نیلسن اور حسینہ واجد

منڈیلا کا مرد ہونا اور حسینہ کا عورت ہونا انکے اپنےبس میں نہ تھا، یہ خاتون ایشیا میں اوراس مرد نے افریقہ میں جنم لیا


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate December 15, 2013
[email protected]

نیلسن منڈیلا اور حسینہ واجد۔ ان دو شخصیات میں کیا تضاد ہے؟ ایک مرد اور ایک عورت۔ ایک افریقی اور ایک ایشیائی۔ یہ دو ایسی باتیں ہیں جن میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ منڈیلا کا مرد ہونا اور حسینہ کا عورت ہونا ان کے اپنے بس میں نہ تھا۔ یہ خاتون ایشیا میں پیدا ہوئیں اور اس مرد نے افریقہ میں جنم لیا، یہ بھی ان کے ہاتھوں میں نہ تھا۔ کیا کچھ ان دونوں کے اختیار میں تھا؟ آج افریقہ ترقی کے راستے پر کیوں ہے اور بنگلہ دیش بحران کا شکار کیوں ہے؟ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہم ان دونوں شخصیات کی نفسیات بیان کریں گے جنھیں اپنے اپنے ملک میں حکمرانی کا موقع ملا۔

یہ 92 کے ورلڈ کپ کی بات ہے جب آتش جوان تھا۔ یہ علم ہوا کہ ممکن ہے جنوبی افریقہ کی ٹیم مقابلوں سے باہر ہوجائے۔ لیکن کیوں؟ یہ کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بڑا اہم سوال تھا۔ پتہ چلا کہ افریقہ میں ریفرنڈم ہونے والا ہے۔ کس بات پر ووٹنگ ہوئی ہے؟ پوچھا جارہا ہے کہ کالوں کو حقوق دیے جائیں؟ اگر گوروں نے کالوں کو اپنے برابر کا شہری مان لیا تو افریقہ کی ٹیم مقابلہ جاری رکھے گی۔ آسٹریلیا میں ورلڈ کپ اور افریقہ میں ریفرنڈم ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ یہ ڈر تھا کہ اگر نتیجہ کالوں کے خلاف آیا تو افریقن ٹیم کو مقابلوں سے باہر کردیا جائے گا۔ یہ ایسا معاملہ تھا کہ کھیل اور سیاست باہم مل گئے تھے۔ صرف سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کرکٹ میں اور صرف کھیلوں کے شوقین سیاست کے رسیا بن گئے تھے۔ ریفرنڈم کے نتیجے کا بے چینی سے انتظار تھا۔ گوروں نے اپنی غلطی مان کر اب کالوں کو بنیادی انسانی حقوق دینے کے لیے ہاں کردی تھی۔ اس ہاں نے جہاں افریقہ کے رنگ داروں کو فائدہ پہنچایا وہیں ان کے ہم وطن گوروں کے لیے دنیا بھر میں کھیل اور تجارت کے دروازے کھل گئے تھے۔ پیارے نبیؐ کے درس مساوات اور غلاموں کے حقوق کی حفاظت کے صدیوں بعد امریکا کے صدر ابراہام لنکن کی جدوجہد کا تسلسل افریقہ میں نظر آیا۔ وہیں سے علم ہوا کہ ایک لیڈر نیلسن منڈیلا ہیں جنھوں نے ستائیس برس قید کی سزا بھگتی ہے۔

اب ہم افریقہ سے ایشیا کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش آج بحران کا شکار کیوں ہے؟ 16 دسمبر جہاں پاکستانیوں کے لیے دکھ کا لمحہ ہے وہیں مشرقی بنگال کے باشندوں کے لیے یہ آزادی کا دن ہے۔ ہم حسینہ واجد کے وطن کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد ایک بار پھر ایک افریقی مرد اور ایک ایشیائی خاتون کے اعمال پر گفتگو کریں گے جو ہمیں ایک خوب صورت نتیجے پر پہنچنے میں مدد دے گی۔

قائداعظم اور مسلم لیگ جب ممبئی، لکھنو اور سندھ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے تھے تو بنگالیوں کوپاکستان کی اہمیت سمجھ میں آئی۔ انھوں نے اپناڈبہ پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان اور کشمیر کے ڈبے سے جوڑ دیا۔ جب ٹرین پاکستان کی منزل پرپہنچ چکی توان کی مذہبیت، قومیت میں بدل گئی۔ اسلامی مملکت کے نام پر بھرپور ووٹ دینے والوں نے زبان کی بنیاد پرعلیحدگی کی بنیاد رکھ دی۔ بنگال سے خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ اور حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ ایوب دور نے گھٹن پیدا کی اور 70 کے انتخابی نتیجے کو نہ ماننے نے تلخی۔ آئیے دسمبر کے اس ستمگرہفتے میں ان دردناک یادوں کو تازہ کرکے پھر تیزی سے حسینہ واجد اور نیلسن منڈیلا کے موازنے کی جانب بڑھتے ہیں۔

مجیب الرحمن 70 کے انتخابات میں پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔ حسینہ واجد اپنے والد کی کامیابی کی چشم دید گواہ ہوں گی۔ عوامی لیگ کے چھ نکات بہت بڑی صوبائی خود مختاری بلکہ تقریباً آزاد تھی۔ بھٹو اور یحییٰ کے بنگالیوں سے مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ وہ اقتدار کے بدلے مجیب سے اپنی وردی اور کامیابی کا خراج مانگ رہے تھے۔ قومی اسمبلی کا مارچ 71 میں ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ وہیں سے ہنگامے پھوٹ پڑے۔ نو ماہ تک ہم آپریشن کرتے رہے جسے بنگلہ دیشی ''جدوجہد آزادی'' کہتے ہیں۔ دسمبر تک وہ کچھ ہوا جو نہ ہونا چاہیے تھا۔ دونوں طرف سے ہر حربہ آزمایا گیا۔ حسینہ واجد کے ذہن میں اس دور کی تلخ یادیں نکلنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ بھارت نے مداخلت کی اور پاکستانیوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔ منتخب نمایندوں کو اقتدار منتقل نہ کرنے اور فوج کشی کی بدولت دنیا ہمارے خلاف تھی۔ 16 دسمبر کو مشرقی پاکستان ایک صوبے سے ملک بن گیا۔ مجیب ہماری قید میں تھے اور ہمارے فوجی بھارت کی قید میں۔ دنیا کے ''منصفوں'' نے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کروائے۔ مجیب ایک خطے کے اور بھٹو دوسرے حصے کے وزیراعظم بن گئے۔ تین سال گزرے تو ڈھاکا میں وزیراعظم کو جونیئر فوجی افسروں نے خاندان سمیت قتل کردیا۔ حسینہ واجد وہاں نہ تھیں اور بچ گئیں۔ ضیا الرحمن کی بی این پی ابھر کر سامنے آئی۔ اب تک مجیب و حسینہ واجد، بیگم خالدہ و جنرل ضیا الرحمن اور فوج یعنی ان تین قوتوں نے چالیس برسوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی ہے۔

آج ہم نیلسن منڈیلا اور حسینہ واجد کا موازنہ کیوں کر رہے ہیں؟ بنگلہ دیش آج سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کا شکار کیوں ہے؟ آئیے! ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈتے ہیں، جس میں ہمیں ایک افریقن مرد اور ایک ایشین خاتون کی شخصیات کا فرق نظر آئے گا۔ پچھلے انتخابات میں عوامی لیگ نے پچھتر فیصد سے زیادہ نشستیں حاصل کرلیں۔ حسینہ کی سیاسی پوزیشن ویسی ہوگئی تھی جیسی جنوبی افریقہ کے پہلے الیکشن کے بعد نیلسن منڈیلا کی تھی۔ عوامی لیگ نے انتخابات کے لیے غیر جانبدار سیٹ اپ کو تبدیل کردیا۔ انھوں نے آئین میں ترمیم کردی کہ چناؤ موجودہ حکومت کی نگرانی میں ہوں گے۔ اس سے خالدہ ضیا کی پارٹی نے ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع کردیا۔ دوسری طرف انھوں نے 71 میں پاک فوج کا ساتھ دینے پر جماعت اسلامی کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف نیلسن منڈیلا کا سچ بولنے پر این آر او تاریخ کے سامنے تھا۔ حسینہ واجد نہ منصفانہ انتخابات کے لیے تیار ہیں اور نہ درگزر کے لیے۔ ایک طرف انھوں نے اگلا الیکشن جیتنے کے لیے اپنی ہی نگراں حکومت کی موجودگی کی آئینی ترمیم کی ہے تو دوسری طرف سزاؤں کے لیے ٹریبونل بنایا۔ چار عشروں قبل پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے۔ انتقام کی اس روش نے بنگلہ دیش کو بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ ہنگامے ہیں، ہڑتالیں ہیں، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں اور ملک انتشار اور غیر یقینی کا شکار ہے۔

T-20 اگلے سال مارچ میں بنگلہ دیش میں ہونا ہے۔ آئی سی سی فکر مند ہے کہ اس طرح کی ہنگامہ آرائی جاری رہی تو ٹورنامنٹ کو بھارت منتقل کرنا پڑے گا۔ جنوری میں سری لنکا کو بنگلہ دیش کا دورہ کرنا ہے۔ کھیل نہ صرف کسی ملک کا دنیا میں اچھا امیج پیدا کرتے ہیں بلکہ یہ معاشی ترقی کا بھی سبب بنتا ہے۔ ایک طرف تاریخ کے روبرو حسینہ واجد کی نادانیاں ہیں تو دوسری طرف مورخ نیلسن منڈیلا کی دانشمندیوں پر حیران ہے۔ وہ لیڈر جس نے خود پر اور اپنی قوم پر ہونے والے مظالم کو ملک کی بہتری کے لیے معاف کردیا۔ انتخابات جیتنے اور جنوبی افریقہ کا سربراہ بننے کے بعد منڈیلا نے ایوان صدر کے محافظوں کو ہی برقرار رکھا۔ انھوں نے ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھنے والے گورے کھلاڑیوں اور عوام سے نہ جانے کی درخواست کی۔ وہ شاندار روایات قائم کیں کہ آج کی دنیا میں ان سے زیادہ قابل عزت کوئی نہ تھا۔ آخری رسومات کے موقع پر نیلسن منڈیلا کو پیش کیا جانے والا خراج عقیدت مثالی تھا۔ بات مرد و عورت کی نہیں اور نہ سوال ایشیا و افریقہ کا ہے بلکہ بات ہے سوچ کی۔ آج ہمارے سامنے اپنے وطن کو ترقی دلانے اور نہ دلانے والی دو شخصیات ہیں۔ درگزر والا نیلسن منڈیلا کا اور انتقام کا حسینہ واجد کا نظریہ۔ تاریخ دو نظریوں کو لے کر دو شخصیات کو یاد رکھے گی۔ اعلیٰ ظرفی اور کم ظرفی کے دو نام۔ دو نام نیلسن اور حسینہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں