قومی ٹیم کی مسلسل ناکامیاں کیا مسئلہ صرف سلیکشن کا ہے

ٹیم مینجمنٹ کو ڈومیسٹک پرفارمر کو عزت دینے کےعلاوہ پلیئنگ الیون کا انتخاب بھی ذاتی پسند سے ہٹ کر میرٹ پر کرنا ہوگا


کامران سرور January 06, 2021
بورڈ کو ٹیم کی سلیکشن کے علاوہ سپورٹنگ پچز بنانے پر بھی غور کرنا ہوگا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرے ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگز میں قومی ٹیم کے ٹاپ آرڈر کی ایک بار پھر ناکامی سے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس بار خبر کی ہیڈلائن ذرا ہٹ کر لی جائے۔ آفس میں موجود دوست سے مشورہ کیا کہ بتاؤ یار، اس بار کیا ہیڈلائن نکالی جائے؟ ''قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن ایک بار پھر مشکلات کا شکار'' ، ''پاکستان کی بیٹنگ لائن تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی'' ، ''قومی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی'' ، ''پاکستانی بلے باز کیوی بولرز کے آگے بے بس''۔ اس طرح کی ہیڈلائنز تو لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔ کچھ نیا بتاؤ۔

قومی ٹیم کی کارکردگی پر پہلے ہی غصے میں بھرے دوست نے جواب دیا ''بھائی! تمہارے بلے بازوں نے کچھ نئی ہیڈلائن نکالنے کا موقع ہی نہیں دینا، لہٰذا ان ہی پر گزارا کرو اور کوئی بھی لگادو۔ ویسے بھی ان خبروں سے کرکٹ بورڈ یا سلیکشن کمیٹی یا کوچز کو غیرت نہیں آنے والی۔'' میں نے کہا ''یار! قصور ہمارے بیٹسمینوں کا نہیں بلکہ نیوزی لیںڈ کرکٹ بورڈ کا ہے، کیوں کہ انہوں نے ایسی جادوئی پچ بنائی ہے جو کیویز کی باری میں اچھی ہوجاتی ہے لیکن جب ہمارے بلے باز بیٹنگ کےلیے جاتے ہیں تو انہیں گیند دکھائی ہی نہیں دیتی۔'' ساتھ بیٹھا دوست زوردار قہقہہ لگاکر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی قومی بلے بازوں کی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقا اور انگلینڈ کی پچز پر مسلسل ناکامی کے پیچھے صرف غلط سلیکشن کا کردار ہے؟

ہوم گراؤنڈ پر سری لنکا کے خلاف پاکستان کے 4 ٹاپ آرڈر بیٹسمین ایک ہی اننگز میں سنچریاں بناکر ریکارڈ تو قائم کرلیتے ہیں لیکن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی پچز پر ان بلے بازوں کا وہی حال ہوجاتا ہے جو حال آسٹریلین فاسٹ بولر جوش ہیذلووڈ اور پیٹ کمنز نے انڈیا جیسی مضبوط ٹیم کا کیا۔



قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن دورۂ انگلینڈ کے بعد نیوزی لینڈ میں بھی بری طرح ناکام رہی، خاص طور پر ٹاپ آرڈر بلے باز ایک بار پھر ان وکٹوں پر مزاحمت کرتے دکھائی دیے اور ہر بلے باز دورۂ انگلینڈ کی طرح کارکردگی میں تسلسل دکھانے کے بجائے صرف ایک اننگز میں ذمے داری کا مظاہرہ کرکے ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کے موڈ میں دکھائی دیا۔ فواد عالم نے پہلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز اور اظہر علی نے دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں اچھے کھیل کا مظاہرہ ضرور کیا، لیکن صرف ایک یا دو کھلاڑیوں کی کارکردگی سے کام نہیں چلے گا بلکہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر کھلاڑی کو بیک وقت کارکردگی دکھانا ہوگی۔ جیسے دوسرے ٹیسٹ میں کیوی کپتان کین ولیمسن نے ڈبل سنچری بنائی تو ہینری نکولس نے 157 اور ڈیرل مچل نے 102 رنز بناکر ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

پاکستانی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کی حالیہ کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو 24 ٹیسٹ میچوں میں 30 کی اوسط سے 4 سنچریاں اور 6 نصف سنچریاں اسکور کرنے والے اوپننگ بلے باز شان مسعود اگست میں انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 156 رنز بنانے کے بعد اگلی 8 اننگز میں 25 کا ہندسہ بھی عبور نہ کرسکے۔ حالیہ سیریز میں وہ نیوزی لینڈ اے کے خلاف پاکستان شاہینز کی نمائندگی کرتے ہوئے محض 8 اور 14 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں 10 رنز بنانے کے بعد اگلی تینوں اننگز میں کھاتہ کھولنے کی زحمت بھی نہیں کی جب کہ یہی شان مسعود ہوم گراؤنڈ پر بنگلادیش اور سری لنکا کے خلاف سنچریاں بناتے ہوئے دکھائی دیے۔

اس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں، کیوں کہ صرف شان مسعود ہی نہیں بلکہ ہوم گراؤنڈ پر رنز کے انبار لگانے والے اکثر بلے باز بیرون ملک بیٹنگ کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔ اب وہ چاہے ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کی بنیاد پر قومی ٹیم میں شمولیت حاصل کرنے والے عابد علی ہی کیوں نہ ہوں، جنہوں نے ون ڈے اور ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچریاں اسکور کرکے انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنے خطرناک عزائم ظاہر کیے لیکن وہ بھی انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف پچھلی 9 اننگز میں صرف ایک نصف سنچری بنا سکے۔ اسی طرح حارث سہیل بھی اس دورے میں مکمل ناکام ثابت ہوئے، انہوں نے 3 اننگز میں 3، 9 اور 1 رنز کی اننگز کھیلنے پر اکتفا کیا۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمیں صرف کراچی، لاہور اور راولپنڈی یا زیادہ سے زیادہ متحدہ عرب امارات میں میچز کا انعقاد کرتے ہوئے بیرونی ٹورز کا بائیکاٹ کرلینا چاہیے یا کرکٹ بورڈ کو ٹیم سلیکشن میں بہتری کے ساتھ ساتھ انہیں کھلاڑیوں کو اچھی کنڈیشنز میں کھلاکر اپنا معیار بڑھانے کی ضرورت ہے؟ میرے خیال میں دوسرا آپشن زیادہ بہتر رہے گا کیوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ پہلا آپشن استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بڑی مشکل سے انگلینڈ اور جنوبی افریقا کے ٹیموں نے پاکستان میں کھیلنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے۔



بہرحال پی سی بی اور ٹیم مینجمنٹ کو سنجیدگی سے بہت سے مسائل پر سر جوڑنا ہوں گے، جن میں سرفہرست ڈومیسٹک پرفارمر کو عزت دینا شامل ہے۔ پی ایس ایل یا ٹی ٹوئنٹی میچز کی بنیاد پر ٹیسٹ ٹیم بنانے کے بجائے قائداعظم ٹرافی میں کارکردگی دکھانے والوں کو (فواد عالم کی طرح پہلا ٹیسٹ 2009 میں کھلا کر دوسرا موقع 2020 میں دینے کے بجائے) تواتر سے مواقع دینا ہوں گے۔ عثمان صلاح الدین کو بھی 2018 میں ٹیسٹ کیپ دی گئی اور اس کے بعد وہ ڈومیسٹک میں مسلسل رنز بنا رہے ہیں لیکن ٹیم میں مخصوص چہروں کو ہی مواقع دیے جاتے ہیں۔



اس کے علاوہ پلیئنگ الیون کا انتخاب بھی ذاتی پسند ناپسند سے ہٹ کر میرٹ پر کرنا ہوگا۔ حالیہ دورے میں حارث سہیل کی پہلے میچ میں ناکامی کے باوجود شاندار ڈومیسٹک سیزن کھیلنے والے عمران بٹ کو موقع نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے ( جو گزشتہ سال قائداعظم ٹرافی میں 4 سنچریاں اور 3 نصف سنچریوں کے ساتھ 64 کی اوسط سے سب سے زیادہ 934 رنز بنانے والے بلے باز ہیں)۔

گزشتہ دنوں ایکسپریس نیوز کے اسپورٹس ایڈیٹر سلیم خالق نے ایک ٹوئٹ میں پاکستان کے ڈومیسٹک پرفارمر آف دی ایئر اور رواں سال ڈومیسٹک میں 37 سالہ ریکارڈ توڑنے والے کامران غلام کو جنوبی افریقا کے خلاف ہوم سیریز میں موقع دینے کی بات کی، جو کہ اچھی بات ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ صرف کامران غلام نہیں بلکہ گزشتہ کئی سال سے ڈومیسٹک میں مسلسل کارکردگی دکھانے والے تمام کھلاڑیوں کو تواتر سے مواقع دیے جانے چاہئیں۔

خیال رہے خیبر پختونخوا کے مڈل آرڈر بیٹسمین کامران غلام نے قائداعظم ٹرافی کے فائنل میں سنچری بناتے ہوئے ٹورنامنٹ کے ایک ایڈیشن میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا 37 سالہ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ اس سے قبل 84-1983 کے سیزن میں سادات علی نے ایڈیشن میں 1217 رنز بنائے تھے۔ اس کے علاوہ کامران غلام نے 5 سال بعد قائد اعظم ٹرافی کے ایک ایڈیشن میں 5 سنچریاں بنانے والے بیٹسمین کا اعزاز بھی حاصل کیا۔



کرکٹ بورڈ کو قومی ٹیم کی سلیکشن کے ساتھ ساتھ سپورٹنگ پچز بنانے پر بھی غور کرنا ہوگا اور کھلاڑیوں کو ایسی کنڈیشنز اور پچز پر کھلانا ہوگا جو انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے مطابقت رکھتی ہوں۔ اس بات کا اظہار قومی ٹیم کے سابق کپتان اور چیف سلیکٹر انضمام الحق بھی متعدد بار کرچکے ہیں۔

نیوزی لینڈ میں پاکستانی ٹیم صرف بیٹنگ میں ناکام نہیں ہوئی بلکہ بدترین بولنگ کے ساتھ ساتھ کیچ چھوڑنے کے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ لیکن کوچز کا پوسٹ مارٹم بلاگ کے اگلے حصے میں کروں گا کہ وہ کیوں بلے بازوں کی تکنیک پر کام کرنے کے بجائے سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ خاص طور پر بولرز کی ناکامی پر بولنگ کوچ وقار یونس صاحب اب تک کیوں خاموش ہیں اور کس بات کی اتنی بھاری تنخواہ وصول کررہے ہیں۔

آخر میں دورۂ نیوزی لینڈ کے حوالے سے مثبت پہلو پر بات کی جائے تو وہ نیوزی لینڈ کے خلاف کپتانی کے فرائض انجام دینے والے محمد رضوان کی کارکردگی میں تسلسل اور بطور آل راؤنڈر فہیم اشرف کی دونوں شعبوں میں اچھی کارکردگی ہے، جس میں مزید بہتری لانے کی گنجائش موجود ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔