طالبان سے جرات مندی کے ساتھ مذاکرات کا موقع

اگر ٹی ٹی پی بھارتیوں اور افغانوں کے لیے کام رہی تھی تو پھر وہ امریکا کے دشمن کیسے ہو گئے؟


Babar Ayaz December 14, 2013
[email protected]

تحریک طالبان پاکستان(TTP) کے معذرت خواہ ڈھٹائی کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔وہ ٹیلیویژن اسکرین پر حکیم اللہ محسود کے قتل پر رو دھو اور غم و افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔وہ اس شخص کی ہلاکت کی ان ہزاروں سویلینز اور فوجی اہل کاروں کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ مذمت کر رہے ہیں،جنھیں حکیم اللہ کی زیر قیادت ٹی ٹی پی وحشیانہ انداز میں قتل کر چکی ہے۔

ہم ٹی ٹی پی کے سیاسی حمایتیوں کی طرف سے دیے جانے والے چند بڑے دلائل کا مختصراً تجزیہ کرتے ہیں۔اول، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ امریکا نے حکیم اللہ کو عین اس وقت قتل کیا،جب حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے والی تھی، تاکہ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار اور مذاکرات کو سبوتاژ کر سکے۔یہ رہنما جرات کی کمی کے باعث اس چیز کو بڑی آسانی کے ساتھ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ مذاکرات کی پیشکش کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی حکمت عملی دہشت گردی کی کارروائیاں بند کرنا نہیں تھی، بلکہ پاکستانی طالبان نے سینئر فوجی افسروں،ایف سی کے جوانوںکے قتل اور عام لوگوں پر دہشت گرد حملوں میں شدت پیدا کر دی،جس کے لیے انھوں نے اپنی ذیلی تنظیموں کو استعمال کیا،وہ اپنی سودے بازی کی قوت کو بڑھانے کے لیے حرکت میں آ گئے۔اس کی ہمیشہ توقع کی جاتی ہے کیونکہ تمام مسلح تنازعات میںگفت وشنید کے ساتھ ساتھ ہر فریق اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسری طرف حکومت طاقت کا کوئی مظاہرہ کیے بغیر، کمزور اور امن کے لیے بھیک مانگتی نظر آئی۔ اس پس منظر میں اگر امریکا نے ٹی ٹی پی کے لیڈر کو،جس نے اس تنظیم اور القاعدہ کی طرف سے جاری کی جانے والی ویڈیوز میں لاتعداد افرادکے قتل کا دعویٰ کیا تھا، ہلاک کر دیا تو حکومت کو اس موقعے کو یہ پیغام بھیجنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا کہ ٹی ٹی پی کو مہذب رویہ اختیار کرنا ہو گا ورنہ پھر پاکستان اور امریکا دونوں کی طاقت سے ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔اس کے برعکس جذباتی عمران خان کے مسخ شدہ حقائق سے حکومت کو ایک کونے میں دھکیلا جا رہا ہے۔حکومت حوصلہ مندی کے ساتھ قیادت کرنے کی بجائے دائیں بازو کے رہنمائوںکے پیچھے چل رہی ہے جو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ حکیم اللہ کو شہید کا درجہ دیتے ہیں۔دوئم یہ کہ ٹی ٹی پی کا سیاسی شعبہ کہتا ہے کہ امریکا نے یہ کام اپنے مفاد میں کیا ہے۔یقیناً کوئی احمق ہی اس بات پر یقین کرے گا کہ عملی سیاست میں کسی بھی ملک کے سیاست دان دوسروں کے لیے کسی غرض سے ہٹ کر بھی کچھ کرتے ہیں۔بعض امریکا مخالف لبرل اوربائیں بازو کے فعال کارکنوں کی طرف سے بھی ان کی حمایت کی جاتی ہے۔

یہاں وہ بعض بنیادی باتیں بھول جاتے ہیں۔ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے جڑی ہوئی دوسری تنظیموں نے پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں اور فوجی اہل کاروں کو قتل کیا ہے کہ پچھلے 66 سالوں کے دوران متعدد فوجی مہمات میں بھی اتنے لوگ نہیں مارے گئے ۔جیسا کہ اس سال مئی میں جنرل کیانی نے بجا طور پر کہا تھاکہ دہشت گرد اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔اس قسم کے معاملے میں پاکستان کے عوام اور امریکا کے مفادات میں یکسانیت ہے۔کیونکہ دونوں کو دہشت گرد تنظیموں سے خطرہ ہے۔ جب سیاست میں اس قسم کے کسی معاملے سے نمٹنا ہوتو یہ دیکھنا بہت اہم ہوتا ہے کہ کون آپ کے ممکنہ اتحادی اور کون مخالف ہیں۔معاشی ماڈل سے متعلق متعدد معاملات یا چین اور ایران کے خلاف امریکی عزائم پر ہمارا اختلاف ہو سکتا ہے مگر فوری طور پر درپیش خطرہ ان لوگوں سے ہے جو القاعدہ کے نظریے پر عمل پیرا ہیں،جس کا مقصد ہمیں واپس قرون وسطیٰ میں دھکیلنا ہے اور یہ لوگ مسلم اکثریتی ممالک سے شروع ہو کر پوری دنیا میں اپنے نظریات کا اسلامی انقلاب لانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

سوئم،پاکستان بار بار احتجاج کر تا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں اوران سے ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ ہم کس کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں؟ پورا ملک جانتا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے ساتھ والے علاقوں میںپاکستان کاکوئی کنٹرول نہیں ہے۔چنانچہ ایک ایسا علاقہ جہاں ہماری کوئی رٹ نہیں ہے،اور پچھلی تین دہائیوں میں ہم اسے قائم کرنے میں ناکام رہے ہیںہمارے اقتدار اعلیٰ کے تحت نہیں ہے۔حقیقت میں یہ ایکno man's land ہے۔اس کے ساتھ ہی ہمیں معلوم ہے کہ طالبان، دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لیے قبائلی علاقوں سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔اگر ہم پاکستان سے ان بغاوتوںکو روک اور دہشت گردوں کے ان محفوظ ٹھکانوں کو ختم نہیں کر سکتے تو پھر کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ جب ہم یہ رونا روئیں کہ ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی کی جارہی ہے تودنیا ہم سے ہمدردی کا اظہار کرے۔دوسرے فریق کو سرگرم تعاقب کا حق حاصل ہے۔

پہلے ہم جہادیوں پر قابو پاکراپنے پڑوسیوں کی خود مختاری کا احترام کریں اور پھر مطالبہ کریں کہ ہماری سر زمین کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔چہارم،یہ فضول بحث ہو رہی ہے کہ حکیم اللہ کی موت ماورائے عدالت قتل ہے یا نہیں ہے۔کیا ہم کھیل تماشا کر رہے ہیں،دوستو!یہ خانہ جنگی جیسی صورت حال ہے،جس میں دوسرا فریق ،پکڑے ہوئے لوگوں کے گلے کاٹتا ہے، پر جوش طریقے سے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی حمایت کرتا ہے اور ان مناظر کو بڑے فخر کے ساتھ یو ٹیوب پر پیش کرتا ہے۔آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ پولیس یا چند رینجرز جا کرحکیم اللہ جیسے لوگوں کو گرفتار کریں اور انھیں ان کے قانونی حقوق پڑھ کر سنائیں؟۔شمالی وزیرستان میں کوئی داخل تک نہیں ہو سکتا، اس قسم کی صورت حال میںکسی دہشت گرد کو کیسے پکڑا جا سکتا ہے۔پنجم، دانائی سے عاری ہمارا خان سمجھتا ہے کہ ڈرون حملوں نے قبائلی علاقوں کے لوگوں کو دہشت گرد اور 'گلے کاٹنے والے حیوان'بنا دیا ہے۔یہ پاکستان میںدہشت گردی کی تاریخ کی مکمل نفی ہے اور ان گروپوں کے نظریے کے بہت کم ادراک کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ گروپ افغان طالبان تحریک کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیںاور نظریاتی طور پر القاعدہ کے قریب ہیں،یہی وجہ ہے کہ القاعدہ کی پروپیگنڈا مشینری ٹی ٹی پی کا مواد بھی جاری کرتی ہے۔اسلامی جہادیوں کی تخلیق کے بیج جنرل ضیاء نے بوئے تھے اور امریکی انتظامیہ کی طرف سے انھیں پروان چڑھایا گیا۔نئی نسل نے ان دونوں کے خلاف بغاوت کی،کیونکہ اسامہ کا پیغام یہ تھا کہ تمام مسلم اکثریتی ممالک کے حکمران امریکی پٹھو ہیںاور مغربیت اور جمہوریت اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔آخری بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک اور رخ شامل کیا گیا ہے جو شاید نجی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ حکیم اللہ کی ہلاکت ایک بہتر نجات ہے۔دو باتیں اس دلیل کو تقویت دیتی ہیں: اول یہ کہ اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے لوگوں نے اب کہنا شروع کر دیا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان اور انڈین انٹیلجنس کے لیے کام کر رہی تھی؛ دوئم یہ کہ حکیم اللہ کی ہلاکت سے چند روز قبل وزارت دفاع نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ڈرون حملوں کے ذریعے بے گناہ لوگوں کا اصل جانی نقصان ،دہشت گردوں کی ہلاکت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

اب سازشی نظریے پر یقین رکھنے والوں سے سوال یہ ہے کہ: اگر ٹی ٹی پی بھارتیوں اور افغانوں کے لیے کام رہی تھی تو پھر وہ امریکا کے دشمن کیسے ہو گئے؟ کیونکہ سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے ان لوگوں کے مطابق امریکا اور بھارت، دونوں پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، پھر انھوں نے ٹی ٹی پی کے سربراہ کو کیوں قتل کر دیا جو یہ کام موثر طریقے سے کر رہا تھا؟ ان سازشی نظریات پر یقین رکھنے والوں کی تاویلوںکے بارے میںجتنا زیادہ سوچا جائے، اتنی ہی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور صورت حال مزید دھندلی ہو جاتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر امریکی اس رقم کا تقاضا کر دیں،جو ہم نے ان کی طرف سے ہلاک کیے جانے والے دہشت گردوں کے سر پر رکھی ہوئی تھی تو مجھے اندیشہ ہے کہ ہمارا کولیشن سپورٹ فنڈ بھی اس رقم کو پورا نہیں کر پائے گا۔

( کالم نگار'What's wrong with Pakistan?' کا مصنف ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں