اپلائیڈ جمہوریت

جہاں اپنا مفاد ہوا وہاں جمہوریت جمہوریت کرنے لگے اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں بدترین آمریت کا ساتھ بھی فرض سمجھ کر نبھایا


اکرم ثاقب September 08, 2020
مغرب سے ایک تحریک چلائی گئی جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ دنیا بھی ایک عجیب جگہ ہے، یہاں جو حقیقت ہے وہ نظر نہیں آتی اور جو جھوٹ ہے وہ اچھل اچھل کر سامنے آتا ہے۔ جو ہورہا ہے وہ اس کے یکسر متضاد ہے جس کا پرچار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں طاقت ہی ہمیشہ سب کچھ رہی ہے اور خونخوار بھیڑیے کی طرح اس نے ہمیشہ جھوٹے بہانے ہی سے کمزور کو مارا اور لوٹا ہے۔ دنیا میں اس منافقت کی بہت سی مثالیں ہیں مگر مغرب کے دلفریب نعرے اس کی بہترین مثال ہیں۔

مسلمان صدیوں پہلے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے۔ اگر کوئی رمق تھی تو وہ حجاز مقدس سلطنت عثمانیہ اور ہندوستان کی مغلیہ سلطنت میں تھی۔ باقی ساری مسلم دنیا کو مغرب زیر کرچکا تھا۔ اسپین تہہ تیغ ہوچکا تھا۔ بغداد کے دریا مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوکر بہہ چکے تھے۔ تو مغرب نے ان تین جگہوں پر بھی مسلمانوں کی رہی سہی عزت کو تار تار کرنے کا ارادہ کرلیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں قدم جمائے اور 1857 میں پورے ملک کو تاج برطانیہ کا حصہ بنادیا۔ ترکی کے خلاف سازش کی اور عثمانی شہنشاہ کو برطانیہ میں ہی سیاسی پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ شریف مکہ کی جگہ سعود خاندان آگیا اور یوں مسلمانوں کا پرانا نظام ختم کردیا گیا۔ اب ان تمام ریشہ دوانیوں کے پیچھے ایک مغرب کا ہی ہاتھ تھا۔ مغرب دنیا پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسے مہذب بنانے کی تگ و دو کررہا تھا۔ ساری دنیا کے مالی وسائل پر قبضہ کرکے دنیا کی خوشحالی کی پیہم کوشش میں لگا تھا۔ یہاں سے مغرب کی منافقت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مفاد کے حصول کو بھی دنیا کے مفاد کا لبادہ اوڑھا دیا اور وائٹ مین برڈن کہہ کر دنیا کو مفلس بنادیا۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب ہی سے ایک تحریک چلائی گئی جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا۔ یہ جمہوریت محض اس لیے مشہور کی گئی کہ مسلمانوں کو کسی جگہ بھی حکومت حاصل نہ ہوسکے اور جہاں ہو بھی وہاں اتنی کمزور ہو کہ یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہ ہوپائیں۔ افریقہ اور ایشیا میں ایسی ہی حکومتیں قائم کی گئی تھیں اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کو تقسیم بھی کردیا گیا۔ یہ بظاہر عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کےلیے حکومت تھی، مگر پوری دنیا میں مسلمانوں کو اس جمہوریت سے بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ مسلمان کی تقسیم کی گئی اور وسائل غیر مسلموں کے ہاتھوں میں دے دیے گئے۔ یہ تو تھی اس زمانے کی جمہوریت۔ اب ذرا اس دور کی جمہوریت کے نعرے کی بات کریں تو مغرب نے ہمیشہ ایسی جمہوریت کا ساتھ دیا ہے جو آئی ایم ایف کی مقروض ہو، مغرب کی گرویدہ ہو اور مغربی افکار کی پیروی میں فخر محسوس کرے۔ اگر کوئی ملک ایسی جمہوریت سے ادھر ادھر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس ملک میں ایسی افراتفری پھیلائی جاتی ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے والی حکومت پھر کشکول لے کر مغرب کے در پر ہاتھ باندھے آ جاتی ہے۔

مغرب کے مخالف قسم کی جمہوریت یعنی چین یا روس کے ساتھ ترقیاتی معاہدے اور قریبی تعلقات کو جمہوریت کی نفی سمجھا جاتا ہے اور سوویت یونین کے ملحدوں کو شکست دینے کےلیے مسلمانوں سے جہاد کروایا جاتا ہے۔ اور جہاد کا فتویٰ بھی مغرب کی طرف سے مشہور کیا جاتا ہے، القاعدہ ترتیب دی جاتی ہے اور روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اگر القاعدہ اسلام کو سمجھنے کی یا اسلام کا حق مانگنے کی منت ہی کردے تو پھر ڈیزی کٹر بموں سے اسے اڑا دیا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں غیر مسلموں کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے ترجیحی بنیادوں پر فوری حل کیا جاتا ہے، بے شک یہ کسی دوسرے ملک (انڈونیشیا) کی تقسیم ہی کیوں نہ ہو، مگر مسلمانوں کو اپنے ہی اوطان کشمیر، فلسطین اور دوسرے افریقی اور عرب ممالک میں غریب الوطن کردیا جاتا ہے۔ 70 سال پرانے مسائل اور بھی الجھا دیے جاتے ہیں۔ مغرب پھر بھی انسانی حقوق اور روشن خیال جمہوریت کا مشعل بردار ہے۔ ایسی جمہوریت کو ہم اطلاقی جمہوریت تو کہہ سکتے ہیں کہ جہاں اپنا مفاد ہوا وہاں جمہوریت جمہوریت کرنے لگے اور جہاں ضرورت نہ ہوئی وہاں بدتریں آمریت کا بھی ساتھ فرض سمجھ کے نبھایا جائے۔

یہ تو مغرب کی منافقت کی ایک مثال ہے۔ بوقت ضرورت انسانی حقوق، غیرت کے نام پر قتل، عورتوں کے حقوق اور آزادی، انبیا کی اور مقدس کتابوں کی بے حرمتی اور نبیوں کی بے توقیری کے نام پر آزادی اظہار کا پرچار۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو مغرب استعمال کرکے ہمارا استحصال کرتا رہتا ہے اور ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں اس کی بات مانتے ہیں۔ اور مانیں بھی کیوں نہیں؟ آخر ہماری معیشتیں آئی ایم ایف ہی تو چلاتا ہے، ہماری جمہوریت کو سہارا بھی تو ورلڈ بینک ہی دیتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں