پردیسی پرندوں کا قتل عام
سردی کا موسم شروع ہوتے ہی سائبیریا، یورپ سے خوبصورت پرندے ان ممالک کی طرف کوچ کرتے ہیں جہاں پر ٹھنڈ کم ہوتی ہے
اس دنیا میں جتنے بھی جیوت ہیں انھیں خوراک کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی آگے بڑھ نہیں سکتی، اس لیے جب خوراک کی کمی زیادہ ہوجائے تو انسان ہو جانور یا پھر پرندے، سب ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں اور اس میں موسموں کا بڑا اہم رول ہے۔ سردی کا موسم شروع ہوتے ہی سائبیریا، یورپ اور کئی ایسے علاقوں سے خوبصورت پرندے ان ممالک کی طرف کوچ کرتے ہیں جہاں پر ٹھنڈ کم ہوتی ہے اور انھیں آسانی سے پانی اور خوراک مل جاتی ہے، جس میں ہمارا پاکستان بھی شامل ہے۔ ہزاروں کلومیٹرز کی مسافتیں طے کرکے وہ اکتوبر کے مہینے سے سندھ، پنجاب بلوچستان کی جھیلوں اور آبی جگہوں پر پہنچتے ہیں اور پھر مارچ کے مہینے سے یہاں سے واپسی کی تیاری کرتے ہیں۔
یہ پرندے سندھ میں منچھر جھیل، ہالیجی جھیل، کینجھر جھیل کے علاوہ تھر کے ریگستان میں، سندھ کے پہاڑی علاقوں اور سمندر کے کوسٹل ایریا میں آتے ہیں، جہاں پر انھیں وافر مقدار میں خوراک ملتی ہے۔ یہ پردیسی پرندے جب اپنا گھر چھوڑ کر ہمارے دیس میں کچھ مہینے کے لیے آتے ہیں تو وہ ہمارے میدانوں، پانی والے علاقوں اور پہاڑی علاقوں کو اپنی موجودگی سے بے حد خوبصورت بنادیتے ہیں۔ رات کی خاموشی میں ان کی آوازیں ہمارے کانوں میں ایک رس گھولنے والی دھن مہیا کرتی ہیں جس سے ہمارا دل اور کان مسحور ہوجاتے ہیں۔ شام کے وقت اڑتے ہوئے آسمان کو اپنے حسین اور خوبصورت رنگوں سے رنگین بناتے ہیں، جن میں ہمیں ایک ڈسپلن اور اتحاد نظر آتا ہے۔ تقریباً 72 اقسام کے یہ پرندے ہمارے دیس میں اس لیے آتے ہیں کہ یہاں پر انھیں خوراک بھی ملے گی اور تحفظ بھی۔ مگر آنے کے بعد ان کا استقبال شکاری بندوق سے کرتے ہیں اور باقی جو بچ جاتے ہیں انھیں جال میں پھنسایا جاتا ہے اور پھر انھیں یہ احساس ہوتا ہوگا کہ وہ غلط جگہ پر آگئے ہیں جہاں پر ان کی زندگی ہر وقت موت کے منہ میں ہے۔
زخمی پرندے یا پھر جال میں پھنسے ہوئے یہ خوبصورت پرندے جب خریداروں کی یا پھر شکاری کی آنکھوں میں بڑی معصومیت سے دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ ہزاروں کلومیٹر کا سفر اس لیے کرکے آئے تھے کہ انھیں اپنے پیٹ کو بھرنے کے لیے خوراک ملے گی اور تحفظ کے لیے ایک جگہ اور پھر موسم بدلتے ہی وہ اپنے گھر لوٹ جائیں گے، مگر وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کی آمد سے کچھ روز پہلے بندوقیں صاف کی جاتی ہیں، ان میں نئے کارتوس ڈالے جاتے ہیں اور پھر تاک لگاکر انتظار کرتے ہیں کہ یہ پرندے آئیں۔ ان پرندوں میں کونج، پیلیکین ، تلور، آڑی اور نیرگ شکاریوں کے پسندیدہ پرندے ہیں۔ جال میں ان پرندوں کو پکڑنے والے انھیں 500 روپے سے لے کر 1000 ہزار تک ایک پرندہ بیچتے ہیں جب کہ تلور 25 ہزار سے لے کر 50 ہزار تک بکتا ہے۔
مجھے ایک بڑا اچھا قصہ یاد آتا ہے جس میں شکاری ایک پرندے کو شکار کرنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ پرندے نے دیکھا کہ ایک فقیر جارہا ہے، پرندہ فقیر کی کپڑے سے بنی ہوئی جھولی میں جاکر چھپ گیا۔ یہ دیکھ کر فقیر بڑا خوش ہوا اور اس پرندے کو ذبح کرکے کھالیا۔ پرندے شکاریوں سے اگر بچ بھی جاتے ہیں تو پھندے والوں سے نہیں بچ پاتے جو انھیں بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ اس وقت جہاں جہاں پرندوں کی آمد ہے وہاں پر غیر ملکی شکاری پہنچ گئے ہیں اور ہر طرف انھوں نے کیمپ قائم کر لیے ہیں۔
جس کے لیے حکومت سندھ اور پاکستان کی طرف سے کھلی چھٹی ہے کہ وہ چند روپے ادا کرکے شکار کو قانونی بنانے کے لیے پرمٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر مقررہ نمبر سے بھی زیادہ شکار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے لوگ اپنے سفارتی تعلقات ان ممالک سے بہتر بنانے کے لیے یہ سروس دیتے ہیں جس میں حکومتی اور پرائیویٹ لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح بے دریغ شکار سے ان نایاب پرندوں کی نسل ختم ہوجائے گی، جس میں ہمارے لوکل پرندے بھی شامل ہیں۔ پردیسی پرندوں کی واپسی صرف 45 سے 50 فیصد ہوتی ہے جس کی وجہ سے اب ان پرندوں نے اپنا رخ ہندوستان، چین اور بنگلہ دیش کی جانب کردیا ہے۔
سندھ میں یہ پردیسی پرندے صدیوں سے آتے رہے ہیں، جو ہمارا کلچر بن گیا ہے مگر اس طرح کی حرکتیں اور ظلم جاری رہا تو ایک دن اس طرف اس طرح کے خوبصورت پرندے آنا چھوڑ دینگے کیونکہ ایک تو اب دریائے سندھ میں پانی کی کمی اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے ہمارے قدرتی آبی ذخائر کم ہوتے جارہے ہیں اور اوپر سے یہ قتل عام ہمارے ثقافتی حسن کو ختم کر دے گا۔ اس سلسلے میں سندھ اسمبلی میں اٹھائے جانے والے سوالات کی روشنی میں حکومت پاکستان کو غور کرنا ہوگا کہ پرمٹ دینے میں ایک سال کا وقفہ دیں اور شکار کرنے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اس کے علاوہ جب 18 ویں ترمیم آچکی ہے تو پھر یہ حق حکومت سندھ کو دیا جائے۔ اس کے ساتھ سندھ حکومت کے وائلڈ لائف محکمے کو اپنا فرض نبھانا چاہیے۔
ہماری قدرتی آبی جھیلیں اور دریائے سندھ سمیت ہمارا سمندر بھی اب آلودگی سے خراب ہورہا ہے جس سے پردیسی اور دیسی پرندوں کی موت واقع ہو رہی ہے اور اگر اسے نہیں روکا گیا تو آنے والے وقت میں یہ پرندے اور بھی کم ہوجائیں گے جو ہمارا بڑا نقصان ہوگا اور ہم اپنی ثقافتی اور قدرتی خوبصورتی سے محروم ہوجائیں گے۔ اس میں حکومت کو اہم اقدامات بغیر کسی تاخیر کے اٹھانے ہوں گے جس میں Environmental Perfection Agency کو فعال کرنا ہوگا تاکہ جو انڈسٹری کا زہر آبی وسائل میں چھوڑا جا رہا ہے اسے روکا جائے تاکہ یہ صنعتی ویسٹ ٹریٹ ہونے کے بعد اس طرف چھوڑا جائے جس سے نہ صرف آبی مخلوق بلکہ انسانوں کی جان کو بھی بچایا جاسکے۔
میں نے ایک پھندے سے شکار کرنے والے سے کچھ سوالات کیے، جس نے بتایا کہ وہ پرندوں کو پکڑنے کے لیے آڈیو کیسٹ کا استعمال بھی کرتے ہیں، جس میں پرندوں کی آوازیں ہوتی ہیں جنھیں سن کر پرندے قریب آتے ہیں اور جال میں پھنس جاتے ہیں۔ پردیسی پرندے کی خوراک پھلوں اور اناج کے بیج، مچھلی، کیڑے مکوڑے اور پانی میں پیدا ہونے والی الجی گھاس ہے۔ ان پرندوں کے فضلے میں جو ویسٹ ہوتا ہے وہ زمین میں فرٹیلائزر کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ پرندے زمین اور پانی میں رہنے والے کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں جس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ فصل کو کیڑا نہیں لگتا۔ اس کے علاوہ یہ پرندے ماحول کو صاف اور خوبصورت بناتے ہیں۔ میں ان شکاری دوستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اس ثقافتی ورثے کو معاف کریں اور نیچر کے خلاف نہ جائیں اور ایک حد مقرر کریں تاکہ ہمارا ماحول خوبصورت رہے۔