پاکستان کا مقدمہ اور بیرسٹر محمد علی جناح

محمد علی جناح کو اتنا توپختہ یقین اور اعتبار پہلے بھی تھا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ ہندوؤں سے جدا قوم ہیں۔


مسلمانوں کا عظیم قائد اپنے حریفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ فوٹو: فائل

آزادی انسان کا بنیادی حق بھی ہے اور فطری ضرورت بھی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے۔

ہمارے عظیم قائد کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایک غلام قوم کو غاصب انگریزوں سے آزادی دِلائی بلکہ ان کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ملک بھی قائم کرکے دِکھایا۔ لیکن اس کٹھن اور مشکل کام کے لیے انہیں کتنی محنت اور کوشش کرنی پڑی، یہ ایک طویل داستان ہے، ہم یہاں اس عظیم قائد اور نجات دہندہ کی صرف چند خوبیوں کا تذکرہ کریں گے، جن کی وجہ سے ایک ناممکن کام ممکن ہوسکا اور دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت وجود میں آسکی۔

جب مسلمانوں نے خود کو ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہونے کا دعویٰ کیا اور ان کا ارادہ یہ ہوچلا کہ وہ اپنے لیے ایک الگ وطن بنائیں گے، تو اس دعوے کے ثابت کرنے اور اس مقدمے کو لڑنے اور جیتنے کے لیے انہیں ایک قابل اور جرأت مند وکیل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایک الگ وطن کا قیام کوئی آسان کام نہیں تھا، کیوں کہ اس کی راہ میں ہندو اور انگریز دونوں ایک بڑی رُکاوٹ تھے۔ خصوصاً ہندو تو کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ وطن قائم ہو۔ گویا یہ ایک مقدمہ تھا جو برطانوی حکم رانوں کی عدالت میں اس وقت پیش تھا اور ممکن تھا کہ اگر ذرا بھی کمزوری دِکھائی جاتی تو انگریز ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دے دیتا یعنی ہندوستان کو آزادی دے کر یہاں سے چلا جاتا۔ چناں چہ مقدمہ خواہ کتنا ہی پختہ ہو لیکن وکیل اگر کمزور ہو تو اچھے سے اچھا مقدمہ بھی شکست سے دوچار ہوجاتا ہے۔ پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لیے جس وکیل کا انتخاب کیا گیا، وہ بیرسٹر محمد علی جناح تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے اس مقدمے کو لڑنے کے لیے کیا اور کیسے تیاری کی؟



محمد علی جناح کو اتنا تو پختہ یقین اور اعتبار پہلے بھی تھا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ دُرست ہے کہ وہ ہندوؤں سے جُدا قوم ہیں۔ ایک قابل اور ہوشیار وکیل کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کا مقدمہ لڑنے سے پہلے وہ دلائل اور ثبوت جمع کیے جو اس مقدمے کے لیے ضروری تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے اس دین و عقیدے کا مطالعہ کیا جس سے وہ خود بھی اس وقت تک بے بہرہ تھے۔ پھر پیغمبرِ اسلامؐ کی حیاتِ مبارکہ کا جائزہ لیا اور پھر جب وہ ان علوم کی سیر کرکے لوٹے تو جناح سے قائدِاعظم بن چکے تھے۔انہیں حیرت بھی تھی اور افسوس بھی کہ جس قوم کے پاس ایسا مکمل ضابطۂ حیات اور اتنے عظیم الشان پیغمبر کی بے مثال زندگی کا نمونہ موجود ہو اور جو ایک شان دار ماضی اور عظیم تاریخی ورثہ رکھتی ہو، وہ غلامی کی ذلت میں کیوں کر پڑی ہے! اس کا جواب بہت آسان تھا، جو انہیں ان کے اندر سے ہی مل گیا۔ اس ذلّت و خواری کا سبب یہی ہے کہ مسلمانوں نے اس دولت ہی کو گنوا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ دُنیا میں سرخ رو ہوئے تھے اور اب خود ہی کھوٹے سکّے کی طرح اس دُنیا میں بے وقعت ہو کر رہ گئے تھے۔

لیکن قائد نے اس گم شدہ خزانے کا سراغ لگا لیا تھا۔ انگریزوں کے چند پٹھوؤں کے سوا، اکثر مسلمانوں نے انگریزی حکومت کو دِل سے کبھی قبول نہیں کیا تھا اور خلافت کمیٹی جیسی تحریکوں کے ذریعے اپنی ناراضگی، ناپسندیدگی اور ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے رہے تھے۔ مسلمان بیدار ہوچکے تھے، مسلم لیگ کے جھنڈے تلے، قائد اعظمؒ کی قیادت میں اتفاق و اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کررہے تھے۔ اب ان کی زبانوں پر آزادی کا نعرہ ہی نہیں، اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ بھی تھا۔

مسلمانوں کا عظیم قائد اپنے حریفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کا مقدمہ لڑ رہا تھا، مسلمانوں کو ایک الگ اور منفرد قوم ثابت کرنے کے لیے اب اس کے پاس دلائل اور ثبوت کی کمی نہیں تھی۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور اﷲ کے رسولؐ کی مبارک زندگی اس کے سامنے تھی، مطالبۂ پاکستان کے حق میں ان کا یہی ایک تاریخی جملہ کافی تھا: ''پاکستان تو اس وقت ہی معرض وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔''

لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کی ناقابلِ تردید اور جرأت مندانہ بات کون کہہ سکتا ہے؟ یہ اسی لیڈر کا شیوہ ہوسکتا ہے جو اپنے دین و عقیدے سے آگاہ اپنے پیغمبرؐ کی زندگی سے واقف اور اپنی تاریخ کا مطالعہ رکھتا ہو، ورنہ تو:

قائد بھی ہر اک قائد اعظم نہیں ہوتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں