منافقانہ سیاست

ایک منافق سیاستدان کے لیے کوئی دوست اور کوئی دشمن نہیں کی اصلاح بہت مفید اور کار آمد ہے۔


Abdul Qadir Hassan September 06, 2020
[email protected]

لاہور: ہمارے ہاں سیاستدانوں نے اپنی منافقتوں اور کمزوریوں کو چھپانے اور اپنی چالبازیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے چند اصلاحات گھڑ رکھی ہیں مثلاً سیاست میں کوئی دوست اور دشمن نہیں ہوتا اور سیاست میں دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔

ایک منافق سیاستدان کے لیے کوئی دوست اور کوئی دشمن نہیں کی اصلاح بہت مفید اور کار آمد ہے۔ کوئی بااصول سیاستدان جو کسی نظریئے کا قائل ہو دوستی اور دشمنی کا یہ معیار اور پیمانہ نہیں رکھ سکتا۔ وہ ہم خیالوں اور نظریاتی ساتھیوں کا دوست اور دوسروں کا مخالف ہوتا ہے۔ اسلام جیسے نظریاتی مذہب نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ کوئی مسلمان ہے تو کوئی غیر مسلم ہے جو بیچ میں ہے وہ منافق ہے اور دوستی اور دشمنی کے درمیان سفر کرنے والا منافق ہی ہو سکتا ہے ۔اندر سے دوستی اور باہر سے دشمنی کیا ہوتی ہے۔ دیکھیں گے کہ یہ سفر کب تک جاری رہتا ہے اور اس سفر کا اختتام کہاں ہوتا ہے ۔

سیاست میں اس قدر اتار چڑھائو دیکھے ہیں کہ ایک جولاہے کی ماں مر گئی تو اس نے کہا کہ جب سے ماں مری ہے میرا دل موت سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ سیاست کے کارزار میں مرکزی کردار ادا کرنے والے رہنما قوم کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں، قوم انھیں اپنے مسیحا کی صورت میں دیکھتی ہے اس لیے ان رہنمائوں کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی ذہنی پختگی اور کردار کی سلامتی باقی رہے تا کہ وہ قوم کی اپنے قول و فعل کے مطابق ترجمانی کر سکیں۔ یہ نہ ہو کہ عوام ان کے قول و فعل کو دیکھتے ہوئے ان کو اپنے دلوں سے نکال پھینکیں۔

ہمارے ساتھ اب تک جو کچھ ہوتا آیا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس کے پس منظر اور پیش منظر سب جانتے ہیں۔ اسی منافقانہ طرز عمل کے ایک گروہ کے لوگوں نے اس ملک کی تباہی کی بنیاد رکھی اور اسی گروہ کے کچھ دوسرے لوگوں نے اس ملک کو توڑ دیا۔ کہا گیا کہ بھارت نے پاکستان کو توڑنے میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی سزا اسے اپنے ہاں ایسے ہی کسی انتشار میں ملے گی کیونکہ اس کے اندر علیحدگی کی بہت سی تحریکیں چلی رہی ہیں اور ان تحریکوں کو اس سے شہ ملے گی لیکن بھارت جیسے الجھے ہوئے ملک کو اگر کوئی چیز بچا رہی ہے تو وہ جمہوریت ہے جس کی وجہ سے وہ انتشار سے بچا ہوا ہے۔

لیکن پاکستان میں معاشی اونچ نیچ اور امیر و غریب کے ساتھ غیر مساوی سلوک کو دیکھ کر پاکستانی جمہوریت پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ ہم نے منافقتوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنی سہولت کے لیے کئی بہانے اور عذر تلاش کر لیے اور دل میں چھپے چور کو بہلانے کی کوشش کرتے رہے ۔ ''درماندگئی شوق تراشے ہے پناہیں'' والا معاملہ رہا یا یوں کہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو منافقت کے لبادے میں چھپا لیا۔

پاکستانی سیاست میں آج کل منافقتوں کا زور ہے، چھوٹی سیاسی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اعتبار اور اعتماد کرنے کو تیار نہیں اور ضمانت مانگتی ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکا نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ اس سے پہلے ان بڑی جماعتوں کی منافقت کا شکار ہو چکی ہیں۔ اپوزیشن کی چھوٹی بڑی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی کوشش میں ہیں لیکن اس کے لیے نہ تو ان کی کوئی واضح حکمت عملی نظر آ رہی ہے اور نہ ہی کوئی ایک ایسا لیڈر جس کی قیادت پر یہ تمام پارٹیاں متفق ہوں اور وہ ان اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کر سکے۔ دیکھتے ہیں کہ اپوزیشن کی مجوزہ آل پارٹی کانفرنس (اے پی سی) کے کیا نتائج نکلتے ہیں لیکن ابھی یہ دور کی بات نظر آتی ہے۔

اپوزیشن کی کمزوری کا حکمران جماعت فائدہ اٹھا رہی ہے اور عمران خان کا طوطی بولتا ہی نہیں چیختا چنگھاڑتا بھی ہے اور اس کے اندر ایسا اعتماد دکھائی دیتا ہے جو کسی سے دب کر نہیں رہتا۔ وہ آئے روز فوج اور حکومت کے مثالی تعلقات کا ذکر کرنا نہیں بھولتے اور فوج کی حکومتی حمائت کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی عوام بھی حکومت کی بداعمالیوں اور بد انتظامیوں کا حل فوج کے پاس دیکھتے ہیں جب بھی ملک پر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو پاک فوج ہی اس مشکل کا حل نکالتی ہے۔

آج کے حالات میںیہ بات بہر حال مثبت ہے کہ فوج سیاسی حکومت کی مکمل حمائت پر کمر بستہ نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت سب کو معلوم ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیوں کی ناکامی اور بے عملی کی وجہ سے ان کی حکومت قائم ہوئی ہے یعنی یہ ایک ردعمل ہے جس کی برکات عمران خان کے حصے میں آئی ہیں۔ پاکستانی قوم کے دکھوں کا کوئی شمار نہیں، انھوں نے ایک نئی جماعت کو اپنی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے۔ میں خود اس کے ساتھ محتاط امیدیں وابستہ کر چکا ہوں لیکن اب مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس کی سیاسی ناتجربہ کاری نئے پرانے ساتھی اور کاریگر قسم کے سیاستدان اسے اس کے اصل راستے سے بھٹکا کر منافقتوں کے راستے پر ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان سے پہلے عوام نے بھٹو صاحب کا والہانہ استقبال کیا تھا لیکن وہ اس کو سنبھال نہیں پائے، اب یہ عمران خان کی فہم و فراست پر منحصر ہے کہ وہ کیسے اپنے منافق اور کاریگر قسم کے ساتھیوں کے منفی اثرات سے باہر نکل کر بے فکری کے ساتھ کھل کر واضح موقف اپنا کر آگے بڑھتے ہیں۔ وہ قومی اعتماد کے اس نادر موقع کو ضایع نہ ہونے دیں ،کسی خوش قسمت سیاستدان کو ہی ایسا موقع ملتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں