65 سال بعد بھی شناخت کی تلاش

پاکستان ابھی تک ایک ایسے بچے کی مانند اپنی شناخت ڈھونڈھ رہا ہے جو اپنی جوانی کے دور میں قدم رکھ رہا ہو؟


Babar Ayaz September 08, 2012
[email protected]

اپنی عمر کے 65 سال پورے کر لینے کے باوجود پاکستان کو ابھی تک اپنی شناخت کے بارے میں یقین نہیں ہے۔

البتہ یہ اچھی بات ہے کہ شناخت کے بارے میں بحث جاری ہے۔ پاکستان کے عوام اور قائدین دونوں اس بارے میں واضح سوچ سے عاری ہیں کہ آیا پاکستان ''اسلامی ریاست'' ہے یا اسے ایک سیکولر اسلامی ریاست ہونا چاہیے۔ ایک تیسرا مضبوط پہلو بھی اپنا وجود رکھتا ہے جو اول الذکر دونوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ یہ دو نکتہ ہائے نظر کبھی یکجا نہیں ہوسکتے یعنی اسلامی ریاست، اسلامی قوانین کے ساتھ اور جمہوری ریاست،21ویں صدی کے معاشرے کے قوانین اور اقدار کے ساتھ۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان ابھی تک ایک ایسے بچے کی مانند اپنی شناخت ڈھونڈھ رہا ہے جو اپنی جوانی کے دور میں قدم رکھ رہا ہو؟ اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا اور تشکیل پاکستان کا عمل دیکھنا ہوگا۔ مسلم لیگ کی تحریک کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جدوجہد مسلم اکثریتی صوبوں کی اشرافیہ کے لیے زیادہ سے زیادہ خودمختاری حاصل کرنے کے لیے تھی۔ ہندوستان کے ڈھانچے کے اندر ابتدا میں ایک طرف مسلم ملازمت پیشہ افراد اور جاگیر دار طبقہ اور دوسری طرف بڑھتے ہوئے ہندو بورژوا کے درمیان جو کشمکش شروع ہوئی تھی وہ بڑھتے بڑھتے بالآخر فرقہ وارانہ بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم پر ختم ہوئی۔

1937 کے انتخابات فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے، جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جذبات ابھارنے والے مذہبی پروپیگنڈے کو 'اصل مقصد' یعنی مسلم اکثریتی علاقوں پر حکمرانی کے لیے ' ہتھکنڈوں' کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ ' ہتھکنڈے' بہت زیادہ طاقت ور ہوگئے ہیں اور اب پاکستان کو آہستہ آہستہ اور کرب ناک طریقے سے ختم کررہے ہیں۔ آج کا پاکستان اس کے اپنے مذہبی پروپیگنڈے کے جال میں پھنس کر رہ گیا ہے۔تمام تر تاریخی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے برصغیر میں رہ رہے تھے اور اسلامی تقاضوں کے مطابق اپنے مذہبی فرائض انجام دے رہے تھے۔

ہندوستانی وفاق کے اندر مسلم اکثریتی ریاستوں کی خود مختاری کا معاملہ 20 ویں صدی کے شروع میں اس وقت اٹھایا گیا جب یہ بات محسوس کی گئی کہ برطانیہ بعض اختیارات ہندوستان کے عوام کو سونپنا چاہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی جس کا اصرار ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے سیاسی حقوق پر تھا، اس کا مطالبہ اسلامی قوانین نافذ کرنا نہیں تھا۔ نواب سلیم اﷲ اسکیم سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ انھوں نے برطانیہ کو جو چارٹر پیش کیا تھا اس میں اسلام اور اس کے سماجی نظام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اب جناح کے 1929 کے ان 14 نکات پر بھی ایک نظر ڈالیے جن میں مسلمانوں کے مطالبات پیش کیے گئے تھے۔

صرف پوائنٹ12 میں اسلامی قوانین کا ذکر تھا، دیگر تمام نکات کا تعلق سیاسی حقوق سے تھا۔جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 نافذ کیا گیا اس وقت بھی اسلام اور شریعت سب سے اہم معاملہ نہیں تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1937 کے الیکشن میں بُری طرح شکست کھانے کے بعد اپنے طور طریقے تبدیل کیے۔ انھوں نے مغربی طرز کے سوٹ کے بجائے جو اُن کا معمول کا لباس تھا شیروانی اور قراقلی ٹوپی پہن کر خود کو مسلمانوں کی علامت کے طور پر شناخت کرانا شروع کیا اور یہی وہ وقت تھا جب مسلم لیگ نے علما اور پیروںکی حمایت حاصل کرنا شروع کی۔

David Gilmartin (1989) نے اس اہم کردار کو دستاویز کی شکل میں مرتب کیا ہے جو پنجاب کے بعض اہم پیروں نے پاکستان کے تصور کو عام کرنے میں ادا کیا تھا۔ مرکزی دیوبند قیادت کانگریس کی طرف مائل تھی ، صورت حال اس وقت یکسر بدل گئی جب پنجاب، صوبہ سرحد اور سندھ کے بریلوی علما مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔آج جو کچھ بھی کہا سُنا جا رہا ہے اس کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ زیادہ تر بحث 'دو قومی نظریے' اور اسلامی نظریے کے ڈھانچے اور ان حدود کے اندر ہورہی ہے جو قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے طے کی تھیں۔

لبرل خیالات رکھنے والے بہت سے لوگ ' جناح کے پاکستان' کی تلاش میں زیادہ تر انحصار ان کی 11 اگست 1947 کی تقریر اور غیر ملکی میڈیا کو ان کے انٹرویوز پر کرتے ہیں جن میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان نظریاتی ریاست نہیں ہوگا یا یہ کہ اس ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ مگر جناح صاحب نے کئی بار مختلف اجتماعات سے خطاب کے دوران مختلف متضاد پیغامات دیے۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ کے سامنے ان کا واضح پیغام یہ ہوتا تھا کہ پاکستان 'نظریاتی ریاست' نہیں ہوگا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی بنیاد مذہبی اقدار پر نہیں ہو گی۔ علما کے سامنے وہ کہتے تھے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں اسلام اور شرعی قوانین کا اطلاق ہوگا۔

ان کی11 اگست کی تقریر میں یہ ذکر موجود نہیں ہے کہ پاکستان میں مذہب سے قطع نظر تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے جو سیکولر جمہوریت قائم کرنے کی ایک ناگزیر شرط ہے۔ فرقہ واریت کی برطانوی تاریخ کا حوالہ سیکولر حل کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔ در حقیقت یہ تقریر پاکستان کی آزادی سے صرف تین دن قبل ایک اہم پلیٹ فارم سے اور مضبوط پوزیشن سے کی گئی تھی۔ اُس وقت انھیں پیروں اور علما کی حمایت کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ 'مقصد' کے حصول کے ساتھ ہی، جو کہ پاکستان تھا عوام کی حمایت فراہم کرنے کے لیے ان کا کردار ختم ہوچکا تھا۔

یہ علامہ اقبال کے اس فلسفے کی نفی تھی کہ 'جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'۔ مگر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1951 میں اپنی تقریر میں اسلامی ایجنڈے کی تشریح اس طرح کی ''پاکستان بر صغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش کے نتیجے میں قائم ہوا کہ بے شک چھوٹا سہی مگر اپنے لیے ایک ایسا آزاد وطن حاصل کریںجہاں اسلامی نظریے اور طرز زندگی پر عمل کر کے دنیا کو دکھایا جا سکے۔اس نظریے کا ایک ناگزیر پہلو اسلامی بھائی چارے کو زندہ حقیقت بنانا ہے۔'' وہ مذہبی رہنمائوں کے دبائو کے سامنے جھک گئے اور قرارداد ِ مقاصدکو قبول کرلیا۔

پاکستان بنانے والے لیڈراس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ لوگوں کو اسلام کے نام پر اکسانے کے بعد واپس سیکولر سوچ کی طرف جانا آسان نہیں ہوگا۔ یہ تنگ نظری یا معاشرے میں سیاسی یا سماجی عمل کو سمجھنے کے فقدان کا بین ثبوت تھا۔ سیکولرازم کی طرف جھکائو رکھنے والے جس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ 11 اگست 1947 کو جناح صاحب کی صرف ایک تقریر اس مذہبی جوش و خروش کو ختم نہیں کر سکتی جو 1937-47 کے دس برسوں کے دوران اسلامی نظام کے حق میں بیانات سے پیدا ہوا تھا۔

اس تقریر کے بعد سے آج تک جو بحث ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ 'اسلام کے وہ ناگزیر اصول' کیا ہیں جن کا ذکر قائد اعظم نے کراچی بار سے اپنے خطاب میں کیا تھا؟ اسلامی اصولوں کا فیصلہ کون کرے گا.. پارلیمنٹ، علما یا مذہبی جماعتیں؟ یا یہ سپریم کورٹ کا خصوصی اختیار ہے کہ وہ اسلامی قوانین کی تشریح کرے جن میں سے زیادہ تر ضیا کی فوجی حکومت نے آئین میں شامل کیے تھے؟

پاکستان میں مذہبی جنون پر اصرار نے پاکستان کی خارجی اور داخلی سلامتی کے لیے خطرناک مسائل پیدا کردیے ہیں۔ اس پالیسی کے فطری اثرات ملک کی سیاست میں مذہبی انتہا پسندوںکو مزید گنجائش اور من مانی کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور 'بھارتی خطرے' کے مفروضے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت بڑی فوج بنانے کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔سرکاری حمایت یافتہ اس کہانی کی وجہ سے پاکستان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہونے لگا۔ ہندوستانی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خودمختاری کا خالصتاً سیکولر مقصد مذہبی پروپیگنڈے میںنظروں سے اوجھل ہوگیا۔ 'مقصد' سیاسی اور سماجی ارتقا کے عمل میں 'ہتھکنڈوں' کا جواز پیش کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہ 'ہتھکنڈے' ایک اور 'مقصد' کی طرف دھکیلنے لگتے ہیںآج پاکستان میں بالکل ایسے ہی ہورہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں