کبیر احمد جائسی اور تفردات نمبر
ایک عام تاثر یہ ہے کہ اب کتاب کلچر دم توڑتا جارہا ہے۔ کتب بینی کی عادت ناپید ہوتی جارہی ہے۔۔۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ اب کتاب کلچر دم توڑتا جارہا ہے۔ کتب بینی کی عادت ناپید ہوتی جارہی ہے، ایک موضوع سے متعلق کچھ ہی عرصہ قبل راقم نے ایک کالم بھی تحریر کیا تھا تاہم گزشتہ ہفتہ ایک مجھے ہی کیا کراچی شہر کا جم غفیر امنڈ آیا۔ اس نمائش کے آخری روز راقم کا اس طرف جانا ہوا تو دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ نمائش میں پورا ایکسپو سینٹر شہریوں سے بھرا ہوا تھا اور رش اس قدر تھا کہ اسٹالز کا دورہ کرنا، چلنا پھرنا بھی مشکل تھا۔
بہرکیف شہریوں نے یہاں کتب کی خوب خریداری کی اور اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی کہ ''لوگ کتابیں پڑھنا تو چاہتے ہیں مگر مفتے کی۔ کتب خریدنے میں کنجوسی کرتے ہیں''۔ کتب بینی کی اس عادت کو فروغ دینے میں نہ صرف شہریوں کی دلچسپی کا دخل ہوتا ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ کتاب لکھنے والوں اور فروخت کرنے والوں کا بھی ہوتا ہے۔ مطالعے کے فروغ میں یہ تینوں عناصر کام کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارے مطالعے کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس سلسلے میں جامعہ کراچی بھی اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
مختلف شعبہ جات کی جانب سے وقتاً فوقتاً کتابیں، رسائل و جرائد بھی اور تحقیقی جرنلز بھی منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل مجلس برائے اسلامی تاریخ و ثقافت کی جانب سے ''الایام'' کا تازہ شمارہ موصول ہوا، یہ بیاد: کبیر احمد جائسی کے حوالے سے شایع کیا گیا ہے، اس کی مدیرہ جامعہ کراچی کی معروف شخصیت ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ہیں جب کہ مجلس ادارت میں جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ اسلام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق اور ڈاکٹر زیبا افتخار ہیں۔ راقم نے اس سے قبل کبیر احمد جائسی کا نام تو سنا تھا مگر یہ شمارہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ کس قدر فاضل، اعلیٰ درجے کے اسکالر اور بہت اچھے شاعر تھے۔
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ان کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ''کبیر احمد جائسی کی شناخت کے کئی پہلو تھے'' ان کا شاعرانہ، صحافیانہ اور مدیرانہ کردار بھی تھا، اقبال شناس بھی تھے، کشمیر کے اقبال انسٹیٹیوٹ سے تین سال وابستہ رہے، اقبال کے حوالے سے ان کی کئی گراں قدر تحریریں بھی ہیں لیکن ان کی شخصیت کا غالب پہلو ان کی ایران شناسی تھی، انھوں نے فارسی زبان و ادب کے حوالے سے اہم کام کیے اور ایرانی دانشوروں کو پاک و ہند میں متعارف کرایا''۔
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی یہ قابل تعریف کاوش ہے کہ جس کے باعث مجھ جیسے کم علموں کو بھی ایسی اہم شخصیات کے بارے میں تفصیلی آگاہی حاصل ہوئی۔
راقم کے سامنے ایک اور علمی، فکری اور تحقیقی مجلہ ششماہی التفسیر کراچی بھی ہے، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ ہے، اس کے مدیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج ہیں۔ علمی حلقوں میں ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا نام تعارف کا محتاج نہیں، ان کی مختلف کاوشیں اس قدر تسلسل اور تیزی کے ساتھ آتی ہیں کہ راقم نے کالم کی یکسانیت سے بچنے کے لیے مذکورہ شمارہ وصول ہونے کے بعد کچھ تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ بہرحال یہ شمارہ چونکہ ''تفردات نمبر'' ہے لہٰذا اس پر کچھ نہ لکھنا اور بھی زیادتی ہوگی لہٰذا اس اہم شمارے کو بھی قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے حوالے سے آج کے موضوع میں شامل کیا ہے۔
التفسیر کا یہ شمارہ ''تفردات نمبر'' ہے لہٰذا اس میں موضوع کے اعتبار سے مختلف صاحب علم کی 19 تحریریں شامل ہیں جن میں مفتی قطب الدین عابد، حافظ انجینئر نوید احمد، حافظ سید محمود عالم اور حافظ شفیق احمد وغیرہ شامل ہیں۔ حافظ انجینئر نوید احمد نے ڈاکٹر اسرار احمد کی امتیازی آرا کو موضوع بنایا ہے جب کہ خود ڈاکٹر شکیل اوج نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے تفردات، امتیازات و مختارات کو موضوع بنایا ہے۔ عبدالصمد نے تفردات امام اعظم ابوحنیفہ اور انوار احمد شیخ نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے علمی تفردات پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ ولی اللہ اور دیگر اہم علمی شخصیات سے متعلق تفردات کو اس شمارے میں شامل کیا گیا ہے جس سے اس شمارے کی حیثیت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
یہاں نوجوان طالب علموں کے لیے یہ بات لکھنا غلط نہ ہوگا کہ تفردات سے مراد دراصل وہ باتیں یا خیالات ہوتی ہیں جو کسی علمی شخصیت کی جانب سے روایت سے ہٹ کر آئے یا کوئی ایسی بات جو کسی علمی شخصیت کی انفرادی بات ہو۔ یعنی ایسی بات جو کسی کا خاصہ ہو مثلاً پردے سے متعلق ابن عربی کی بات۔ یہ ضروری نہیں کہ کسی کی جانب سے کہی گئی بات درست ہو۔ اس کا درست یا غلط ہونا ایک الگ بات ہے۔ سید احمد خان اپنے دور کے مفرد تھے، ان کے نظریات سے لوگوں نے اختلافات بھی کیا اور حمایت بھی کی گئی۔
بقول ڈاکٹر شکیل اوج روایتی ماحول میں اس طرح تفردات کی اشاعت تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دنیائے اسلام میں تفردات نمبر کے تحت نکلنے والا یہ پہلا شمارہ ہے۔ اس تفردات نمبر سے قبل عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان میں بھی کوئی ایک بھی تفردات نمبر منظر عام پر نہیں آیا البتہ شخصیات نمبر ضرور نکلتے رہے ہیں۔
اگر ڈاکٹر شکیل اوج کے دعوے کو سامنے رکھا جائے تو واقعی اس شمارے سے جو تفردات نمبر ہے پڑھنے والوں کی بڑی خدمت ہوئی ہے کیونکہ انھیں پہلی مرتبہ مختلف علمی شخصیات کے تفردات ایک جگہ نہ صرف پڑھنے کو ملے بلکہ نئے پڑھنے والوں خصوصاً طالب علموں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ ان اسلاف میں کیسی کیسی غور و فکر کرنے والی شخصیات گزری ہیں۔ مذکورہ شمارے میں جن شخصیات پر تفردات شایع ہوئے ہیں ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، امام اعظم ابوحنیفہؒ، امام ضحاویؒ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، شاہ ولی اﷲ، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، مولانا عبیداﷲ سندھی، شاعر مشرق علامہ اقبال، مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ، علامہ تمنا عمادیؒ، مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ، رحمت اﷲ طارقؒ، مولانا محمد طاسینؒ، علامہ عطا محمد بندیالویؒ، ڈاکٹر اسرار احمد، علامہ غلام رسول سعیدی، جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر شکیل اوج اور مفتی منیب الرحمن شامل ہیں۔
بلاشبہ ان تمام میں تاریخ کی اور موجودہ عہد کی علمی شخصیات بھی شامل ہیں۔ یہ تمام کی تمام ایسی شخصیات ہیں کہ جن کے بارے میں نئی نسل خصوصاً طالب علموں کو معلومات تو ضرور ہونی چاہئیں مگر ان کے تفردات سے بھی آگہی حاصل ہونا اشد ضروری ہے کیونکہ اس سے ہی مطالعے کا اصل مقصد حاصل ہوتا ہے جس میں اختلاف کے باوجود کسی کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور کسی کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے بعد ہی کوئی ذی شعور اپنی رائے درست قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور دوسری طرف بے بنیاد اور بلاوجہ کی مخالفت برائے مخالفت کی ہمیشہ سے بھی نجات مل سکتی ہے۔
راقم کے نزدیک جو لوگ مذکورہ علمی شخصیات کے بارے میں ابہام کا شکار ہوں انھیں چاہیے کہ وہ ضرور اس شمارے کا مطالعہ کریں تاکہ انھیں ازخود اندازہ ہو کہ ان کی رائے کس حد تک انصاف پر مبنی ہے۔ علم کا مطالعہ ہی معاشروں کو زندہ رکھتا ہے۔