کاش میں ایک لاکھ کا مقروض ہوتا
سومناتھ کا مندر کسی نے بھی توڑا ہو ، اس کا نقصان آپکی تنخواہ کاٹ کر ہی پورا کیا جائے گا۔۔۔
ISLAMABAD:
یادش بخیر زیادہ عرصہ نہیں گزرا،ہمارے ایک وزیراعظم شوکت عزیز نام کے بھی ہوا کرتے تھے ۔ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو وہ بہت عزیز تھے ، پہلے انھوں نے شوکت عزیزکو بطور وزیر خزانہ بھرتی کیا،پھر ترقی دے کر انھیں وزیراعظم بنا دیا ۔وزیر اعظم بنتے ہی شوکت عزیز کی شان و شوکت دیکھنے والی تھی ۔ وہ تو بھلا ہو گیلانی صاحب کا جنہوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک ایسے اعلیٰ کوالٹی کے سوٹ زیب تن کیے اور خوش لباسی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈز کچھ ایسے توڑے کہ عوام شوکت عزیز کے سوٹ اور ان کی شان و شوکت بہت جلد بھول گئے ۔ شوکت عزیز جس خاموشی کے ساتھ حکومت میں شامل ہوئے تھے ، گارڈ آف آنر لے کر اتنی ہی خاموشی کے ساتھ حکومت اور پاکستان دونوں سے ایسے باہر نکلے ، جیسے مکھن سے بال نکلتا ہے ۔ ان کا جو بھی کیا دھرا تھا ، اس کا ملبہ بھی پرویز مشرف پر آپڑا ۔ شوکت عزیز جاتے جاتے وہ سرکاری تحائف بھی اپنے ساتھ سمیٹ کر لے گئے جو انھیں بطور وزیراعظم غیر ملکی دوروں میں ، غیر ملکی سربراہان حکومت و ریاست کی جانب سے ملے تھے ۔ ایسے تمام تحائف سرکاری مال خانے یا حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں ، لیکن ایک قانونی شق کا فائدہ اٹھا کر انھوں نے ایسے تمام تحفے ایک معمولی سی رقم کے عیوض خریدے اور جہاز میں بھر کر ملک سے چمپت ہوگئے ۔
سنا ہے کہ آج کل وہ پاکستان سے باہر چارٹرڈ پلین لے کر دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں ، لیکن پاکستان کے قریب سے بھی نہیں گزرتے ہیں ، عوام بھی انھیں ایسے بھلا چکے ہیں جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔ پاکستان کے اکثر وزرائے خزانہ کی طرح وہ بھی کوئی اکنامسٹ یعنی معیشت دان نہیں بلکہ ایک بینکر تھے ۔ جس زمانے میں وہ اس ملک کی وزارت خزانہ کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے تو ان کے دو بڑے ہی دلچسپ مشغلے تھے ۔ ایک یہ کہ روزانہ صبح آفس پہنچتے ہی وہ یہ معلوم کرتے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہوگئے ہیں ؟ جیسے ہی انھیں یہ فیگرز فراہم کی جاتیں ، وہ اس کا اعلان اس وقت تک کرتے رہتے جب تک اس ملک کے ایک ایک فرد کو زرمبادلہ کی گنتی حفظ نہ ہوجاتی ۔ دوسرا شوق ان کا یہ تھا کہ وہ ملک کی فی کس آمدنی نکالنے کے بڑے شائق تھے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے زمانے میں عوام کی فی کس آمدنی میں بڑی تیزرفتاری کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔
یہ فی کس آمدنی کیا ہے ؟ میں اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ فرض کریں کہ ایک مقام پر چار افراد کھڑے ہیں ۔ ان چار افراد میں سے ایک صاحب پٹواری ہیں اور ان کی جیب میں بارہ ہزار روپے کی رقم موجودہے ۔ دوسرے صاحب ایک ضلعی عدالت کے پیش کار ہیں ، ان کی جیب میںپانچ ہزار نو سو اسی روپے کی رقم موجود ہے ، یہ ان کی آج کی اوپر کی آمدنی ہے ، جو اتفاقاً خاصی کم ہے کیونکہ وکیلوں کی ہڑتال کے باعث انصاف کی خرید و فروخت کا دھندا آج کچھ مندا تھا ۔ تیسرے صاحب ایک ٹریفک حوالدار ہیں ، ان کی جیب میں آج کی کمائی کے پورے دو ہزار روپے موجود ہیں ۔ چوتھا آدمی اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا ایک مزدور ہے ۔ اس کی جیب میں فقط بیس روپے پڑے ہیں ۔ اب اگر شوکت عزیز اپنے کوٹ کی جیب میں پانچ پانچ ہزار والے چھیانوے نوٹ یعنی چار لاکھ اسی ہزار روپے رکھ کر ان چاروں حضرات کے ساتھ کچھ دیر کے لیے کھڑے ہوجائیں تو حساب کتاب کے مروجہ قائدے یا فارمولے کے تحت یہ کہا جائے گا کہ سامنے جو پانچ آدمی کھڑے ہیں ان پانچوں آدمیوں کی فی کس آمدنی ایک لاکھ روپے ہے ۔ یا ان پانچوں کی جیب میں اوسطاً ایک ایک لاکھ روپیہ موجود ہے ۔
کیونکہ شوکت عزیز کے چار لاکھ اسی ہزار ، بھٹہ مزدور کے بیس روپے ، پٹواری کے بارہ ہزار ، پیش کار کے پانچ ہزار نو سو اسی روپے اور حوالدار کے دو ہزار روپے اگر جمع کیے جائیں تو یہ کل رقم پانچ لاکھ روپے بنتی ہے اور اس رقم کو ان پانچ افراد کی تعداد سے یعنی پانچ سے تقسیم کیا جائے تو فی آدمی کاغذات پر ایک لاکھ روپے کا مالک قرار دیا جائے گا ۔ اب فرض کریں کہ شوکت عزیز وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ ان کے جاتے ہی چار آدمیوں کی فی کس آمدنی اب گھٹ کر پانچ ہزار روپے رہ جائے گی ۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں بھٹہ مزدور کی جیب میں صرف بیس روپے ہی رہیں گے یعنی اس بے چارے کی قوت خرید محض بیس روپے ہی رہے گی ۔ اس غریب مزدور کو یہ چاروں حضرات اپنی جیب سے ایک ٹکہ دینے کے بھی روا دار نہیں ہوں گے ۔ لیکن فی کس آمدنی کے کاغذی حساب کتاب میں یہ مزدور برابر کا حصہ دار ہوگا ۔
مجھے شوکت عزیز آج اس لیے یاد آئے کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر اور فی کس آمدنی کا گراف بڑھنے کا تو اکثر ذکرکیا کرتے تھے ، لیکن ملک پر واجب الادا قرضوں اور دیگر واجبات کے بارے میں وہ ہمیشہ خاموش رہے ۔ اور آج یہ خبر سن کر مجھے بڑی '' مسرت '' ہوئی کہ فی کس آمدنی والے فارمولے کے عین مطابق آج پاکستانی عوام کا ہر فرد مبلغ چھیانوے ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے ۔ تھوڑا سا دکھ اس بات کا ضرور ہوا کہ یہ رقم راونڈ فیگر میں اگر ہوتی یعنی ایک لاکھ روپے فی پاکستانی ہوتی تو حساب کتاب بھی آسان ہوجاتا اور اس ملک کے اٹھانوے فیصد غریب عوام سینہ تان کر یہ کہہ سکتے کہ ''خبردار مجھے غریب نہ سمجھنا،کیا ہوا اگر میرے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے پیسے نہیں ہیں ، لیکن یہ نہ بھولو کہ میں بھی '' لکھ پتی مقروض '' ہوں ایک لاکھ روپے قرض لے کر ڈکار چکا ہوں ، ہے کوئی مائی کا لعل جو مجھ سے یہ لاکھ روپے اگلوا سکے؟ ''
میں تھوڑا سا دکھی تو ضرور ہوا کہ بجائے چھیانوے ہزار کے یہ رقم ایک لاکھ روپے فی کس ہوتی تو ذرا ہم غریبوں کا بھی کچھ بھرم ہوجاتا ۔ لیکن میں مایوس ہرگز نہیں ہوا ہوں ، کیونکہ قرضے لینے کے معاملے میں پچھلی حکومت نے پانچ سال کی مدت میں تیز رفتاری کے جو ریکارڈ توڑے تھے ۔ موجودہ حکومت نے محض پانچ ماہ میں جو رفتار دکھائی ہے ، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دو چار ماہ میں ہی اس ملک کے عوام فی کس لکھ پتی مقروض کہلانے کا ٹائٹل اپنے نام کر لیں گے ۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں ۔ پانچ ماہ کی کارکردگی دیکھ کر، مہنگائی کا گراف دیکھ کر اور ڈالر کی قدر یعنی روپے کی بے قدری دیکھ کر کوئی چھابڑی والا بھی یہ پیش گوئی کرسکتا ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت کے قائم کیے ہوئے ریکارڈ کو بہت جلد پاش پاش کر کے رکھ دے گی ۔ اور جلد ہی ہم سب لکھ پتی نہیں بلکہ ملین پتی مقروض کہلانے کے اہل ہوجائیں گے ۔ لیکن فی کس آمدنی میں اور فی کس مقروض میں جو بنیادی فرق ہے وہ ضرور سمجھ لیجیے ۔ فی کس آمدنی کے فارمولے میں زیادہ آمدنی والا کم آمدنی والے کو کچھ دیتا نہیں ہے ۔ لیکن فی کس مقروض والے فارمولے کے تحت جن لوگوں نے یہ قرضے لے کر اورکھا کر آپکو مقروض بنایا ہے ان کے ڈکارے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کاغذات پر اور فزیکلی بھی آپ ہی نے کرنی ہے ۔ چیخنا چلانا لاحاصل ہوگا ۔ کیونکہ سومناتھ کا مندر کسی نے بھی توڑا ہو ، اس کا نقصان آپکی تنخواہ کاٹ کر ہی پورا کیا جائے گا ۔