میانہ روی

’’میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا۔‘‘ (الحدیث)


قرآن پاک میں اسراف اور فضول خرچی کو شیطانی عمل اور اس کے کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو فائل

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں کھانے پینے اور خرچ کرنے کے بارے میں بھی بہترین اصول بتائے گئے ہیں۔

اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو دینی اور دنیاوی ہر مرحلے میں بہترین اور زریں اصولوں سے نوازا ہے۔ جہاں اسلام نے ہمیں اپنا مال اور اس کا دیا ہوا حلال رزق اپنے اہل و عیال اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے، وہیں ہمیں یہ بھی تلقین و تاکید فرمائی ہے کہ اس مال کو خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ اختیار کی جائے۔

چناں چہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں ارشاد فرمایا:''اے ایمان والو! (اﷲ کے دیے ہوئے پاک رزق میں سے) کھائو پیو اور اسراف (فضول خرچی) نہ کرو۔''
ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:''اے لوگو! زمین کی ان چیزوں میں سے کھائو جو حلال اور طیب ہیں اور شیطان کی پیروی مت کرو۔ بے شک! وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔'' (سورۃ البقرہ)

اسراف و فضول خرچی کا مفہوم یہ ہے کہ خرچ کرنے میں حد شرعی سے تجاوز کیا جائے، جب کہ اس کا دوسر مفہوم یہ ہے کہ ناجائز اور حرام کاموں میں خرچ کرنا اسراف و فضول خرچی کہلاتا ہے۔ دوسری جانب میانہ روی کا مطلب یہ کہ ہر چیز میں درمیانہ راستہ اختیار کرنا، خواہ وہ مال خرچ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔

اسلام تو ہمیں ہر موقع پر فضول خرچی کرنے سے منع فرماتا ہے اور ہر کام میں درمیانی راستہ یا اعتدال کی راہ اپنانے کی حکم عطا فرماتا ہے اور عقل مند آدمی ہمیشہ اپنی دولت دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر صرف اپنی جائز ضروریات پر ہی خرچ کرتا ہے۔ اپنی ضروریات پوری کرتے وقت حد سے بڑھ جانا اسراف و فضول خرچی کہلاتا ہے۔

یعنی انسان نمود و نمائش یا غرور و تکبر کا اظہار یا دوسروں سے آگے نکل جانے کی دوڑ میں اپنی ناجائز ضروریات یعنی لباس اور رہائش وغیرہ میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا، اسلامی لحاظ سے یہ عمل قطعاً ناپسندیدہ اور قابل گرفت ہے۔ اسلام میں اسراف اور فضول خرچی سے منع فرمایا گیا ہے، کیوں کہ اسلام اعتدال کا مذہب ہے۔ اس میں اگر ایک طرف بخل اور کنجوسی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے۔
قرآن پاک میں اسراف اور فضول خرچی کو شیطانی عمل اور اس کے کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور اسراف اور بے جا خرچ کرنے سے بچو۔ بلاشبہہ بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے۔'' (سورۂ بنی اسرائیل)

خرچ کرنے کے بار ے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات کو مناسب طریقے سے پورا کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، بیوائوں، حاجت مند اور مسافروں پر اپنا مال خرچ کرے اور اپنی دولت سے ان محروم لوگوں کا حق ادا کرے جو اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ لوگ خود داری اور شرم وحیا کی وجہ سے امیر و کبیر اور دولت مندوں سے سوال بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے۔

سورۃ الفرقان میں اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بخل و کنجوسی کرتے ہیں اور نہ ہی اسراف و فضول خرچی، بلکہ میانہ رو اور معتدل ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور یہ لوگ (رحمن کے پسندیدہ بندے) جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی اختیار کرتے ہیں، بلکہ درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں۔'' (سورۃ الفرقان)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا۔''
اس مختصر سی حدیث پاک میں اﷲ کے رسولﷺ نے ہمیں ناداری، غربت، افلاس اور تنگ دستی جیسی آفات سے بچنے کا حل بتادیا ہے۔

اعتدال و میانہ روی کی تاکید کے معاملے میں اسلام سب سے منفرد اور نمایاں ہے۔ اسلام ہمیں ہر عمل میں میانہ روی کی ہدایت عطا فرماتا ہے البتہ حدیث مذکورہ میں ہمیں خاص طور پر خرچ میں میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں