دے کر مرو
چک فینی دنیا کا واحد ارب پتی ہے، جو اپنی مرضی سے اپنی تمام تر دولت اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا تھا۔
اس کا سب سے بڑا خواب ایک ہی تھا کہ اس کا چیک جب بینک میں کیش ہونے کے لیے جائے، تو اکاؤنٹ میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے باؤنس ہوجائے۔ اس خواب کو سچا کرنے میں چار عشرے بیت گئے۔
وہ انوکھا ارب پتی تھا۔ 40 سال پہلے اس نے نیت کی کہ اس نے کنگلا ہو کر مرنا ہے۔ اپنی ساری دولت لٹانے کے لیے اس نے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا جو دنیا کے 7 مختلف ٹائم زونز میں 300 سے زائد اسٹاف پر مشتمل تھا۔ 40 سال تک دونوں ہاتھوں سے خیرات کرنے کے بعد، چند دن قبل، 14 ستمبر 2020 کو اس کا مشن پورا ہوگیا۔ چک فینی (Chuck Feeney) نے 8 ارب ڈالرز عطیات اور خیرات کی مد میں تقسیم کر دیے۔ پاکستانی روپوں میں یہ تقریباً 1400ارب روپے بنتے ہیں۔ جب اس نے بانٹنا شروع کیا تو اسے کی کل دولت ایک ارب ڈالرز تھی، وہ بانٹتا گیا، رب بڑھاتا گیا اور وہ دولت 8 ارب ڈالرز تک جا پہنچی۔
چک فینی دنیا کا واحد ارب پتی ہے، جو اپنی مرضی سے اپنی تمام تر دولت اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ 89 سال کی عمر میں اس کا مشن پورا ہوگیا۔ اب اس کی کل جائیداد صرف دو ملین ڈالرز کی باقی بچی ہے۔
چک امریکا میں ڈیپریشن کے دنوں کے دوران آئرش مہاجرین کے ہاں پیدا ہوا۔ بعد میں کورین جنگ کے دوران اس نے ریڈیو آپریٹر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ جنگ کے بعد اسے فوجی ہونے کے ناتے اسکالرشپ ملا اور وہ کارنل یونیورسٹی میں داخل ہونے والا اپنے خاندان کا پہلا فرد بن گیا۔ اس داخلے نے سب کچھ بدل دیا۔ چک نے ڈیوٹی فری اشیاء کا بزنس شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہوگیا۔
چک نے دیکھا کہ بے تحاشا دولت ان گنت مسائل لے کر آئی۔ اس کے میلوں تک پھیلے گھروں پر درجنوں رولز رائس، بینٹلے، جہاز اور ہیلی کاپٹر جمع ہوگئے اور اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے بچے طرح طرح کی عیاشیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اب وہ بگڑے ہوئے رئیسوں کی طرح تام جھام کا شکار ہو چکے تھے۔
ساتھ ہی وہ دنیا گھوم رہا تھا اور ہر طرف اسے زندگی عسرت اور آزمائش میں نظر آرہی تھی۔ 1984 میں ایک دن وہ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا اور دونوں آٹھ گھنٹے تک غور وفکر کرتے رہے۔ انھیں لگ رہا تھا کہ دولت کی یہ بارش ان کے خاندان کو کھا جائے گی۔ دونوں خدا، عیسائیت اور خیرات دینے کے فلسفہ پر یقین رکھتے تھے۔ دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنی کل دولت خیرات کردیں گے۔
چک فینی نے ''گونگ وائل لونگ(Giving While Living) کے نعروں کی بنیاد ڈالی۔ اس کا کہنا تھا، جو بھلا کرنا ہے کر کے مرو۔ اس سے پہلے امیر کبیر لوگوں میں رواج تھا کہ وہ مرتے وقت ٹرسٹ بنا کر اپنے اثاثے اس کے سپرد کر دیتے تھے۔
چک نے اسے خود غرضی سے تعبیر کیا اور کہا اصل خیرات وہی ہے جو اپنے ہاتھ سے، اپنی زندگی میں دی جائے۔ مر کر کسی کا بھلا کر دیا تو وہ کس کام کا ہے۔ دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے تک پوری دنیا میں گنتی کے لوگ ہی چک فینی کا نام جانتے تھے۔ اس نے اپنے نام کی تختی نہیں لگوائی، پلیق نہیں بنوایا، نہ ہی اخبارات میں خبریں لگوائیں اور ٹی وی پر بلیٹن چلوائے۔ عام طور پر عطیات دیتے وقت ایک شرط یہ ہوتی تھی کہ اس کا نام خفیہ رکھا جائے گا۔ اور تو اور اس نے جس بزنس سے اربوں کمائے اس کے سارے شیئر بھی بیچ کر خیرات میں لگا دیے جس کا علم لوگوں کو دس سال بعد ہوا۔ اس وجہ سے اس ''خیراتی دنیا کا جیمز بانڈ'' کہا جاتا ہے۔
چک فینی 1960 کے عشرے میں ڈیوٹی فری لگژری اشیا بیچ کر ارب پتی بنا۔ اس نے خود تو اپنی تمام دولت 8ارب ڈالر میں تیاگ دی، مگر ساتھ ہی اس نے دنیا بھر کے امیر ترین افراد کو لعن طعن کرکے 120ارب ڈالرز سے زیادہ رقم خیرات کروائی۔ آپ نے بل گیٹس اور اس کی بیوی کی 40 بلین ڈالرز سے قائم کی گئی فاؤنڈیشن یا دنیا کے امیر ترین افراد کے کلب کے رکن وارن بفے کا وہ وعدہ سنا ہوگا جس میں اس نے اپنی %99 دولت خیرات کرنے کا عہد کیا تھا۔
گیٹس اور بفے دونوں چک فینی کو مرشد مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے دیکھ کر ہی انھیں خیرات دینے کا حوصلہ ہواہے۔ 2010 میں دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں کے اکٹھ کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا، جس میں آدھی سے زیادہ دولت انسانیت کی فلاح کے لیے وقف کرنے کا عہد کیا گیا۔
فینی نے اپنے عطیات سے امن عامہ ، صحت اور تعلیم کے لیے کام کیا۔ ایک ارب ڈالرز تو اس نے اپنی مادر علمی کارنل یونیورسٹی پر وار دیے۔ ویت نام کا صحت کا پورا نظام اس نے تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس کے مخیر پن سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
چک کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے۔ اس کے پاس جینز کے دو تین جوڑے اور دو عدد سوٹ ہیں۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ وہ رولز رائس میں کیوں نہیں بیٹھتا؟ اس نے جواب دیا کہ رولز رائس میں بیٹھنے سے میں ہرگز مزید امیر محسوس نہیں کرتا، میرے لیے اسکوٹر کافی رہتا ہے۔
ایک جگہ اس نے کہا کہ تھنگز منی کینٹ بائے (جو چیزیں پیسے سے نہیں خریدی جاسکتیں) ، سچ ہے۔ یہ سچ مجھے پیسے تقسیم کر کے پتہ چلا۔ چک خود سان فرانسسکو میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتا ہے جو بظاہر کسی اسٹوڈنٹ کی رہائش دکھتی ہے۔
ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم اپنے وقت کے ولی چک فینی کے وقت میں زندہ رہ رہے ہیں۔ ہمارے پاس بھی کار خیر کے حوالے سے ایدھی، ادیب رضوی اور اخوت کی مثالیں ہیں۔ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے رئیسوں میں بھی ایوان فیلڈ، سرے محل اور نیب داستانوں کے علاوہ چک فینی جیسوں کی کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملیں جو اپنے حصے کا دان کر کے مرنا چاہتے ہوں۔ لیکن اپنے حصے کا دان تو ہم سب کو کرنا چاہیے۔ ہم سب کے پاس مختلف نعمتیں موجود ہیں جنھیں ہم تقسیم کرسکتے ہیں۔ کہیں بصیرت، کہیں ہمت، کہیں حوصلہ، کہیں روپیہ بانٹ سکتے ہیں۔ تاہم یہ عہد نبھانے کے لیے ارب پتی ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے۔