سلام

میں نے مختلف وقتوں میں پانچ سلام لکھے ہیں جو میرے مختلف مجموعوں میں شامل ہیں۔


Amjad Islam Amjad August 30, 2020
[email protected]

KARACHI: کسی فضیلت والے کام یا کارنامے پر اُس کے کرنے والے کی خدمت میں ہدیہ، تحسین، مبارکباد، اعترافِ عظمت ، سیلوٹ یا اظہارِ تشکر کے لیے دنیا کی ہر زبان میں صنفِ شعر سے کام لیا گیا ہے مگر اس کے لیے کوئی باقاعدہ فارم یا طریقہ کار متعین ہو، ایسا صرف اُردو یا بعض اور مشرقی زبانوں میں ہی ممکن ہے کہ ہمارے یہاں اگرچہ ''سلام'' کا لفظ بہت وسیع معنوں میں اور مختلف حوالوں سے بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن ا س کے جو معانی سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں اُن کا تعلق سانحہ کربلا اور جنابِ امام حسینؓ اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت سے ہی قائم کیا جاتا ہے اور اس بات کو اگر زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو سلام ہی وہ شعری اظہار ٹھہرا ہے جس میں نواسہ رسولؐ جناب امام حسینؓ علیہ السلام کی عظمت، جرات، اصول پسندی اور قربانی کے پس منظر میں اُن کی ذات اور صبر عظیم کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

تاریخ اسلام میں مختلف ادوار اور زبانوں میں ایک سے زیادہ شعری پیرایوں میں اس کے نمونے نہ صرف ملتے ہیں بلکہ اُردو میں تو اس کو ایک باقاعدہ صنف کا درجہ دیا جا چکا ہے اور اب بے شمار ایسے انتخاب اور مجموعے بھی شایع ہو چکے ہیں جن میں صرف ''سلام'' ہی کو شامل کیا گیا ہے اور یہ ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں ہر عقیدے اور فرقے سے تعلق رکھنے والے شعراء نے بڑھ چڑھ کر اپنا خراج عقیدت بحضور امام عالی مقام پیش کیا ہے اور یوں اب ''سلام'' رسائی ادب کا ایک ایسا مظہر بن چکا ہے جو فی زمانہ شائد سب سے زیادہ معقول اور معروف ہے۔

میں نے مختلف وقتوں میں پانچ سلام لکھے ہیں جو میرے مختلف مجموعوں میں شامل ہیں اور میری ایک کتاب ''اسباب'' میں جو میری لکھی ہوئی تمام تر حمدوں، نعتوں اور سلاموں کا مجموعہ ہے، یہ ایک ہی جگہ پر جمع بھی کر دیے گئے ہیں ان کا عرصہ تحریر گزشتہ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے اس دوران میں وطنِ عزیز جن مراحل سے گزرا ہے اور خود میری سوچ میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، اب میں مُڑ کے ان سلاموں پر نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہر سلام میں جناب امام ؑ کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہوئے کسی پُراسرار طریقے سے وہ مضامین بھی ان میں در آئے ہیں جو لکھنے کے دوران میرے اِرد گرد بکھرے ہوئے تھے اور یوں ہر سلام میں اُن کی عظیم شہادت کا کوئی نیا پہلو اس طرح سے اُجاگر ہوا ہے کہ زمان و مکان کی بہت سی سرحدیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی چلی گئی ہیں ۔

واضح رہے کہ پہلا سلام 1970 میں لکھا گیا تھا جب کہ دوسرے اور تیسرے سلام کے درمیان تقریباً بیس بیس سال کا فرق ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی نہ صرف اُن کی یاد اور قربانی زندہ وتابندہ ہیں بلکہ تاریخ اسلام ہربدلتے ہوئے موڑ پر اُن کی عظمت نہ صرف زیادہ محکم اور روشن ہوتی جا رہی ہے بلکہ ہماری زندگیوں ، حوصلے ا ور مسائل کے حل کے ساتھ اُس کا تعلق بھی مزید گہرا اور بامعنی ہوتا جا رہا ہے ۔ تینوں سلام زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں ۔

۱)میںنوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں

کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رُتوں کے د امن میں

عورتوں کی اُداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

اور اُن کے بچوں کی تیز چیخوں کو سُن رہا ہوں

اور اُن کے مردوں کی سرد لاشوں کو گِن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر

فصیلِ دشت کو چُھو رہا ہوں

زمین کے گولے پہ زرد کالے تمام نقطے

لہو کی سُرخی میں جَل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر مسافرانِ تباہ

یادوں کے ریگزاروں میں چل رہے ہیں

میں نوحہ گر ہوں مسافروں کا

جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں

میں ہوش والوں کی بدحواسی کا نوحہ گر ہوں

حسین ؓ میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

ہمارے آگے بھی کربلا ہے

ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حسین ؓ میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوںسے

مِلا ہے مجھ کو مقام میرا

حسین ؓ تجھ کو سلام میرا

حسین ؓ تجھ کو سلام میرا

۲)بھٹک رہی ہے زمین یہ خلقِ خدا ہراساں

کہ رہبری کا کمال دُنیا سے اُٹھ گیا ہے

پھر اہلِ زر کی تو نگری ہی نشانِ رُتبہ و جاہ ٹھہری

ہنروری کا جمال دنیا سے اُٹھ گیا ہے

میں منتظر ہوں ہَوا کے رستے میں اُس خبر کا

جو روشنی کا پیام لائے

میں منتظر ہوں گزرتے لمحوں میں اُس گھڑی کا

جو اس سفر کے محیط غم میں

کوئی سکوں کا مقام لائے

زباں پہ کانٹے سے اُگ رہے ہیں

پھر آج شدّت وہ پیاس میں ہے

مرے وطن کی فضا عجب اِک ہراس میں ہے

حسین ؓ تیری تلاش میں ہے

یہ راہ بھولا ہُوا قبیلہ

حسین ؓ تیری تلاش میں ہے۔

۳)جلتے تھے ہونٹ پیاس سے ٗ دریا تھا سامنے

لیکن وقارِ تشنگی، ٹھہرا تھا سامنے

تنہا ہو جیسے کوئی دِیا آندھیوں کے بیچ

ایسے وہ اُس ہجوم کے آیا تھا سامنے

خیموں میں آگ، ریت پہ لاشے پڑے ہوئے

ڈھلتی تھی دھوپ، شام تھی، صحرا تھا سامنے

لاکھوں کی تھیں حسینؓ پہ نظر یں لگی ہوئیں

لیکن وہاں تو ایک ہی رستا تھا سامنے

اک پَل میں روشنی کے معانی بدل گئے

اُس نے عجب چراغ سا رکھا تھا سامنے

لکھتا تھا ریت پر وہ لہو سے پیامِ حق

دل کی ہر ایک بات وہ کہتا تھا سامنے

دستِ یزید میں نہ دیا ہاتھ ایک بار

ورنہ ہر ایک غم کا مداوا تھا سامنے

حاضر تھے واں سلام کو تارے بھی ٗ اشک بھی

مقتل حسین ؓ ابنِ علی ؓکا تھا سامنے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں