کراچی کا ڈوبنا اور بے اختیاری کا رونا

منتخب نمائندے چار سال تک اختیارات نہ ملنے کا رونا روتے رہے اور عوام بنیادی سہولیات کےلیے ترستے رہے


مزمل فیروزی August 27, 2020
میئر کراچی اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا رونا روتے رہے۔ (فوٹو: فائل)

میئر کراچی وسیم اختر کی آخری پریس کانفرنس کا بہت چرچا رہا۔ وجہ بنی ان کے آنسو، جو کبھی عوام کی حالت زار پر تو نہیں نکلے لیکن اقتدار کے پانچ برس مکمل ہوتے ہی اقتدار جاتا دیکھ کر ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ جس کو سابق میئر کراچی اور متحدہ کے پرانے دیرینہ ساتھی فاروق ستار نے مگرمچھ کے آنسو قرار دیا، جبکہ عوامی رائے بھی اس کے برعکس نہیں۔

میئر کراچی و بلدیاتی منتخب نمائندے 28 اگست کو اپنی مدت پوری کرنے والے ہیں۔ ان چار سال میں چوہے بلی کی لڑائی ہمیں سندھ سرکار اور میئر کراچی کے درمیان دیکھنے کو ملتی رہی اور اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان شہر قائد میں بسنے والوں کا ہوا۔ منتخب نمائندے چار سال تک اختیارات نہ ملنے کا رونا روتے رہے اور عوام بنیادی سہولیات کےلیے ہی ترستے رہے۔ ایک طرف بارش کا پانی اس پر سونے پہ سہاگہ سیوریج کا گندا پانی عوام کو منہ چڑاتا رہا۔ مساجد، امام بارگاہیں اور بازار کے راستوں میں کچرا، گند و غلاظت بدستور پڑی رہی۔ بارش کے بعد وہی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بے ہنگم راستے عوام کا مقدر رہے۔ برسات کا پانی گھروں میں تو داخل ہوا اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے اور یہ عوامی نمائندے ان مصیبت کے مارے عوام کےلیے بیانات کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ گھر تو چھوڑیں مساجد و امام بارگاہوں تک کی صفائی نہ کرواسکے۔ عوام اپنی مدد آپ کے تحت لگے رہے۔

اس سے پہلے گرمیوں میں عوام پینے کے پانی کو بوند بوند ترستے رہے اور پانی کےلیے سراپا احتجاج رہے مگر میئر کراچی کسی مرض کی دوا نہ بن سکے۔ میئر کراچی اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا رونا روتے رہے اور علاقے کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگئے۔ عوام چیئرمین اور یونین کونسلرز کے دفتر کے چکر کاٹتے رہے اور عوامی نمائندے عوام سے ہی منہ چراتے رہے۔ عوام کے چیختے چلاتے چار سال گزر گئے مگر نہیں بدلے تو علاقوں کے حالات نہیں بدلے۔

اگر دیکھا جائے تو کراچی کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم شہر قائد میں بطور میئر 13 سال اقتدار میں رہی۔ سب سے پہلے ڈاکٹر فاروق ستار 1988 سے 1992 تک، پھر سید مصطفیٰ کمال 2005 سے 2010 تک، مصطفیٰ کمال کی مدت 2010 میں ختم ہونے کے بعد، پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبے بھر میں بلدیاتی انتخابات کروانے میں پانچ سال لگائے جو 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے۔ 5 دسمبر 2015 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے ''میئر تو اپنا ہی ہونا چاہیے'' کے نعرے کی بدولت بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور 24 اگست 2016 میئر کے انتخاب کےلیے 208 ووٹ حاصل کرکے وسیم اختر کو اپنی جماعت کا تیسرا میئر منتخب کروایا۔ مگر وسیم اختر جو اگست 2016 سے اگست 2020 تک شہر قائد میں بطور میئر مسند پر براجمان رہے۔ شہر قائد کے باسیوں کو انتہائی مایوس کیا اور افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے اپنے ہی اپنوں کےلیے کچھ نہ کرسکے اور اختیارات نہ ہونے کا راگ الاپتے رہے۔ جبکہ سندھ حکومت کے مطابق سالانہ 26 ارب روپے یعنی چار برسوں میں ایک کھرب اور چار ارب روپے کراچی کے میئر کو دیے گئے۔

اگر محکموں کی بات کی جائے تو کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس کل ملا کر 32 محکمے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی 14 اسپتالوں کا نظام بھی چلاتی ہے۔ میئر کراچی کے ماتحت شہر قائد کے 34 اہم پارکس اور کراچی کی 28 بڑی شاہراہیں بھی کے ایم سی کے تحت ہیں۔ جبکہ اس پورے نظام کو چلانے کےلیے کراچی میونسپل کارپوریشن کے پاس 13 ہزار ملازمین بھی ہیں۔ وسیم اختر کو نہ صرف سندھ حکومت کی جانب سے دیے گئے ایک کھرب اور چار ارب روپے کا حساب دینا ہوگا بلکہ سندھ حکومت کی جانب سے شہر قائد کی ترقی کےلیے 42 ارب روپے الگ سے بھی دیے گئے تھے، اس کا کیا کیا گیا؟ عوام وہ بھی جاننا چاہتے ہیں۔

اتنی بڑی رقم ملنے کے بعد بھی میئر کراچی اختیارات کا رونا روتے رہے اور کراچی کے شہریوں کےلیے کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ڈسپنسریوں کی حالت زار قابل بیان نہیں، وہاں عملہ موجود نہیں ہوتا۔ ڈی ایم سیز کے تحت چلنے والے اسکولوں کے اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہی۔ پارکس کی تزئین و آرائش پر کام ہوتا رہا کیونکہ کتنی مٹی ڈالی، کتنی کھاد آئی، کتنے پودے لگائے، کون دیکھتا ہے؟

اپنی بے بسی کا رونا رونے والے میئر کراچی کا ایک وقت تھا کہ وسیم اختر دبنگ وزیر داخلہ تھے اور سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار اور تحریک انصاف کے چیئرمین اور موجود وزیراعظم عمران خان بھی ان کی مرضی کے بغیر کراچی میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ آج وہی وسیم اختر ہیں جو حالات بدلنے پر روتے نظر آئے۔

جبکہ دوسری طرف اپنی مدت پوری ہونے کے آخری دنوں میں وسیم اختر کافی متحرک نظر آئے۔ انہوں نے اراکین صوبائی اسمبلی اور چیئرمین کے ہمراہ متعدد علاقوں کا دورہ کیا اور سیوریج لائنز، روڈز اور پارکس کا افتتاح کیا۔ بارش کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کے فوری حل کرنے کی ہدایات دیتے رہے۔ یہ پھرتیاں آخری دنوں میں کیوں؟

عوام جاننا چاہتے ہیں یہی کام انہوں نے پہلے کیوں نہیں کروائے؟ جبکہ گزشتہ چار سال میں کراچی کے کسی گلی محلے میں کوئی روڈ کارپیٹنگ نہیں کی گئی اور کوئی دوسرا کام بھی ہوتا نظر نہیں آیا۔ سیوریج نظام کی ابتر صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک حساس مسئلہ بنتا جارہا ہے، خاص کر بارشوں کا پانی اور گٹر لائنوں سے نکلا ہوا گندا پانی یکجا ہوتا ہے تو اس علاقے کے بسنے والے میئر کراچی کو دل سے دعائیں دیتے ہیں۔ کیونکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ڈی ایم سی اور کے ایم سی نے سنگین ترین مسئلے کے حل کےلیے گزشتہ چار سال میں کچھ بھی نہیں کیا۔

بارشوں سے پہلے شہر قائد کے 38 نالوں میں سے کسی ایک کی بھی صفائی نہیں کی گئی۔ جس کا خمیازہ پورے کراچی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 32 محکموں میں سے کوئی ایک محکمہ بھی اپنی کارکردگی نہ دکھا سکا۔ ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے رہے۔ ہر محکمے میں رشوت ستانی و بدعنوانی عروج پر رہی۔ جس میں سرفہرست لینڈ ڈپارٹمنٹ رہا۔ مشیر باغات لیاقت قائمخانی کو نیب نے حراست میں لیا۔ افسران کے پیسوں کے عوض تبادلے ہوتے رہے، اقرباپروری عروج پر رہی۔ کے ایم سی میں خراب کارکردگی اور کرپشن کا راج رہا۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کہاں گئے؟ تحقیقات ہوگی یا نہیں؟ یا عوام کے پیسے سے میئر اور ان کے منتخب نمائندے اپنے خاندان والوں کےلیے سہولیات لے کر عوام کو جواب دیے بغیر ہی چلے جائیں گے یا پھر یہ بھی دوسرے سیاستدانوں کی طرح دیار غیر میں جاکر بس جائیں گے؟

سابق میئر کراچی فاروق ستار اور وسیم اختر کے درمیان جھگڑے کی وجہ بھی 9 ارب کا حساب مانگنا بنا تھا، جس پر وسیم اختر برہم ہوگئے تھے۔ مگر اب تو عوام کو انہیں ایک کھرب چھیالیس ارب کا حساب دینا ہے۔ اب یہ حساب کس طرح لیا جائے گا یا مک مکا ہوجائے گا۔

جبکہ ميئر کراچی کے بارے میں پیپلزپارٹی سندھ کا موقف ہے کہ وسیم اختر کراچی کے ناکام ترین میئر ہیں۔ وسيم اختر ميئر کی کرسی جانے کے غم میں جذباتی ہوگئے تھے، میئر کی مدت پوری ہونے والی ہے اور آج ان کو ترقیاتی کام یاد آئے ہیں۔ کراچی کے عوام کےلیے کچھ نہیں کیا۔ سندھ حکومت نے کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کو بجٹ کے علاوہ اربوں روپے اضافی فنڈز جاری کیے مگر انہوں نے کام نہ کرنے کا حلف اٹھایا ہوا تھا۔ ابھی حال ہی میں ایم کیو ایم کے منتخب قومی اسمبلی سے دوران گفتگو اندازہ ہوا کہ یہ لوگ خود ہی اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں تو وہ اب کس منہ سے دوبارہ الیکشن میں جائیں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی میں بسنے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں کس کو منتخب کرتے ہیں اب دوبارہ یہ نعرہ کام کرے گا یا نہیں ''میئر تو اپنا ہونا چاہیے''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں