اپنے بچوں کی خاطر بچے کم پیدا کریں
پچھلی نسل کے لوگ فخر سے بتایا کرتے کہ اللہ بخشے، ہماری ماں پندرہ بچے جَن کر بھی چاق وچوبند رہیں۔
سرکار آبادی کم کرنے کا مشورہ دینے کی کتنی بھی وجوہات پیش کرے لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ آبادی اس لیے بھی کنٹرول کرلینی چاہیے تاکہ اس قوم کے بچوں کو مزیدکنفیوژ اور پریشان ہونے سے بچایا جا سکے۔ وہ زمانہ گیا جب کسی بچے سے پوچھا جاتا تھا کہ بیٹا کتنے بہن بھائی ہو؟ تو وہ جھٹ ان کی تعداد اور فرفر نام بھی گنوا دیا کرتا تھا، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔
دوچار سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو اب بچے نہ صرف تعداد بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں بلکہ اکثر درست تعداد اوربہن بھائیوں کے نام تک بھول جاتے ہیں۔آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں غلط بیانی کررہی ہوں یا پھرکوئی افسانہ گھڑرہی ہوں تو بے شک سمجھتے رہیے، لیکن یہ سچ ہے کہ اب ان بچوں کی مادی فلاح کے لیے نہیں توکم ازکم ذہنی بہبود کے لیے ہی سہی لیکن بڑھتی ہوئی آبادی پر بند باندھنا ہی ہوگا۔
پچھلی نسل کے لوگ فخر سے بتایا کرتے کہ اللہ بخشے، ہماری ماں پندرہ بچے جَن کر بھی چاق وچوبند رہیں، چلتے ہاتھ پیروں اللہ کو پیاری ہوئیں، لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ بڑے کنبے والے بچے جب تعداد بتاتے ہیں تو ان کی نظریں جھک جاتی ہیں اور پھرتی اور مہارت سے موضوع کو ٹال بھی دیتے ہیں۔ یہ تو مان لیجیے کہ یہ بچے چاہے شہروں کے ہوں یا دیہات کے پچھلوں سے زیادہ شاطر ہیں۔ بچوں کو شاطر یا میری نظر میں سمجھ دارکرنے میں معاشرے کے کسی بھی ادارے کا ہاتھ ہو اب اس کوکوسنے کا کوئی فائدہ نہیں،کیونکہ آپ کے کوسنے پیٹنے سے نہ تو ان تک پہنچنے والی اطلاعات کا تیزترین بہاؤ رکے گا اور نہ معلومات کا دریا کبھی سوکھے گا۔
اس تحریرکو لکھنے کی وجہ تواتر سے ہونے والے چند واقعات بنے۔ ان میں سے ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل پیش آیا جب میں ایک اسکول سے بہ طور پرنسپل وابستہ تھی۔ ایک بچی میرے پاس اسکول میں داخلے کے لیے آئی۔ آٹھویں کلاس کی یہ بچی چہرے اور باتوں دونوں سے بہت ذہین لگی۔ داخلے کی رسمی کارروائی مکمل کرنے کے لیے فارم بھرتے ہوئے میں اس سے سوالات کرتی رہی اور وہ بڑے اعتماد سے جواب دیتی رہی۔ لیکن ایک سوال پرآکر وہ اٹک گئی۔ جواب نہ پاکر میں نے سر اٹھایا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ انگلیوں پر حساب کتاب کرنے میں مصروف تھی۔
میں بے ساختہ مسکرا اٹھی۔ اس سے ایسا کون سا مشکل سوال کرلیا تھا، بہن بھائیوں کی تعداد ہی تو پوچھی تھی۔کیا آپ یقین کریں گے اس نے دوبارحساب لگا کر بھی تعداد غلط بتائی۔ پھر ساتھ آنے والی رشتے دار خاتون کے ساتھ مل کر ایک ایک بھائی بہن کا نام لے لے کر گنتی کی اور پھر جھینپتے ہوئے بتایا کہ ہم بارہ بہن بھائی ہیں۔ ایک اور خاتون بچی کا داخلہ کروانے اسکول آئیں تو ان کے ساتھ بچوں کی لمبی قطار اندر داخل ہوئی، عورت کا حال مزید ایک اور جان کے دنیا میں آنے کی خبر دے رہا تھا۔
موصوفہ نے بڑے اعتماد سے کہا کہ اسکول پڑھانے کی ان کی توکوئی خواہش نہیں وہ تو بس بچی کے رونے دھونے پر داخلہ کروانے آ گئی ہیں، لہٰذا بچی کو روز اسکول نہیں بھیجیں گی، بس ہفتے میں ایک آدھ بار ہی وہ اسکول کا دروازہ دیکھے گی۔ وجہ پوچھی تو پتا چلاکہ وہ بچی گھرکے کاموں میں اور دیگر بہن بھائیوں کو پالنے میں ماں کے ساتھ گھر میں جُتی رہتی ہے۔ روز اسکول آئی تو بھلا گھر اور بچے اکیلی ماں کیسے سنبھالے گی۔ بچی ایک کرسی پر ساکت بیٹھی ماں کا رونا گانا سن رہی تھی۔
مزے کی بات، یہ معاملہ صرف ان پڑھ گھرانوں کا نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور باشعورگھرانوں میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد پیدا ہوئے بچوں سے زیادہ، نہ پیدا ہوئے بچوں کو دنیا میں لانے کی فکر میں گُھلی جاتی ہے۔ بے شمار ایسے تعلیم یافتہ لوگ بھی نظر آتے ہیں، جن کے خیال میں ان کا زیادہ بچے پیدا کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ ان کے سب بھائیوں کے بچے زیادہ ہیں۔ بعض لوگ تو بچوں کی تعداد کے معاملے میں اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلنا باعثِ ثواب سمجھتے ہیں۔
اوپر تلے بچے پیدا کرنے کے ان سارے بھونڈے جوازوں کی آڑ میں معصوم بچوں کو دنیا میں لاکر رولنے کا وتیرہ عام ہے۔ ایسے میں ان کی اچھی تعلیم، تربیت، علاج معالجے اور صحت مند خوراک کی فراہمی کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن ان والدین کے لیے یہی کافی ہے کہ بچوں کی تعداد بتاتے ہوئے چھاتی چوڑی کی جائے۔ خدا لگتی کہوں تو اس بڑھتی آبادی سے اب سب سے زیادہ نقصان انھی بچوں کا ہورہا ہے۔ اندھادھند بچے دنیا میں لاکر ریاست اور قومی وسائل پر تو بوجھ بڑھایا ہی جارہا تھا، اب بچوں پر بھی ذہنی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔
پھر بھی یہ قوم اپنا قبلہ بدلنے کو تیار نہیں۔ وہ بچے جو سائنس، ریاضی اور جغرافیے میں معلومات کا پنڈورا باکس کھول دیتے ہیں، ان کی زبان اپنے گھر اورخاندان کی آبادی پر آکر خاموش ہو جاتی ہے۔ مان لیں کہ اب یہ بچے مزید بے وقوف بننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ زیادہ بہن بھائی ہوں تو ہر ایک کے حصے میں روٹی بھی کم آتی ہے اور پیار بھی۔ رہ گئیں سینے میں دبی ننھی ننھی خواہشیں، وہ تو اکثر تکمیل کا راستہ دیکھ ہی نہیں پاتیں، جوان ہونے سے پہلے ہی گھٹ کر مرجاتی ہیں۔
حیرت انگیز امر ہے کہ غریب اور پسماندہ لوگوں کے بچے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بچے غربت کے باعث انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ نہ انھیں اچھا کھانے کو ملتا ہے نہ اچھے کپڑے پہننے کو۔ تعلیم تو یہ حاصل ہی نہیں کر پاتے اور ساری زندگی تکلیفیں اور مشقتیں سہتے رہتے ہیں۔
میں اس وقت جس گوٹھ کے اسکول میں ہوں وہاں تقریباً ہر گھر میں بچوں کی لمبی لائن لگی ہے۔ یہ بچے ننگے پاؤں اور اکثر ننگے بدن گھر سے باہر سڑکوں کی دھول چاٹ رہے ہوتے ہیں۔ میرے اب تک کے مشاہدے کے مطابق یہ بچے دھڑادھڑ اس لیے پیدا کیے جارہے ہیں کہ ذرا قد نکالتے ہی والدین کی بیساکھی بن سکیں، جتنے زیادہ بچے اتنی زیادہ بیساکھیاں۔ لیکن ان کو بدلے میں کیا ملتا ہے؟ شاید محبت کے چند بول بھی نہیں۔
محبت کی اس بھوک کو مٹانے کے لیے ان میں سے اکثر بچے گلی کے آوارہ کتوں اور ان کے پلوں کے ساتھ یوں لپٹے رہتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر اس سماج سے ہونے والی وحشت نفرت میں بدل جاتی ہے۔ اس وحشت اور نفرت کو سماج سے دورکریں۔ خدارا اپنے بچوں کی خاطر بچے کم پیدا کریں۔