صرف سیاست ہی کیوں

لوگ کہتے ہیں کہ ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا‘‘ تو صرف سیاست پر لکھنے کا کیا مطلب، ان کا خیال بالکل بجا


نجمہ عالم December 19, 2013

NEW DELHI: لوگ کہتے ہیں کہ ''اور بھی دکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا'' تو صرف سیاست پر لکھنے کا کیا مطلب، ان کا خیال بالکل بجا، جس معاشرے میں زندہ رہنا دشوار اور مرنا بے حد آسان ہو، جہاں کھانے کو کچھ نہ ملتا ہو اور جو ملتا ہو وہ اس قدر آلودہ ہو کہ اس میں غذائیت کے سوا باقی سب کچھ ہو، وہاں سیاست سے ہٹ کر لکھنے کے لیے کس قدر موضوعات نہ ہوں گے اور لکھنے والے ان پر لکھ بھی رہے ہیں۔ مگر میں ان سیاست کے مخالفین کی خدمت میں عرض کروں گی کہ کیا یہ سب بھی سیاست نہیں ہے۔ غریب کا غریب تر اور امیر کا امیر تر ہونا۔

عوام کی اکثریت کا بھوکے پیٹ سونا اور اقلیت کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے بے شمار کھانے ہونا۔ اس میں آپ کو سیاست نظر نہیں آتی؟ قارئین کرام! اگر غور فرمائیں تو بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے چاروں طرف صرف اور صرف سیاست ہی رہ گئی ہے، ثقافتی و ادبی ماحول تو خواب و خیال ہو کر رہ گیا ہے، جس طرح الف لیلیٰ یا دوسری داستانوں کا ماحول ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، اسی طرح ہماری نسل نو اور مزید آگے آنے والی نسلوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہے اور ہوگی کہ کبھی ملک یا شہر کراچی میں ثقافتی تقاریب، ادبی محافل، جگہ جگہ مشاعرے اور تنقیدی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے چہار سو مختلف اسٹیج بنے ہوئے ہیں اور ہر اسٹیج پر ایک سیاسی ڈرامہ جاری ہے، موضوع تقریباً ہر ڈرامے کا ایک ہی ہے البتہ کردار، ہدایات کار اور مکالمے ذرا مختلف ہیں۔ بعض اوقات مغربی سمت کے اسٹیج کے کردار شمال والے اسٹیج پر اور مشرقی جانب کے اسٹیج کے کردار جنوب کی طرف والے اسٹیج پر بھی نظر آجاتے ہیں اور یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ان تمام ڈراموں کے درمیان اٹھارہ کروڑ عوام بخوشی یا جبراً یہ ڈرامے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اگر وہ ایک ڈرامے سے اکتا کر دوسری جانب رخ کرلیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کوئی دوسرا اسٹیج ان کے سامنے ضرور ہوتا ہے اور اب وہ اس پر دکھایا جانے والا ڈرامہ دیکھنے پر مجبور ہوتا ہے یعنی اگر ایک کی جانب پشت تو دوسرے کی جانب رخ دائیں اور بائیں جانب بھی مختلف سیاسی ڈرامے ہی جاری ہیں اب اگر ذرا سا گردن ہی موڑ کر کسی دوسری جانب دیکھنے کی کوشش کی جائے تو بھی کوئی نہ کوئی ڈرامہ ہی نظر کے سامنے ہوگا۔

اس صورت حال سے گھبرا کر اگر آدمی آنکھیں بند کرلے کہ نہیں دیکھنا مجھے یہ ڈرامہ تو پھر کانوں میں آؤ ہی آؤ۔ جاوے ہی جاوے، جئے سدا جئے، دل کا سرور فلاں فلاں۔ آنکھوں کا نور فلاں فلاں۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔ امریکا کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔ جیسے کان پھاڑ دینے والے نعرے تو ضرور سننا پڑیں گے۔ اس شور قیامت میں مجبوراً آنکھیں کھولنا پڑیں گی اور اب جو آپ دیکھیں گے تو کوئی نہ کوئی اسٹیج پر آپ کے سامنے ہوگا۔ کیونکہ آپ رخ چاہے کسی بھی سمت کرلیں کوئی نہ کوئی سیاسی اسٹیج تو آپ کے سامنے ضرور ہوگا، لہٰذا ان ڈراموں سے واسطہ بھی ضرور پڑے گا۔

ایسے میں جب کانوں کو کچھ اور سنائی نہ دے آنکھوں کو کچھ سوجھائی نہ دے اتنے شور اور ہنگامے میں آپ اور کسی موضوع پر کیا غور کرسکتے ہیں سوائے سیاست کے ۔ چلیے صاحب! ہمارے یہاں سیاست کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا تو کم از کم سیاست کے کچھ اصول ہی طے کر لیے جائیں۔ اگرچہ مہذب معاشروں میں یہ پہلے ہی سے طے ہیں اور بزعم خود ہم بھی بے حد مہذب، خودمختار اور آزاد معاشرے کے شہری ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اپنے وسائل کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں کے سامنے دست سوال بڑی ڈھٹائی سے پھیلاتے ہیں اور جب ہاتھ ایک بار پھیل جائے (خدا کے سوا اور کسی کے سامنے) تو پھر شرم و حیا اور عزت و غیرت اپنا بستر لپیٹ کر روانہ ہوجاتی ہیں، کچھ یہی صورت حال ہمارے ساتھ بھی پیش آئی ہے۔

مان لیتے ہیں کہ ہم میں یہ سب خامیاں موجود ہیں، بقول ہمارے ایک دانشور ہم ایک قوم ہیں ہی کب ہم تو ایک ریوڑ ہیں، جس کو ہانکنے والے کو خود بھی پتہ نہیں کہ کس سمت جانا ہے۔ پھر بھی ہم اٹھارہ کروڑ ہیں اور ان میں چند افراد تو ضرور ایسے ہوں گے جو دوسروں سے کچھ مختلف ہوں۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ تباہی کی انتہا کو پہنچے ہوئے معاشرے کو کسی ایک فرد یا ہم خیال افراد کے گروہ نے دوبارہ مہذب و ترقی یافتہ معاشرے میں تبدیل کردیا۔ اسلامی انقلاب اس صورتحال کی کتنی عظیم مثال ہے۔ آپ فرمائیں گے کہ یہ تو تائید ایزدی کی بنا پر ممکن ہوا مگر یہ تو مانیں گے کہ یہ سب اﷲ تعالیٰ نے ایک انسان، جو اشرف المخلوقات میں سب سے اشرف تھا، کے ذریعے ہی ممکن بنایا، اپنے عبد خاص کو نور ہدایت اور شمع ہدایت بناکر۔

مگر روحانیت سے ہٹ کر محض سیاسی اور معاشرتی انقلابات کے واقعات کیا تاریخ کے صفحات پر ثبت نہیں ہیں؟ جس کی پشت پر کسی فرد واحد کی بے مثال جدوجہد اور انتھک کوشش کارفرما ہو۔ چین، روس، فرانس کے انقلابات بتا رہے ہیں کہ فرد واحد یا کسی مخصوص نظریے پر قائم کسی گروہ نے یہ سب ممکن کردیا۔ دور کیوں جائیں انسانی مساوات اور نسلی عصبیت کے خلاف نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور کارکردگی تو پرانی بات نہیں بلکہ کل ہی کی بات ہے اور آج کل ان کے بارے میں تمام اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں، جب عزم کرلیا تو ہر رکاوٹ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آج دنیا انھیں خراج تحسین پیش کرنے میں فخر محسوس کر رہی ہے۔ تو کیا ہمارے یہاں کوئی ایک بھی ایسا بے لوث مخلص اور قوم کا نجات دہندہ لیڈر موجود نہیں کہ جو ہمیں غار مذلت میں گرنے سے پہلے بچالے؟

چند قومی ایشوز ایسے ہیں جن پر تمام سیاسی جماعتیں اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتفاق رائے پیدا کرسکتی ہیں۔ بے شک ہر سیاسی جماعت کا اپنا نقطہ نظر ہے، اپنا منشور اور لائحہ عمل ہے مگر یہ سب ہے کس کے لیے؟ یقیناً قوم و ملک کے لیے ہی ناں۔ ایک دوسرے سے اختلاف رائے''جمہوریت کا حسن'' ہے مگر جب سب ہی اپنے اپنے انداز سے ملک و قوم کی خدمت کے دعویدار ہیں تو پھر مہنگائی، بے روزگاری، حقوق انسانی، دہشت گردی اور امن و امان کی ابتر صورت حال پر تو سب کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے کہ ان تمام مسائل سے کوئی ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ملک کے 98 فیصد عوام دوچار ہیں اور یہ بھی کہ سب سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر ان بدعنوانیوں کے خلاف ہیں۔

تو جدا جدا کسی مسئلے پر آواز اٹھانے کے بجائے اگر سب مل کر رشوت کلچر، مہنگائی یا دوسرے ایشوز پر آواز اٹھائیں تو سب کی آواز مل کر ایوانوں کے درودیوار ہلاسکتی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تو اگر ایک جماعت کسی مسئلے پر آواز اٹھاتی ہے تو باقی دوسری تمام جماعتیں اس پر تنقید کرتی ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ سب انفرادی طور پر سوچتی ہیں کہ فلاں مسئلے کو حل کرانے کا گریڈ ہمارے علاوہ اور کسی کو نہ مل جائے اور اس گریڈ کے حصول کے جنوں میں تمام جماعتیں جائز اور مشترکہ مسائل پر بھی متحد ہونے اور اتفاق رائے پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں