وطن واپس لوٹنے والے پردیسی

سی پیک اور بھاشا ڈیم جیسے بڑے پروجیکٹس میں وطن واپس لوٹنے والے ہنرمندوں کو شامل کرکے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے


وطن لوٹنے والے ان پاکستانیوں کی اکثریت فنی لحاظ سے وسیع تجربے کی حامل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرے کزن کو اپنی سبزی منڈی کےلیے ایک عدد منشی کی ضرورت تھی۔ جس امیدوار کو انٹرویو کےلیے شرفِ قبولیت بخشا گیا وہ سعودی پلٹ نوجوان تھا۔ یہ نوجوان کمپیوٹر سائنسز میں انٹر ہونے کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی تجربہ بھی رکھتا تھا۔ میرے لیے یہ انتہائی حیران کن بات تھی۔ لیکن میری حیرت اس وقت دور ہوگئی جب میڈیا کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ تین لاکھ پاکستانی وطن کو لوٹ چکے ہیں۔ ان میں متحدہ عرب امارات سے 154856، سعودی عرب سے 63595، قطر سے 17062، برطانیہ سے 7122، اومان سے 11792 اور ملائیشیا سے 4714 پاکستانی وطن کو لوٹے۔ اس کے علاوہ افغانستان، بھارت، ایران، امریکا، آذربائیجان، کینیڈا اور دیگر ممالک سے بھی ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی وطن واپس پہنچے۔

وطن لوٹنے والے ان پاکستانیوں کی اکثریت فنی لحاظ سے وسیع تجربے کی حامل ہے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر سے لوٹنے والے پاکستانی بڑے بڑے پراجیکٹس پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اگر ان پاکستانیوں کو سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے میں شامل کیا جائے تو یہ ان کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال ہوگا۔ کیونکہ ہنرمند افرادی قوت کسی بھی منصوبے کی کامیابی کےلیے ضروری ہوتی ہے۔ شاید تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی وطن کو لوٹے ہیں۔ گزشتہ برس تک دیارِ غیر سے وطن واپس لوٹنے والوں کو اہل وطن بے حد عزت و تکریم سے نوازتے تھے، مگر آج کل پردیسی اپنے ہی وطن میں پردیسی ہیں۔

خوش آئند امر یہ ہے کہ اس وقت سی پیک کی سربراہی عاصم سلیم باجوہ جیسے محب وطن پاکستانی کے پاس ہے، جو ٹیوٹا اور نیوٹیک کے تعاون سے زیادہ سے زیادہ ہنرمند پاکستانیوں کو سی پیک میں مواقع دینے کے خواہش مند ہیں۔ جس کے ملکی معیشت پر انتہائی دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ نئے ہنرمندوں کے ساتھ اگر پرانے اور وسیع تجربے کے حامل دیار غیر سے لوٹنے والے پاکستانیوں کو سی پیک میں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو یہ نئے اور پرانے دونوں کےلیے فائدہ مند ہوگا اور اس طرح ہماری ہنرمند افرادی قوت ہماری ہی ترقی کےلیے استعمال ہوسکے گی۔

یاد رہے پاکستان چائنا انسٹیٹوٹ (پی سی آئی) کے زیر اہتمام ویبنار میں اظہار خیال کرتے ہوئے گوادر بندرگاہ کے امور کو چلانے والی کمپنی سی او پی ایچ سی کے سربراہ ژانگ باؤژونگ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ سی پیک پراجیکٹس میں کام کرنے والا کوئی بھی پاکستانی ملازم کورونا وائرس کے بحران کے دوران نہ اپنی ملازمت سے محروم ہوا اور نہ ہی تنخواہوں میں کوئی کٹوتی دیکھنے میں آئی۔ ماضی میں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے چینی سفیر یاہو جنگ کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جاری منصوبوں پر 70 ہزار پاکستانیوں کو ملازمتیں مل چکی ہیں اور مستقبل میں 7 لاکھ پاکستانیوں کو ملازمتیں ملیں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی پیک میں 50 سے 60 ارب ڈالر کی لاگت سے 43 منصوبے شامل ہیں، جن میں سے 8 منصوبے مکمل کرلیے گئے ہیں اور 14 پر کام جاری ہے، جب کہ 20 منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔

آخر میں میری وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ آپ ذاتی دلچسپی لے کر سی پیک، بھاشا ڈیم میں دیارِ غیر سے لوٹنے والے ہنرمند پاکستانیوں کو شامل کروائیے، تاکہ ہماری ہنرمند افرادی قوت وطن عزیز کی تعمیر وترقی کےلیے استعمال ہوسکے۔ بصورت دیگر یہ لوگ یا تو کم تنخواہوں پر ہی سہی واپس لوٹ جائیں گے یا پھر نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔ اس لیے بہتر ہوگا جلد ازجلد انہیں ملک کے وسیع تر مفاد میں مواقع فراہم کیے جائیں۔ بیرون ملک سے لوٹنے والے ہنرمندوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کی ایسے ہی خدمت کریں جیسے وہ دوسرے ملکوں کی خدمت کرتے تھے تاکہ سوہنی دھرتی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں