جسمانی معذوردوسروں کا سہارا ایوب نے خصوصی افراد کو 25 اسپورٹس ویل چیئرزفراہم کیں

ڈیڑھ سال کی عمرمیں پولیوکاشکارہونیوالے ایوب نے معذوری کوکمزوری بنانے کے بجائے کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیناشروع کیا


Kashif Hussain November 30, 2020
درآمدی ویل چیئرز مہنگی ہونے پر6 سال قبل اپنے لیے اسپورٹس ویل چیئر بنوائی ان کیلیے کرکٹ کھیلنا آسان ہوگیا

کورنگی کے رہائشی 38 سالہ محمد ایوب خان ڈیڑھ سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہوگئے۔

عمر بھر کی معذوری ان کی ہمت اور حوصلے کو کمزور نہ کرسکتی محمد ایوب نے بچپن میں اپنی معذوری کو کمزوری بنانے کے بجائے کھیلوں کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور کم عمری سے کرکٹ کھیلنے لگے وقت گزرنے کے ساتھ دیگر کھیلوں میں بھی دلچسپی بڑھتی گئی اور انھوں نے اپنی صلاحیتوں اور ہمت کو منوانے کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لینا شروع کردیا، محمد ایوب خان کے مطابق اسپیشل افراد بالخصوص ٹانگوں کی معذوری کا شکار افراد ویل چیئر پر بیٹھ کر کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن یہ درآمدی ویل چیئرز بہت مہنگے ہوتے ہیں۔

محمد ایوب نے 6 سال قبل اپنے لیے ایک اسپورٹ ویل چیئر بنائی جس کے ذریعے ان کے لیے کرکٹ کھیلنا آسان ہوگیا، ویل چیئر مکمل طور پر محمد ایوب نے خود ڈیزائن کی اور کاریگروں کی مدد سے اسے تیار کرایا، محمد ایوب نے مقامی سطح پر خصوصی افراد کے لیے اسپورٹس ویل چیئر ز مہیا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اب تک 25 ویل چیئر ز بناچکے ہیں جن میں کرکٹ کے علاوہ باسکٹ بال اور ٹینس کھیلنے کے لیے خصوصی افراد کی ویل چیئرز بھی شامل ہیں۔

ہماری ویل چیئر درآمدی ویل چیئر کے مقابلے میں کافی بہتر ہوتی ہیں
محمد ایوب خان کہتے ہیں کہ خصوصی افراد میں بے پناہ صلاحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں بالخصوص اسپورٹس کے میدان میں اسپیشل افراد ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں اسپیشل افراد کے لیے ویل چیئرز کی مقامی سطح پر سستے داموں دستیابی سے اس ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی، محمد ایوب کے مطابق ان کی تیار کردہ ویل چیئرز درآمدی ویل چیئرز کے مقابلے میں کافی بہتر ہوتی ہیں لیکن ان کا وزن درآمدی ویل چیئرز سے 7 کلو زیادہ ہوتا ہے ویل چیئر کا جتنا وزن کم ہوگا۔

اتنی تیزی سے اسے حرکت دی جاسکے گی اور کھلاڑی کے بازئوں پر کم زور پڑے گا اسی طرح پہیوں میں نصب بیرنگ کے معیار پر بھی ویل چیئرزکی کارکردگی کا بڑا انحصار ہے درآمدی ویل چیئرز خصوصی میٹریل سے بنی ہوتی ہیں جو وزن میں ہلکی اور پائیدار ہوتی ہیں اسی طرح درآمدی ویل چیئرز کے پہیے ایک بٹن پریس کرنے سے الگ ہوجاتے ہیں اس طرح ویل چیئرز کے پہیے تبدیل کرنا آسان ہوتا ہے مقامی سطح پر پہیوں کو نٹ بولٹ سے جوڑا جاتا ہے، محمدایوب کے مطابق ان کے پاس وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ مقامی سطح پر عام طور پر دستیاب میٹریل استعمال کرتے ہیں اگر ان کی سرپرستی کی جائے اور وسائل ہوں تو عالمی معیار کی اسپورٹس ویل چیئرز پاکستان میں تیار کرسکتے ہیں جو دنیا بھر میں اسپیشل افراد کے لیے بھی ایکسپورٹ کی جاسکتی ہیں۔

ویل چیئر بنانے کا تمام کام ماہرکاریگروں سے کراتا ہوں
محمد ایوب کہتے ہیں کہ ایک اسپورٹس ویل چیئر بنانے میں ہفتہ سے دس روز لگتے ہیں اس کام میں ان کے چھوٹے بھائی ان کی مدد کرتے ہیں اور تمام کام ماہر کاریگروں سے کراتے ہیں پہلے مرحلے میں ڈیزائن کے مطابق پائپ بینڈ ہوتے ہیں اس کے بعد ویلڈنگ کا مرحلہ آتا ہے اور پھر پہیے لگائے جاتے ہیں اور کشن اور سیٹ فکس کی جاتی ہے اس کے بعد ویل چیئرز کے ڈھانچے کو رنگ کے لیے بھیجا جاتاہے اور حتمی مرحلے میں اسمبل کردیا جاتا ہے۔

پاکستان کے خصوصی کھلاڑیوں میں کھیلوں کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے
محمد خالد رحمانی نے کہا کہ پاکستان کے خصوصی افراد میں کھیلوں کا بے پناہ پوٹینشل ہے محمد ایوب اس کی مثال ہیں اور ایسے افراد کو دیکھتے ہوئے اب ان کے ادارے نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ پاکستان کے خصوصی افراد کی ٹیموں کو کامن ویلتھ اور ایشین گیمز کے مقابلوں میں بھیجا جائے تاکہ پاکستان کانام روشن کرسکیں۔

لاہوراورملتان میں تجارتی پیمانے پراس طرزکی ویل چیئربنائی جانے لگیں
محمد ایوب نے بتایا کہ وہ پاکستان میں پہلے اسپیشل پرسن ہیں جس نے اپنے اور دیگر معذور افراد کے لیے اسپورٹس ویل چیئرز تیار کیں اور اس کے بعد لاہور اور ملتان میں تجارتی پیمانے پر اس طرز کی ویل چیئرز تیار کی جارہی ہیں، محمد ایوب اسپیشل افراد کے لیے اسپورٹس ویل چیئرز کی تیاری کو آمدن کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتے اور ایسے تمام اسپیشل افراد جن کی قوت خرید کم ہو بلامنافع ویل چیئرز بناکر دینے کے لیے تیار ہیں۔

خصوصی افراد کے انگنت مسائل میں روزگارپہلا مسئلہ ہے
معاشرے میں خصوصی افراد کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں روزگار کا حصول سرفہرست ہے جس کے لیے انھیں بھی بہت کوششیں کرنا پڑیں اور 2009 میں انھیں کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن میں ٹیلی فون آپریٹر کی نوکری مل گئی جس سے ان کے مالی مسائل بہت کم ہوگئے اور انھیں کھیلوں کی سرگرمیوں میں زیادہ سرگرمی سے حصہ لینے کا موقع ملا اور اب وہ ہفتہ اور اتوار کا روز کھیلوں کی سرگرمیوں کو دیتے ہیں ، یہ بات محمد ایوب نے گفتگو میں بتائی۔

انھوں نے کہا کہ وہ مختلف ٹورنامنٹس میں کراچی سے اسپیشل افراد کی نمائندگی کرچکے ہیں اور کرکٹ اور باسکٹ بال کے خصوصی افراد کے ٹورنامنٹس میں ان کو شہرت حاصل ہے اور اب وہ 4 سال سے ٹینس کے کھیل میں دلچسپی لے رہے ہیں جس کی باقاعدہ تربیت اور پریکٹس پی ای سی ایچ ایس کے یونین کلب میں کوچز کے زیر نگرانی کرتے ہیں۔

محمد ایوب کے مطابق پاکستان میں معذوری کاشکار پچاس فیصد افراد کھیلوں کی طرف راغب ہوتے ہیں ناکافی سہولتوں اور خود اسپیشل افراد کے اہل خانہ کی جانب سے سپورٹ اور حوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ سے زیادہ تر اسپیشل افراد اپنی صلاحیتوں کو پہچان نہیں پاتے اور گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں۔

محمد ایوب کہتے ہیں کہ جب میں نے کھیل کا آغاز کیا تو خود سے سوال پوچھتا تھا کہ آیا میں یہ کر بھی پاؤں گا یا نہیں اور جب کوچز کی مدد اور تعاون سے کھیلنے لگا تو پھر اپنے آپ کو منوانے اور دیگر معذور افراد کے لیے مثال بننے کی کوشش کرتا ہوں انھوں نے اسپیشل بچوں اور نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ ان اسپیشل نوجوانوں کو دیکھیں جو معذوری کے باوجود کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

اسپورٹس ویل چیئرخود بنوائی اوربہترکارکردگی بھی دکھائی

محمد ایوب خان کے مطابق انھوں نے 2014 میں خود اپنے لیے اسپورٹس ویل چیئر بنائی اور مختلف ٹورنامنٹس میں اس پر بیٹھ کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انھیں اپنی بنائی ویل چیئر پر کھیلنے میں زیادہ لطف آیا، پہلی ویل چیئر بنانے میں 15سے 20 روز لگے اس پر 7ہزار روپے کی لاگت آئی تھی۔ محمد ایوب خان کے مطابق امپورٹ کی گئی ویل چیئر کی قیمت اس وقت ایک لاکھ سے اوپر ہے لیکن پاکستان میں اسپیشل افراد کے لیے بہترین اسپورٹس ویل چیئر زیادہ سے زیادہ 30ہزار روپے میں تیار کی جاسکتی ہے۔

محمد ایوب خان اب تک سندھ کے شہر گھوٹکی کے خصوصی افراد کے لیے 15ویل چیئرز اور دیگر اداروں کے لیے7 ویل چیئرز بناچکے ہیں حال ہی میں یونین کلب کے لیے بھی انھوں نے خصوصی افراد کی ٹینس کی ویل چیئر تیار کی ہیں جو کارکردگی کے لحاظ سے بہترین ہیں، محمد ایوب کے مطابق ہر کھیل کے لیے الگ الگ ڈیزائن کی ویل چیئر بنائی جاتی ہے، محمد ایوب کے مطابق وہ معذور افراد کے لیے بلامنافع ویل چیئر بناکر دینے کے لیے تیار ہیں اس وقت بھی دو مزید ویل چیئر ز بنارہے ہیں جو اگلے ہفتہ مکمل کرلی جائیں گی۔

ایوب نے اسپیشل کھلاڑیوںکی مشکل آسان کردی،خالد رحمانی
پاکستان ٹینس فیڈریشن کے وائس چیئرمین اور خصوصی افراد میں کھیلوں کے فروغ کے لیے سرگرم پیرا اسپورٹس پاکستان کے صدر محمد خالد رحمانی نے محمد ایوب خان کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ محمد ایوب نہ صرف خود ایک باہمت کھلاڑی ہیں بلکہ وہ دوسرے اسپیشل افراد کی مشکلات آسان کرنے اور انھیں کھیلوں کی جانب راغب کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

محمد خالد رحمانی نے بتایا کہ اسپیشل بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد مختلف کھیلوں بالخصوص ٹینس کی جانب راغب ہورہی ہے لیکن ان کے لیے خصوصی ویل چیئرز کی ضرورت پڑتی ہے جو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں اس وقت 75ہزار روپے والی درآمدی اسپورٹس ویل چیئر کی قیمت سوا لاکھ روپے سے تجاوز کرچکی ہے انھوں نے بتایا کہ ٹینس کے خصوصی کھلاڑیوں کے لیے 2018 میں خصوصی ویل چیئرز چین سے درآمد کی گئیں اور مزید بھی درآمد کی جارہی ہیں لیکن پریکٹس کے لیے ہمیں زیادہ ویل چیئرز کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ روزگار میں مصروف اسپیشل افراد ہفتہ اتوار کے روز ہی کھیلوں کی سرگرمیوں یا تربیت میں حصہ لے سکتے ہیں اس لیے محمد ایوب سے ٹینس کے لیے ایک خصوصی ویل چیئر تیار کرائی ہے۔

جس پر محمد ایوب خود بھی پریکٹس کرتے ہیں اور دیگر خصوصی افراد کے لیے بھی استعمال میں آتی ہے ایک خصوصی ویل چیئر ایک کمرشل کمپنی سے بھی بنوائی جارہی ہے اور محمد ایوب اور اس کمپنی کی ویل چیئر میں سے جو سب سے زیادہ مناسب ہوگی اس طرز کی مزید ویل چیئرز بھی بنوائی جائیں گی تاکہ خصوصی بچوں اور نوجوانوں کو ٹینس کی تربیت فراہم کی جاسکے، انھوں نے کہا کہ ٹورنامنٹ میں درآمدی ویل چیئرز ہی استعمال کی جاتی ہیں لیکن پریکٹس کے لیے مقامی سطح پر تیار ویل چیئرز کارآمد ہوں گی اور کھلاڑیوں کو انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور زیادہ کھلاڑی پریکٹس کرسکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں