بہو بیٹی کب بنے گی

ایک لڑکی جسے اس کی ساس نندیں پسند کرکے لاتی ہیں چند ہی دنوں میں وہ انھیں خامیوں کا مجموعہ نظر آنے لگتی ہے


راضیہ سید October 02, 2020
اکثر گھرانوں میں بہو کے خلاف باقاعدہ محاذ آرائی کی جاتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''بھابھی صبح ہی صبح بھائی کو میری شکایتیں لگا رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ میں بہت کام چور اور بدزبان ہوں، ان کا گھر کے کاموں میں کوئی ہاتھ نہیں بٹاتی اور ہر وقت فارغ رہتی ہوں''۔ شازیہ نے ماں کو ناشتہ کرنے سے بھی پہلے یہ بتانا ضروری سمجھا تاکہ خبر بروقت پہنچنے پر فوری طور پر کوئی ایکشن لیا جاسکے۔

دوسری طرف امی جان بھی شاید ایسے ہی موڈ میں تھیں کہ بیٹے کو جورو کا غلام ہونے کے طعنے دیے جائیں۔ لہٰذا دفتر جانے سے پہلے خرم کی اچھی خاصی کلاس لے ڈالی کہ وہ ہمیشہ جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیوی کی ہی طرفداری کرتا ہے اور اسے چھوٹی بہن کی تکلیف اور جذبات کا کوئی احساس ہی نہیں، جو اس گھر میں چند دنوں کی مہمان ہے اور جب سے خرم کی شادی ہوئی ہے اسے ماں بہنوں سے کوئی لگاؤ نہیں رہا، وغیرہ۔

ہمارا معاشرہ ان ہی روایتی کہانیوں کی وجہ سے چل رہا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان ہی کہانیوں نے ہمارے معاشرے کا رنگ بدل دیا ہے۔ اب رشتوں میں نہ خلوص رہا ہے اور نہ ہی سچائی۔ اب پرانے وقتوں کی طرح نہ تو ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی عادت رہی ہے اور نہ ہی دلوں میں گنجائش۔ بس اگر ہے تو صرف دکھاوا اور بناوٹ۔ اگر رشتے داری ہے تو پیسے کی۔ آج کے اس مادیت پرست معاشرے میں جاں نثاری کے صرف دعوے کیے جاتے ہیں عملاً سب کچھ کھوکھلا ہے۔ درحقیقت ہر رشتہ ہی مطلبی اور خودغرض بن کر رہ چکا ہے۔

اب ساس نندیں لڑکیوں کی شکل و صورت کے ساتھ اچھی نوکری اور پھر اس پر گھر کے کاموں میں بھی طاق ہونے کی گارنٹی مانگتی ہیں۔ بہت چاؤ سے بیٹے کی زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ایک لڑکی جسے اس کی ساس نندیں پسند کرکے لاتی ہیں چند ہی دنوں میں وہ انھیں خامیوں کا ایک مرکب نظر آنے لگتی ہے۔ حالانکہ وہ لڑکی وہی ہوتی ہے جسے کبھی ساس صاحبہ چندے آفتاب اور چندے ماہتاب کہا کرتی تھیں اور اپنے عمر رسیدہ بیٹے کےلیے پسند کرکے لائی تھیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ہر ہر کام میں نقص اور نکتہ چینی کرنا سسرال والوں کی عادت بن جاتی ہے۔ نہ صرف اس لڑکی کی زندگی اجیران کردی جاتی ہے بلکہ بیٹے کے دفتر سے گھر واپس آنے پر بہو کے بارے میں کئی جھوٹی سچی باتیں بتائی جاتی ہیں، جس سے کدورت میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔

خواہ بہو اپنے سسرالی رشتے داروں کو کتنا ہی اپنا سمجھ لے، اس پر میکے پر سب پیسہ خرچ کرنے اور بچوں کو دادی پھوپھی کے خلاف کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس طرح رشتوں کو کڑوی کسیلی باتوں سے اتنا بدذائقہ کردیا جاتا ہے کہ پھر ان میں محبت اور برداشت کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

کئی گھرانوں میں، میں نے دیکھا کہ جیسے ہی شادی ہونے لگتی ہے لڑکے کے گھر والے اپنے گھر میں کام کرنے والی نوکرانیوں کو نوکری سے ہی فارغ کردیتے ہیں کہ آپ کل سے مت آئیے گا ہم بہو کی شکل میں ایک نوکرانی لارہے ہیں، اس لیے اب تمھاری ضرورت نہیں ہے۔

کیونکہ ہر کوئی خود کو درست سمجھتا اور دوسروں کو غلط گردانتا ہے لہٰذا کوئی غلط یا خلاف توقع کام ہوجائے تو بہو کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے اور جب وہ گھر کا کام اور آفس بھی بیک وقت خوش اسلوبی سے سنبھالے تو سارے کا سارا کریڈٹ خود لے لیا جاتا ہے کہ بھابھی تو نوکری کرتی ہیں، سارا دن کچن میں ہم نندیں ہی کام کرتی ہیں۔

حالانکہ کوئی مہمان آجائے، ہمسائیگی کے رشتے نبھانے ہوں یا کوئی اور خانگی معاملہ، بھابھی پر سب سے زیادہ ذمے داری ڈال دی جاتی ہے اور وہ عورت ان ذمے داریوں سے بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہونے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ لیکن وہی بات ہے کہ ہم ہر کسی کو کبھی خوش نہیں کرسکتے، مصداق سسرالی رشتے داروں کے ماتھے پر بل ہی پڑے رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی کوتاہی ہمیشہ گنوائی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ میں یہاں سب بری نندوں اور ساسوں کی بات نہیں کر رہی، بہت سے گھرانوں میں بھابھیاں بھی بہت جھگڑالو ہوتی ہیں۔ اصل بات یہاں پر مرد کے امتحان کی ہے کیونکہ اگر وہ بیوی کی مشکلات دیکھتے ہوئے چپ سادھ لے تو بیوی کی طرف سے شکایتی لہجہ ہوتا ہے کہ تم نے حق کی بات نہیں کی۔ اور اگر ماں باپ کو ان کی زیادتیوں سے آگاہ کرنے کےلیے بات کرے تو اسے زن مریدی کے طعنے ملتے ہیں۔

رشتے نباہنے کےلیے کیا ہم اپنے گھر کے نظام میں اک نئے شخص کو قبول نہیں کرسکتے؟ کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ یہ لڑکی بھی ہماری بہن یا بیٹی ہے اور اس کی ہی وجہ سے ہمارے بھائی کا گھر آباد ہے اور وہ خوش ہے۔ کیا ہم اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کرسکتے؟ ہمیں صرف گھر میں ہی ایک کمرہ یا ایک گوشہ بھابھی کےلیے مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے بھائی کے گھر کی رونق کےلیے دل میں محبت، پیار، خلوص، رواداری، صبر اور برداشت کے ایک گھر کی تعمیر کی بھی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں