الدین بلبن خاندان غلاماں کا بڑا با جبروت سلطان تھا ۔ اس کی ذات میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں ۔۔۔


S Nayyer December 30, 2013
[email protected]

غیاث الدین بلبن خاندان غلاماں کا بڑا با جبروت سلطان تھا ۔ اس کی ذات میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں ، جو کسی بھی کامیاب حکمران کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ بلبن بہت کم وقت میں کسی بھی شخص کے بارے میں یہ جان لیتا تھا کہ یہ شخص کس کام کے لیے موزوں ہے ، اور کس کام کے لیے ناموزوں ہے ؟اورایک کامیاب حکمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانوں کو پرکھنے کی یہی صلاحیت رکھتا ہو ۔ سلطان بلبن انسانی نفسیات ، انسان کی فطرت و جبلت کے علاوہ انسان کی سوچ اور اس کے عمل سے درست نتائج اخذ کرنے میں ید طولیٰ رکھتا تھا ۔

اس کے رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ دربار میں کسی کو مسکرانے تک کی جرات نہ ہوتی تھی ۔ ایک دن سلطان بلبن محل سرا میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے ساتھ شام کے فارغ وقت میں کھیل رہا تھا ۔ وہ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل گھوڑا بنا ہوا تھا اور ننھا شہزادہ باپ کے کاندھوں پر سوار ہو کر خیالی چابک لہراتا ہوا ، اسے کان پکڑ کر قالین پر چاروں طرف دوڑاتا پھر رہا تھا ۔ بیٹے کے حلق سے مارے خوشی کے قلقاریاں نکل رہی تھیں ، جنھیں سن کر باپ نہال ہوا جارہا تھا ۔ دونوں باپ بیٹے بے انتہا خوش تھے کہ اچانک خادم خصوصی نے اندر آکر اطلاع دی کہ کسی خاص علاقے کا گورنر ، کسی ہنگامی معاملے پر فوری ملاقات کا خواہاں ہے ۔

بلبن کی طبیعت یہ اطلاع سن کر مکدر تو ہوئی کیونکہ وہ اس وقت بڑے اچھے ماحول میں اپنے بیٹے کی قربت سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح سے جانتا تھا کہ امور سلطنت کو بروقت نمٹایا جانا سب سے زیادہ ضروری عمل ہے ۔ اس نے خادم سے کہا کہ وہ ملاقاتی کے بارے میں یہ معلوم کر کے اسے بتائے کہ وہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے یا نہیں ؟ خادم نے واپس آکر اسے مطلع کیا کہ اس کا ملاقاتی شادی شدہ اور پانچ بچوں کا باپ ہے ۔ یہ سن کر بلبن نے ملاقاتی کو اپنے محل کے اسی حصے میں طلب کرلیا ۔ ملاقاتی اندر آیا اور کسی مسئلے پر بلبن سے کچھ دیر تک صلاح مشورہ کرنے کے بعد رخصت ہوگیا ۔ بلبن نے اس ملاقاتی سے اسی حالت میں گفتگو کی کہ اس کا بیٹا اس کے کاندھوں پر بدستور سوار رہا اور وقفے وقفے سے اس کے کان پکڑ کر کھینچتا بھی رہا ۔ ملاقاتی کے رخصت ہوجانے کے بعد بلبن کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ '' آپ نے ملاقاتی کے بارے میں یہ کیوں معلوم کروایا کہ وہ شادی شدہ اور بال بچے دار ہے یا نہیں؟ '' تو بلبن نے جواب دیا '' اگر وہ ملاقاتی شادی شدہ نہ ہوتا یا شادی شدہ ہوتا مگر صاحب اولاد نہ ہوتا تو میں اس سے دیوان خاص میں ملاقات کرتا ۔

کیونکہ اگر وہ مجھے اس حال میں دیکھ لیتا کہ ایک چھوٹے سے بچے نے مجھے گھوڑا بنایا ہوا ہے اور میرے کان پکڑ کر مجھے چاروں طرف دوڑا رہا ہے تو وہ یقینا یہی سوچتا کہ یہی وہ سلطان غیاث الدین بلبن ہے جس کے رعب و دبدبے کے چہار اطراف ڈنکے بجتے ہیں اور عمال حکومت اور امراؤ رؤ سا ، جس کے نام سے تھراتے ہیں ؟ یہ کیسا سلطان ہے ؟ جسے ایک چھوٹے سے بچے نے کانوں سے پکڑ کر گھوڑا بنایا ہوا ہے ؟ مجھے اس حال میں دیکھ کر ، میری شخصیت کا غلط تاثر اس پر لازمی طور پرمرتب ہوتا ۔ لیکن میرا ملاقاتی چونکہ خود صاحب اولاد تھا ، لہذا میں نے اس سے اسی جگہ ملاقات کرنے میں اس لیے کوئی حرج نہ سمجھا ، کہ اولاد ایک ایسا رشتہ ہے جس کے بارے میں ، کسی بھی ایسے شخص کو سمجھانا ، ناممکن ہے ، جو خود صاحب اولاد نہ ہو۔ میرا ملاقاتی اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اولاد ایک ایسی شے ہے ، جو اپنے باپ کو گھوڑا بنا سکتی ہے خواہ اس کا باپ ہندوستان کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ؟''

سلطان غیاث الدین بلبن کا تاریخ میں محفوظ یہ واقعہ اور انسانی محسوسات کے بارے میں کیا جاننے والا اس کا یہ تجزیہ نہ جانے کیوں بار بار میرے دماغ پر گویا '' ڈنک '' مارتا ہے ، جب بھی میں اس ملک کے اٹھانوے فیصد غریب عوام کے رہنماؤں کے اثاثوں کی تفصیلات پڑھتا ہوں ، پھر اس کے ساتھ ساتھ میں یہ موازنہ بھی کرتا ہوں کہ اس ملک کی قیادتیں جو کئی عشروں سے ہماری گردنوں پر مسلط ہیں وہ واقعی امیر ہیں یا پھر یہ اٹھانوے فیصد غریب عوام زیادہ امیر ، سخی اور دلدار ہیں ، جو ، ان قیادتوں کو انتخابات کے وقت اپنے ووٹ کی ایسی ''دولت '' سے نواز دیتے ہیں ، جس کی طاقت کا انھیں خود بھی اندازہ نہیں ہے ۔ یہ امیر قیادتیں ہر الیکشن میں اس ملک کے غریب عوام کے سامنے ، ان کے ووٹ کی خیرات مانگنے کے لیے کشکول لے کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور ان اٹھانوے فیصد غریب عوام نے ان امیر '' فقیروں '' کو آج تک نہ تو مایوس کیا اور نہ ہی خالی ہاتھ لوٹایا ہے ۔ ہر مرتبہ ان کا یہ خالی کشکول لبالب بھرا ہے ، محض اس امید پر کہ جواباً یہ قیادتیں بھی ان کی جھولی میں ،امن و امان ، قانون کی حکمرانی ، فوری انصاف ، اچھی تعلیم ، معیاری طبی سہولیات اور روزگار کے مواقعے سمیت ہر وہ شے ڈال دیں گی جس پر ان غریبوں کا حق بنتا ہے ۔

یہ سادہ لوح عوام نہ جانے کیوں یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ہماری موجودہ اور دستیاب قیادتیں انھیں اتنا ہی خوشحال بنا دیں گی ، جیسی وہ خود خوشحال ہیں ۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ کروڑ پتی اور ارب پتی قیادت عوام کی وہ غربت دور کرسکے ، جس سے وہ خود واقف ہی نہیں ۔ ایک طبیب ، ایسے مرض کا کیسے علاج کرسکتا ہے ، جس مرض کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہی نہیں ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ ان قیادتوں کے اثاثوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کے اثاثے کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ 1980 کی دہائی تک کبھی یہ سننے میں نہیں آیا تھا کہ حکومت کے کسی بھی محکمے کے ملازمین کو ان کی ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاسکی ہے ۔ ایسا ہونا ، نا ممکنات میں شامل سمجھا جاتا تھا کہ کوئی سرکاری ملازم اپنی تنخواہ سے محروم رہ گیا ہو ۔ لیکن یہ اثاثہ سکڑتا چلا گیا ۔ اب بے شمار ایسے سرکاری محکمے ہیں جن کے ملازمین سڑکوں پر آکر اپنی تنخواہوں کے لیے سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں ۔ کیاعوام نے کبھی سوچا تھا کہ انھیں بجلی اور گیس جیسی سہولیات سے بھی محرومی کا ذائقہ چکھنا پڑے گا؟ کیا عوام اپنی جان و مال کے عدم تحفظ کے موجودہ احساس سے کبھی واقف ہوئے تھے ؟ غریب کے تو یہ اثاثے بھی چھن گئے اور دوسری طرف قیادتوں کے اثاثے ہیں ، جن کا پھیلاؤ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ اس کا صرف ایک ہی علاج ہے اور یہ عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے کوئی ایسی قیادت لے آؤ ، جس نے خود غربت دیکھی ہو ۔ جس نے بھوک اور بیماری سے آنکھیں چار کی ہوں ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ جو جانتا ہو کہ ایک غریب کی خالی جیب اس کے لیے کتنا '' بھاری بوجھ '' ہوتی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔