لسانی اور صوبائی تعصب

اگر موجودہ دور میں بھی لسانی و نسلی بنیادوں پر صوبے بنیں گے تو نتیجہ سانحہ مشرقی پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا


ضیا الرحمٰن ضیا October 08, 2020
پاکستان کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر بھی ہمارے سیاستدانوں نے سبق نہ سیکھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں لسانیت کا بیج اس وقت سے ہی بو دیا گیا تھا جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ سب سے پہلے لسانی بنیادوں پر بنگالی سیاستدانوں نے آئین 1956 جو پہلے ہی دیگر بہت سی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار تھا، کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور اردو زبان کو مشترکہ قومی زبان تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ اردو زبان بنگال سمیت ملک کے تمام صوبوں میں سمجھی جاتی تھی لیکن بنگالی زبان بنگال کے علاوہ کہیں بھی بولی اور سمجھی نہیں جاتی تھی، لہٰذا قومی زبان کےلیے اردو سے زیادہ مناسب کوئی زبان نہ تھی۔ لیکن بنگالی سیاستدانوں نے صوبائی تعصب کی وجہ سے تنہا اردو کو قومی زبان تسلیم نہ کیا۔ لہٰذا مجبوراً اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دینا پڑا۔ اس کے باوجود ان کے دلوں سے صوبہ پرستی نہ نکلی اور اپنے صوبے کےلیے نت نئے مطالبات کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ ان کے مطالبات بڑھتے گئے اور ایک دن ان کے یہی مطالبات پاکستان کو دولخت کرنے کا باعث بنے۔

پاکستان کو یوں دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر بھی ہمارے سیاستدانوں نے سبق نہ سیکھا اور ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی صوبہ پرستی کو ہوا دیتے رہے۔ کبھی سندھو دیش کے نعرے لگے تو کبھی عظیم تر بلوچستان کے نعرے لگائے گئے، کبھی پختونستان کا راگ الاپا گیا اور کبھی مہاجر قوم کے نام پر انتشار پھیلایا گیا۔ صوبائیت پرستی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا، جس سے اغیار نے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے علیحدگی پسندوں کو ہر طرح کا تعاون فراہم کیا اور انہیں مالی فوائد کا لالچ دے کر پاکستان کے خلاف اکسایا اور پاکستان کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ را کے جتنے بھی جاسوس پکڑے گئے وہ دور دراز اور سہولیات سے محروم علاقوں میں تخریب کاری میں ملوث پائے گئے، جس کا اعتراف انہوں نے خود کیا۔ ان کی ان ہی تحریبی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کے محروم علاقوں کے لوگ علیحدگی پسند بنے اور پاکستان کو پھر سے توڑنے کی سازشوں میں شریک ہوئے۔

پاکستان میں دو طرح کے سیاستدان اس صوبائیت پرستی کے ذمے دار ہیں۔ ایک وہ سیاستدان جو وفاقی سطح پر حکمرانی کرتے رہے ہیں اور دوسرے وہ جن کی سیاست کا دائرہ کار مخصوص علاقوں اور صوبوں تک محدود ہے۔ جو مرکز میں حکمران رہے، وہ اس لیے اس صوبہ پرستی کے ذمے دار ہیں کہ انہوں نے دور دراز کے علاقوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہیں سہولیات سے محروم رکھا، انہیں ان کی غربت میں ہی جینے کےلیے چھوڑ دیا، ان کی بہتری کےلیے کوئی اقدامات نہیں کیے، انہیں ہر طرح سے دبایا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ ملک اور حکومت سے نفرت کرنے لگے اور اپنی محرومیوں، غربت اور تنگی سے چھٹکارا پانے کےلیے ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں بک گئے اور علیحدگی کے نعرے لگانے لگے۔

دوسری طرح کے وہ سیاستدان ہیں جن کی سیاست کا دارومدار ہی ان علاقوں کے عوام کی مشکلات پر ہے جن علاقوں سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔ وہ عوام کی تکالیف اور پریشانیوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاست چمکاتے ہیں، انہیں مرکزی حکومت کے خلاف اکساتے ہیں، بلکہ دیگر صوبوں اور علاقوں کے خلاف بھی ان کے دلوں میں نفرت کے بیج بوتے ہیں اور ان علاقوں پر حکمرانی کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ کراچی اور جنوبی پنجاب صوبہ کے سلسلے میں ہورہا ہے۔

کراچی اور جنوبی پنجاب کو اگر انتظامی ضروریات کے پیش نظر صوبہ بنایا جائے تو یہ الگ بات ہے، کیونکہ انتظامی بنیادوں پر صوبے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یعنی اگر حکومت اور انتظامیہ یہ محسوس کرے کہ کوئی صوبہ آبادی یا رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے اور انتظامیہ کےلیے اس کی دیکھ بھال مشکل ہورہی ہے تو پھر کسی بھی صوبے کی تقسیم اور نئے صوبے کی بنیاد رکھنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق ایسا کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ لیکن اگر لسانی یا قومی بنیادوں پر صوبے بنائے جائیں یا کسی صوبے کی تقسیم کی جائے کہ کسی خاص زبان جیسے اردو اور سرائیکی زبانیں بولنے والے افراد لسانی بنیاد پر صوبوں کا مطالبہ کریں یا کوئی خاص قوم اپنے لیے نئے صوبے کا مطالبہ کرے تو یہ بات ملکی سالمیت کےلیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو 1971 میں بنگلہ دیش کی صورت میں ہم بھگت چکے ہیں کہ اس وقت بھی لسانی و صوبائی تعصب رفتہ رفتہ بڑھتا رہا اور ملک کو دو ٹکڑے کرنے کا باعث بنا۔

اگر موجودہ دور میں بھی لسانی و نسلی بنیادوں پر صوبے بنیں گے تو نتیجہ سانحہ مشرقی پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ اس لیے سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کو لسانی بنیادوں پر اکسا کر ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں کے خلاف بھڑکانے کے بجائے ملکی سالمیت کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح مرکزی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ملک کے دور دراز علاقوں کو احساس محرومی سے نکالنے کےلیے انہیں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سہولیات فراہم کی جائیں۔ ان علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور وہ ملک سے نفرت کے بجائے محبت کرنے لگیں۔ انہیں اپنے پرائے کی پہچان ہو۔ وہاں صنعتیں بھی قائم کی جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور ان کا معیار زندگی بہتر ہو۔ یوں صوبائیت پرستی کا خاتمہ ممکن ہوگا اور ملک دشمن عناصر کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں